لاہور:
پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ اگر صوبے میں جنگلات کا رقبہ عالمی معیار کے مطابق ہوتا تو شاید نقصانات کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق درخت بارش کے پانی کو جذب کرنے، بہاؤ کو سست کرنے اور مٹی کو کٹاؤ سے بچانے میں فطری ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن پنجاب میں جنگلات کا رقبہ محض تین فیصد کے لگ بھگ ہے جو ماحولیاتی ماہرین کے مطابق تشویش ناک حد تک کم ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے کم از کم 25 سے 30 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری ہے، تاہم پنجاب میں یہ شرح صرف 3.1 فیصد ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے مطابق صوبے میں جنگلات کا کل رقبہ ایک اعشاریہ 663 ملین ایکڑ ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ سکرب فارسٹ (41 فیصد) کا ہے جبکہ ذاتی اراضی پر اگائے گئے جنگلات کا حصہ 27 فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور باقی حصہ ریورائن ایریا، رینج لینڈ اور کانفیریس لینڈ پر مشتمل ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ جنگلات اظفر ضیا کا کہنا تھا کہ صوبے میں شجرکاری کی وسیع مہم جاری ہے، صرف 2025 اور 2026 کے دوران 40 ہزار ایکڑ پر 51 ملین پودے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال مون سون میں 25 ہزار ایکڑ پر 21 ملین پودے لگانے کا ہدف رکھا گیا تھا جن میں سے اب تک ساڑھے 6 ملین لگائے جا چکے ہیں، موسم بہار کی شجرکاری میں ساڑھے 10 ملین سے زائد پودے ہدف سے زیادہ لگائے گئے ہیں اور ایگروفاریسٹری کے تحت کسانوں کی زمینوں پر بھی لاکھوں پودے لگائے گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں پنجاب میں جنگلات کا رقبہ سات لاکھ ایک ہزار ایکڑ کے قریب تھا جو اب بڑھ کر 12 لاکھ 63 ہزار ایکڑ ہو گیا ہے، اسی عرصے میں بنجر رقبہ 9 لاکھ 60 ہزار ایکڑ سے کم ہوکر 3 لاکھ 99 ہزار ایکڑ رہ گیا۔
ماہرین کے مطابق شرح کے اعتبار سے یہ اضافہ ناکافی ہے، جنگلات کا رقبہ صرف ایک فیصد بڑھانے کے لیے چھانگا مانگا جیسے 43 مزید جنگلات درکار ہیں لیکن صوبے میں اتنا وسیع خالی رقبہ دستیاب نہیں ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این) کے نیشنل پراجیکٹ ڈائریکٹر عاصم جمال نے کہا کہ پنجاب کے 3 فیصد جنگلاتی رقبے میں سے صرف 0.45 فیصد درحقیقت درختوں سے ڈھکا ہے جبکہ باقی بنجر ہے اور ان زمینوں پر شجرکاری کے ذریعے صوبے کو اصل تین فیصد تک لایا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ کسانوں اور زمین مالکان کو یہ باور کرانا ہوگا کہ درخت زمین کی زرخیزی بڑھاتے ہیں، فصلوں کو آفات سے بچاتے ہیں اور کاربن مارکیٹ کے ذریعے آمدن کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 11 ہزار ہیکٹر جنگلات ختم ہو جاتے ہیں، بڑے خطرات میں بے دریغ کٹائی، جنگل کی آگ، ماحولیاتی تبدیلی اور زرعی و تجارتی منصوبوں کے لیے جنگلاتی زمین کا خاتمہ شامل ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے کہا کہ جنگلات کا تحفظ محض ماحولیاتی ضرورت نہیں بلکہ معاشی مجبوری بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑے اور پرانے درختوں کی کٹائی ماحولیاتی نقصان کو بڑھا رہی ہے جبکہ شہروں میں سبز احاطے کم ہونے سے اربن فلڈنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں، انہوں نے زور دیا کہ نئے پودے لگانے کے ساتھ بالغ درختوں کا تحفظ اور شہری منصوبہ بندی میں سبزہ برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
محکمہ جنگلات کا دعویٰ ہے کہ جنگلات کی نگرانی اور تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، جی آئی ایس لیب کے ذریعے 67 فیصد رقبے کی سیٹلائٹ امیجری مانیٹرنگ ہو رہی ہے جبکہ مصنوعی ذہانت والے ڈرونز سے جنگلات میں آگ کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ 2024 میں جنگلات میں آگ کے 269 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن سے ساڑھے 6 ہزار ایکڑ متاثر ہوا تاہم 2025 میں یہ واقعات کم ہو کر 200 رہ گئے اور متاثرہ رقبہ ڈھائی ہزار ایکڑ تک محدود رہا۔
صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پہلی بار جنگلات کی لکڑی کی نیلامی کے روایتی نظام پر پابندی عائد کر دی ہے، اس فیصلے کے تحت جنگلات کی کٹائی کے واقعات کو روکنے اور شفاف ضوابط وضع کرنے کے لیے جدید میپنگ اور ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف درختوں کے تحفظ بلکہ زمینی کٹاؤ روکنے کے لیے بھی اہم سنگ میل ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ پنجاب میں شجرکاری کی پیش رفت حوصلہ افزا ہے لیکن زمین کی کمی کے باعث بڑے جنگلات لگانا ممکن نہیں، ایسے میں ایگروفاریسٹری، اربن فاریسٹری اور موجودہ جنگلات کا تحفظ ہی وہ راستہ ہے جس سے سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہوئے صوبے کو پائیدار ماحول کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔















