cns

Hacked By

Pakistani Army is a TERRORIST Organization

TERRORISTs behind the Uniforms.

Powered By

CYBER MAFIA
Telegram Twitter Facebook Instagram Gmail
WARNING to all RADICAL ISLAMIC TERRORISTS... Be Ready to Meet your 72 VIRGINs, Because your Next Journey is Straight to HELL...!!!
بلاگ – Daily Aitadal Urdu News https://aitadal.com.pk Aitadal.com.pk largest urdu website | Most read newspaper open urdu website Wed, 11 Jun 2025 08:32:51 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.1 https://aitadal.com.pk/wp-content/uploads/2025/05/cropped-cropped-Aitadal-News-Urdu-32x32.jpeg بلاگ – Daily Aitadal Urdu News https://aitadal.com.pk 32 32 اقتصادی جائزہ رپورٹ اور عام کاشتکار https://aitadal.com.pk/?p=129506 https://aitadal.com.pk/?p=129506#respond Wed, 11 Jun 2025 08:32:51 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=129506 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان نے اقتصادی جائزہ رپورٹ یعنی ’’پاکستان اکنامک سروے 2024-25‘‘ جاری کی، جس پر مختلف ماہرین رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس سروے میں شامل زرعی اعداد و شمار اور تجزیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ اکنامک سروے ہمیں کیا بتاتا ہے اور کیا نہیں بتاتا؟

اکنامک سروے میں عمومی طور پر زرعی شعبے سے متعلق اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جن میں مختلف فصلات کے زیر کاشت رقبے کی تفصیل شامل ہوتی ہے کہ کون سی فصل کتنے رقبے پر کاشت کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کل پیداوار کتنی حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار میں گزشتہ سال کی نسبت کیا تبدیلی رونما ہوئی۔

سروے میں لائیو اسٹاک یعنی مال مویشی کی افزائش میں ہونے والے اضافے یا کمی کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ زرعی مداخل جیسے بیج، کھاد، پانی اور مشینری کی دستیابی کی صورت حال کا تجزیہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، حکومت کی جانب سے شروع کی گئی زرعی اسکیموں کی پیشرفت اور ان کے اثرات کا احاطہ بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کسی فصل کی پیداوار میں اضافہ یا کمی واقع ہو، تو اس کے اسباب مثلاً موسمی حالات، مداخل کی دستیابی یا قیمتوں میں رد و بدل، بھی سروے میں بیان کیے جاتے ہیں۔

حال ہی میں جاری کیے گئے اقتصادی سروے کے مطابق، رواں مالی سال کے دوران ملک کی پانچ اہم فصلوں کی مجموعی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو ساڑھے تیرہ فیصد تک جا پہنچی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کپاس کی فصل اس سال بری طرح متاثر ہوئی، جس کی پیداوار 30 فیصد سے بھی کم رہی۔ گنے کی فصل میں بھی کمی دیکھی گئی، اسی طرح چاول کی فصل میں بھی تقریباً ڈیڑھ فیصد کمی آئی ۔ مکئی کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا اور اس کی پیداوار 15 فیصد گھٹ گئی۔ گندم، جو کہ ملک کی سب سے اہم غذائی فصل ہے، اس کی پیداوار میں بھی تقریباً نو فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ البتہ لائیو اسٹاک کے شعبے نے 4 فی صد سے زائد شرح سے ترقی کی۔ اس طرح مجموعی طور پر زراعت کی پیداواری شرح 0.58 فیصد رہی۔

فصلوں کی پیداوار سے متعلق یہ تمام معلومات بھی اہم ہیں۔ لیکن ان سے دیہی معیشت کے حقیقی اثرات کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کیونکہ اکنامک سروے یہ نہیں بتاتا کہ اگر کسی فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تو کیا اس سے کاشتکار کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے؟ مثال کے طور پر کسی کسان کی گندم کی پیداوار 40 من سے بڑھ کر 50 من ہو گئی، لیکن اگر گندم کا نرخ 4000 روپے فی من سے گر کر 2000 روپے فی من ہو گیا، تو پیداوار بڑھنے کے باوجود کسان کی آمدنی کم ہوگئی۔

رواں سال بھی رپورٹ کے مطابق زراعت میں مجموعی طور پر 0.58 فیصد ترقی دکھائی گئی ہے، لیکن جب ہم دیہی علاقوں میں کسان کی حالت دیکھتے ہیں تو وہ شدید مالی خسارے اور غیر یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔

گزشتہ سال حکومت نے گندم کی خریداری سے دستبرداری اختیار کی۔ بعض حکومتی حلقے اسے پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہیں، لیکن کاشتکار کی سطح پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس طرح کاشت کار گندم کے زیر کاشت رقبے کو کم کرکے متبادل فصلیں اگائے گا جن کے اسے مناسب دام ملیں گے۔

لیکن ایک منافع بخش متبادل فصل کا انتخاب کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جیسے کہ مقامی آب و ہوا، مٹی کی قسم، پانی کی دستیابی، اور سب سے اہم، مارکیٹ میں اس کی طلب۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا وہ فصل مقامی مارکیٹ میں خریدی جائے گی یا پھر بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی مانگ زیادہ ہے۔ بہت سی ایسی فصلیں ہیں جو روایتی فصلوں کی نسبت زیادہ منافع دے سکتی ہیں لیکن اس کے لیے کسانوں کو بروقت اور درست معلومات فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں یہ جاننا چاہیے کہ کون سی فصل ان کے علاقے کے لیے موزوں ہے، اس کی کاشت کے طریقے کیا ہیں، اور اسے کہاں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ 

کاشتکاروں نے رواں سال گندم کے متبادل سرسوں، رایا، سبزیاں اور پیاز اگائے لیکن منڈی میں سبزیوں اور پیاز کی قیمتیں اس قدر گرگئیں کہ کسان کی لاگت بھی پوری نہ ہو سکی۔

دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسی طرح زرعی اجناس بھی عالمی سطح پر منسلک ہوچکی ہیں۔ اگر پاکستان ایک جنس درآمد کرتا ہے اور دوسری جنس برآمد کر لیتا ہے اور اس عمل سے کاشتکار کو اگر مناسب دام مل جائیں تو یہ ایک دانشمندانہ حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا براہِ راست فائدہ کاشتکار کی آمدنی کی بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔

کسان آج جس قدر بے یار و مددگار ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ ایک طرف مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال، دوسری طرف حکومتی پالیسیوں کا فقدان۔ 

پاکستان میں کسانوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے کےلیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں، سب سے پہلے ایک ایسا تحقیقی ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں زرعی اجناس کی طلب اور بدلتے ہوئے رجحانات پر گہری نظر رکھے۔ اس تحقیق کی روشنی میں، کاشتکاروں کو بروقت اور مستند رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ روایتی فصلوں کے بجائے ان فصلوں کا انتخاب کر سکیں جو زیادہ منافع بخش ثابت ہوں۔

مزید برآں، زرعی پالیسیوں کو ملکی برآمدات کے ساتھ مربوط کرنا ازحد ضروری ہے؛ اس اقدام سے نہ صرف اضافی پیداوار کو عالمی منڈی میں فروخت کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے گا، بلکہ کسان کو بھی اس کی محنت کا بہتر معاوضہ ملے گا۔ 
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=129506 0
✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟ https://aitadal.com.pk/?p=129378 https://aitadal.com.pk/?p=129378#respond Mon, 09 Jun 2025 16:22:17 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=129378 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی، ایثار اور قربانی کا مظہر ہے۔ ہر سال لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عظیم عبادت کی اصل روح کو سمجھ پائے ہیں؟ یا ہم نے اسے صرف ایک “رسم” اور “سماجی مقابلے بازی” کا میدان بنا دیا ہے؟

آج کل ایک رواج عام ہو چکا ہے کہ جس کے گھر سے قربانی کا گوشت آتا ہے، اُسی کے گھر گوشت بھیجا جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے؟ گوشت کی یہ “ادلا بدلی” اب خلوص کے بجائے ایک طرح کی لین دین یا حساب کتاب بن چکی ہے: اُس نے ہمیں بھیجا تو ہم بھیجیں گے، اُس نے نہیں بھیجا تو ہم بھی نہیں بھیجیں گے۔

لیکن یہ صرف تقسیمِ گوشت کا معاملہ نہیں، بلکہ عبادت کی نیت، اس کی روح اور اس کے نتائج کا معاملہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کم خوبصورت، ہڈیوں والا یا غیر معیاری گوشت غرباء کو دے دیا جائے اور صاف ستھرا، چربی سے پاک عمدہ گوشت فریزر میں محفوظ کر لیا جائے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم قربانی کر کس کے لیے رہے ہیں؟ اللہ کے لیے؟ یا اپنے پیٹ اور فریزر کے لیے؟

میرے گھر میں، میں نے یہ اصول سختی سے نافذ کیا ہوا ہے کہ جس کے گھر قربانی ہو رہی ہے، اُسے ہم گوشت نہیں بھیجیں گے۔ خواہ وہ میری سگی بہن ہو، سگا ماموں ہو، میرے سسرال والے ہوں، دوست احباب یا قریبی پڑوسی۔ میری واضح ہدایت ہے کہ قربانی کا گوشت صرف ان لوگوں کو بھیجا جائے جن کے گھروں میں قربانی نہیں ہو رہی۔ کیونکہ وہی لوگ اس کے اصل مستحق ہیں۔ جو لوگ قربانی کر رہے ہیں، ان کے فریزر پہلے ہی بھرے ہوتے ہیں، انہیں گوشت کی نہیں، شاید خلوص کی ضرورت ہو۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا جو تصور ہے — ایک حصہ اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور ایک غریبوں کا — اُس پر آج کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر گھروں میں پورا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیا جاتا ہے، اور تین مہینے تک وہی گوشت چلتا رہتا ہے۔ تو یہ کیسا “ایثار” ہے جس میں صرف اپنا فائدہ پیشِ نظر رکھا گیا ہو؟ قربانی کے گوشت کو جمع کرنا عبادت نہیں بناتا، بلکہ تقسیم کرنا ہی اس کی اصل روح ہے۔

اور آخر میں، ایک سادہ سی مگر پُر اثر گزارش:
آپ لاکھوں روپے کا جانور خرید لیتے ہیں، خدارا اس بار ایک لاکھ کی نیت بھی خالص خرید لیں۔
قربانی صرف مستحقین تک پہنچائیں — شاید اسی میں آپ کی قربانی پوری، مکمل اور اللہ کے نزدیک قابلِ قبول ہو جائے۔

قربانی اگر اللہ کے لیے ہے تو اس میں دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر اللہ کے بندوں کے لیے ہے تو پھر اس میں خودغرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
چند لمحے رک کر سوچیں:
قربانی آپ کی عبادت ہے، یا ایک سماجی رسم؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=129378 0
حالات خراب ہیں! – ایکسپریس اردو https://aitadal.com.pk/?p=128837 https://aitadal.com.pk/?p=128837#respond Fri, 06 Jun 2025 08:05:00 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=128837 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

میں نے سب سے پہلے یہ جملہ کہ ’’حالات خراب ہیں‘‘ 1980 میں اپنے والد سے سنا جب میں نے میٹرک کے امتحانات کے بعد اپنے والد سے اپنے اسکول کے گروپ کے ساتھ پاکستان کی سیر پر جانے کی اجازت اور پیسے طلب کیے۔ کچھ میری اپنی ضد اور سب سے بڑھ کر والدہ کی سفارش کے نتیجے میں اجازت اور پیسے دونوں مل گئے۔

پورے سفر کا دورانیہ تئیس دن تھا جس میں تمام شمالی علاقہ جات بھی شامل تھی۔ اخراجات کا تخمینہ اسکول نے ساڑھے چھ سو لگایا تھا کہ جس میں رہائش، کھانا پینا اور چند مخصوص علاقوں کی سیر بھی شامل تھی۔ شاید نئی نسل کو یہ رقم ایک لطیفہ ہی لگے مگر 1980 میں یہ ایک خاصی مناسب رقم ہوتی تھی۔ 

اس سفر سے آنے کے بعد جو جملہ مستقل طور پر میری زندگی کا حصہ بن گیا وہ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’ حالات خراب ہیں‘‘۔ ایسا نہیں کہ اس سفر میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔ سفر بہترین رہا، انتظامات شاندار تھے اور یہ سفر آج بھی میری یادوں کے دریچوں میں ایک خوبصورت یاد کے طور پر محفوظ ہے۔ اس کے بعد ہر دو یا تین سال بعد میں دوستوں کے ساتھ سفر پر جاتا اور شادی کے بعد پہلے صرف بیگم اور بعد میں بچوں کے ساتھ پورا پاکستان دیکھا اور دکھایا۔ ہر سفر سے پہلے والدین سے اجازت ضرور لی لیکن اجازت سے پہلے جو جملہ سننے کو ملتا وہ یہی ہوتا تھا کہ حالات خراب ہیں، نہ جاؤں تو بہتر ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ میں نے سدھر کر دیا اور نہ حالات تبدیل ہوئے۔ ہر سفر سے پہلے یہ جملہ میرا مستقل ساتھی رہا اور آج بھی ہے کہ حالات خراب ہیں۔

اب اس صورتحال میں یہ سوال یا سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حالات کیوں خراب ہیں؟ اور حالات کس کی وجہ سے خراب ہیں؟ دونوں سوالات کے صحیح جواب دینے سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ان سوالات کے درست جوابات دینے پر آپ کی حب الوطنی پر حرف آئے گا بلکہ صاحب حرف کیا پوری پوری چارج شیٹ یا ایف آئی آر یعنی پہلی معلوماتی روداد بھی درج ہوسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ کے حالات یقیناً خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ان سوالات کے درست جواب میں ہی اس مسئلے کا حل پنہاں ہے۔ اگر میں اپنے ’’حالات‘‘ کی ’’امان‘‘ پاؤں تو عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ نظام جو کہ خود ایک ضابطہ ہوتا ہے ایک ’’منظم بے ضابطگی‘‘ کا شکار ہے اور اس کا شکار خود اس کے رکھوالے کھیل رہے ہیں بلکہ کھیل کیا رہے ہیں انھوں نے تو پورے نظام کو ہی ’’رکھیل‘‘ بنا کر رکھا ہوا ہے۔

آج ثنا یوسف کے واقعے کا بہت چرچا ہے اور کل سلمان فاروقی والے واقعے کا بہت شور و غوغا تھا۔ ابھی تھوڑے دن پہلے یہ قوم نتاشا اقبال کو کوس رہی تھی اور پھر وہ وکٹری کا نشان بنا کر باعزت بری ہوگئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور قانون ان کی پیش بندی سے قاصر ہے بلکہ اس کے آگے لاغر اور ناتواں ہیں۔ ان حالات میں سماجی ذرائع ابلاغ غریبوں کا رابن ہڈ یا سلطانہ ڈاکو بن کر نمودار ہوا ہے کہ جس کے آگے اس وقت قانون کے رکھوالے اور قانون شکن یکساں طور پر بےبس ہیں۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ کوئی صحت مندانہ رحجان نہیں ہے بلکہ ایک کمزور، بیمار اور ذہنی طور پر معذور معاشرے کی علامت ہے کہ جس کا انجام سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔

یہ سماجی ذرائع ابلاغ اس وقت ایک مادر پدر آزاد نظام بنا ہوا ہے کہ جو یکطرفہ روداد سنا یا دکھا کر معاشرے میں ہیجانی کیفیت طاری کردیتا ہے اور اس یکطرفہ کارروائی پر معاشرہ اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے اور اس فیصلے کے قانون اپنی کارروائی ضرور کرتا ہے کہ جس سے قانون کی بالادستی ضرور مستحکم ہوتی ہے مگر انصاف شرط نہیں ہوتا۔ 

سماجی ذرائع ابلاغ کیسے کام کرتا ہیں اس پر ایک کہانی اور اختتام۔ ایک بادشاہ کے سامنے ایک مقدمہ رکھا گیا۔ مقدمہ بالکل سیدھا تھا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ مدعی حق پر ہے مگر مدعا علیہ زور زور سے اور چیخ چیخ کر اپنا دفاع کررہا تھا اور اپنا دعوٰی بیان کررہا تھا۔ بادشاہ نے مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا، بعد میں جب دربار نے جان کی امان طلب کرکے اپنی اصلاح کےلیے بادشاہ سے فیصلے کی وجہ پوچھی تو بادشاہ نے جواب دیا کیا تمھیں نہیں پتہ کہ سچ کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا تو جس کی آواز تیز اور اونچی تھی میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر پورا دربار بادشاہ کی ثنا میں گونج اٹھا۔

یہی حقیقت اس وقت سماجی ذرائع ابلاغ کی ہے۔ نظام کی بربادی کے نتیجے ایک متبادل چیز پرورش پارہی ہے کہ جس کو نظام تو بالکل نہیں کہا جاسکتا، ہاں ایک مکمل افراتفری سے پہلے کی ایک شکل ضرور ہے اور اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے اور سدھرے تو پھر ہر چیز کا اللہ ہی حافظ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=128837 0
عیدالاضحیٰ، یہودی معاشی نظام پر کاری ضرب https://aitadal.com.pk/?p=128308 https://aitadal.com.pk/?p=128308#respond Wed, 04 Jun 2025 06:20:18 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=128308 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

جیسے ہی عیدالاضحیٰ قریب آتی ہے، سوشل میڈیا پر ایسی مہمات کا آغاز ہوجاتا ہے جو مسلمانوں کو قربانی جیسے اہم فریضے سے بدظن کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جانوروں کے حقوق، غربت، یا ماحولیات جیسے بہانے بنا کر قربانی کے عمل کو غیر ضروری اور ظالمانہ ثابت کیا جاتا ہے، حالانکہ یہی لوگ دیگر مذاہب کی فرسودہ، غیر منطقی اور فضول خرچی پر مبنی رسومات پر خاموش نظر آتے ہیں۔

یہ مہم دراصل ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جو زیادہ تر یہودی لابی کی طرف سے پھیلائی جاتی ہے جبکہ کندھا، لبرل مافیا اور دین سے ناواقف افراد کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو ان کی دینی جڑوں سے کاٹا جاسکے۔

عیدالاضحیٰ پر یہودی اعتراضات کا پسِ منظر

یہودیوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی روایت سے مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ ان کی کتابوں کے مطابق وہ بیٹا حضرت اسحاق علیہ السلام تھے جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کےلیے پیش کیا۔ (Torah: Genesis 22)

جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ بیٹا حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، جنہیں خواب کے بعد اللہ کی رضا کےلیے قربان کرنے کا ارادہ کیا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیجا۔ قرآن کریم کی ترتیب اور سیاق و سباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا، اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش بعد میں ہوئی۔ اس نظریاتی فرق  اور بنی اسماعیل سے نفرت کی جڑیں یہودیوں کے اس عقیدے میں ہیں کہ نبوت کا سلسلہ صرف بنی اسرائیل میں رہنا چاہیے تھا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی اسماعیل میں مبعوث فرما کر ان کی سوچ کو چیلنج کردیا۔

یہی وہ اصل وجہ ہے کہ عیدالاضحیٰ پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کا چرچا، یہودیوں کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کی منافقت اس بات سے بھی عیاں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گو کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے لیکن چونکہ وہ سودی نظام اور بینکنگ کی یہودی طرز کے خلاف تھے اسی لیے یہودیوں نے انہیں بھی جھٹلا دیا اور ان کے قتل کے منصوبے بھی بنائے۔

یہودی معاشی نظام پر ضرب

عیدالاضحیٰ نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایک مضبوط معاشی نظام کا حصہ بھی ہے۔ ہر سال لاکھوں اوورسیز مسلمان اور پاکستانی قربانی کےلیے اپنے اپنے وطن رقم بھیجتے ہیں کیونکہ وہاں قربانی مہنگی ہوتی ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہوتا ہے جو وہ دنیا کے ان یہودی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے نکال کر اپنے اپنے ملک کی معیشت میں ڈالتے ہیں، جس سے یہودی لابی کو براہ راست مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس رقم سے ملک میں اربوں روپے کی معیشت گردش کرتی ہے، لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے، قصاب، ٹرانسپورٹر، چارہ فروش، چمڑے کی صنعت، سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی معاشی فائدہ بعض طاقتوں کو کھٹکتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر اسلامی ممالک خود کفیل بنیں۔

اس کے علاوہ عیدالاضحیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور نظم و ضبط کی علامت ہے۔ ہر قوم، ہر زبان، ہر علاقے کے مسلمان ایک ہی جذبے اور وقت میں ایک جیسے عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ عالمی اسلامی یکجہتی مغرب اور یہودیوں کےلیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ انہیں ایک منظم اور بیدار امت سے ہمیشہ خوف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے نفسیاتی حملے کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنے مذہب سے دور اور منتشر رکھا جاسکے۔

ایّامِ نَحر (عیدالاضحیٰ کے تین دنوں کی فضیلت)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان دنوں (یعنی عشرۂ ذوالحجہ) میں کیا گیا نیک عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا جہاد بھی ان دنوں کے عمل جیسا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جہاد بھی نہیں، سوائے اُس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور کچھ بھی واپس نہ آیا (یعنی سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا)‘‘ (بخاری کتاب العیدین، حدیث نمبر: 969)

اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو‘‘۔ (جامع الترمذي، حدیث نمبر: 1493)

ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اِن دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل مقبول نہیں یہاں تک کہ قربانی، جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل ٹھہری، تاوقتیکہ مسلمان اپنی جان اور مال و اسباب بھی اللہ کی راہ میں نہ لُٹا آئے، کیونکہ قربانی کی اصل روح بھی مسلمان کی ٹریننگ ہے تاکہ وہ بوقتِ ضرورت اپنی جان تک قربان کرنے کےلیے تیار رہے۔

اسلامی شعائر نہ صرف عبادت بلکہ ایک مکمل طرزِ حیات ہیں، جن میں قربانی جیسے اعمال انسان کو قربِ الٰہی کے ساتھ ساتھ معاشرتی، معاشی اور روحانی فوائد بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان سازشوں کو پہچانیں اور اپنی آنے والی نسل کو دینی شعائر کی اصل روح سے آگاہ کریں، تاکہ وہ کسی بھی بیرونی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=128308 0
ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف اور پاکستان کی معیشت پر اثرات https://aitadal.com.pk/?p=127805 https://aitadal.com.pk/?p=127805#respond Mon, 02 Jun 2025 07:53:54 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=127805 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

بین الاقوامی معاشی پالیسیوں کا اثر صرف اُن ممالک تک محدود نہیں رہتا جو براہ راست اس پالیسی کا نشانہ بنتے ہیں، بلکہ یہ دنیا بھر کی معیشتوں پر غیر مرئی مگر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا نے جو تجارتی پالیسیاں اپنائیں، ان میں سب سے نمایاں پالیسی ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ اور اس کے تحت تجارتی ٹیرف (Tariffs) کا نفاذ تھا۔ ان ٹیرف کا بنیادی مقصد چینی مصنوعات کی حوصلہ شکنی اور امریکی مقامی صنعت کا تحفظ تھا، لیکن اس پالیسی نے عالمی تجارتی توازن کو متاثر کیا اور اس کا دائرہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تک پھیل گیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے چین، یورپی یونین، میکسیکو اور کینیڈا جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں پر اربوں ڈالر مالیت کے ٹیرف عائد کیے۔ گوکہ پاکستان براہ راست ان پابندیوں کا ہدف نہیں تھا، مگر عالمی سطح پر پیدا ہونے والا عدم توازن پاکستان کی معیشت پر کئی زاویوں سے اثر انداز ہوا۔

پاکستان کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک برآمدات پر ہے، جن میں ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، چمڑا، اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں۔ امریکی ٹیرف نے چین جیسے بڑے برآمد کنندگان کو محدود کیا تو امریکا نے متبادل منڈیوں کی تلاش شروع کی، جس میں پاکستان کو ایک موقع مل سکتا تھا۔ تاہم، پاکستانی صنعت ان مواقع سے مکمل فائدہ نہ اٹھا سکی۔ بنیادی وجوہات میں غیر معیاری پیداوار، برانڈنگ کی کمی، اور برآمدات کےلیے درکار عالمی سرٹیفکیشنز کا فقدان شامل ہیں۔ توانائی کے بحران اور مہنگی لاگت نے بھی پاکستانی برآمدکنندگان کو عالمی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔

ٹرمپ کے ٹیرف نے نہ صرف تیار شدہ مصنوعات کی تجارت کو متاثر کیا بلکہ عالمی سطح پر خام مال، خصوصاً کیمیکلز، دھاتوں اور صنعتی مشینری کے نرخوں میں بھی اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔ چونکہ پاکستان کئی اشیاء کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار کرتا ہے، اس لیے ان قیمتوں میں اضافے نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2023 میں صنعتی خام مال کی درآمدی لاگت میں 17 فیصد تک اضافہ ہوا، جس کا براہِ راست اثر مقامی صنعتوں پر پڑا۔

امریکی ٹیرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں چین اور دیگر متاثرہ ممالک کی معاشی سست روی نے عالمی سرمایہ کاری کا رجحان بدل دیا۔ جب امریکا میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا، تو فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود بڑھا دی، جس کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ امریکا کی طرف منتقل ہونے لگا۔ پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں سے سرمایہ نکلنے لگا، اور روپے کی قدر دباؤ میں آگئی۔ اس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا بلکہ درآمدی اشیاء کی لاگت بھی بڑھی۔

ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے عالمی مارکیٹ میں جو خلل پیدا ہوا، اس نے پاکستان میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (SMEs) کو شدید متاثر کیا۔ ایک طرف برآمدات کی قیمتیں عالمی مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہیں، دوسری طرف خام مال مہنگا ہونے سے منافع کم ہوا۔ ایسے میں متعدد صنعتیں یا تو بند ہوگئیں یا محدود دائرہ کار میں کام کرنے پر مجبور ہوگئیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بحران کے پہلو میں مواقع بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیرف کے بعد امریکا اور دیگر مغربی ممالک متبادل سپلائرز کی تلاش میں تھے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا، تو ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اپنی جگہ بنا سکتا تھا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر برآمدات کے معیار، برانڈنگ، اور سرٹیفکیشن کے نظام کو بہتر بناتے۔ GSP+ جیسے تجارتی معاہدوں پر عمل درآمد کو وسعت دینا بھی نہایت ضروری ہے۔

آگے بڑھنے کےلیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ تجارتی سفارت کاری کو مؤثر بنائے، علاقائی منڈیوں مثلاً افریقہ، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو ہدف بنائے، اور مقامی صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی پالیسیاں ایسی ہوں جو برآمد کنندگان کے لیے معاون ثابت ہوں، نہ کہ رکاوٹ۔

ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف بظاہر صرف بڑی عالمی طاقتوں کی معاشی جنگ کا حصہ تھے، لیکن ان کی بازگشت پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سنائی دی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایسی عالمی پالیسیوں کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے طویل مدتی تجارتی اور صنعتی پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ بصورت دیگر، ہر عالمی جھٹکا ہماری ناتواں معیشت کو مزید زک پہنچاتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=127805 0
جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم یا دوستانہ تعلقات https://aitadal.com.pk/?p=127652 https://aitadal.com.pk/?p=127652#respond Sun, 01 Jun 2025 09:15:00 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=127652 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

حال ہی میں شنگریلا ڈائیلاگ میں بریفنگ دیتے ہوئےچیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا حل ناگزیر ہے۔

ان کے اس بیان میں عالمی طاقتوں کےلیے کھلا پیغام ہے کہ اس خطے میں خصوصاً پاک بھارت تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ درحقیقت یہ خطرہ اب سب ہی محسوس کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کو پاک بھارت کی حالیہ پیدا ہوتی جنگ کو فوراً ہی سیز فائر کی جانب لانے کےلیے درمیان میں آنا پڑا حالانکہ اس سے چندروز قبل ہی وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پاک بھارت معاملے میں ’نیوٹرل‘ رہیں گے۔

بلاشبہ خطے کے ان نئے حالات کا سب کو ادراک ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ( سربراہ عوام پاکستان پارٹی) نے بھی گزشتہ روز ’ہیمون پیس فورم انٹرنیشنل‘ کے زیر اہتمام ’جنوبی ایشیا کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال میں پاکستان کو درپیش چیلنج‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان حال ہی میں سرحدوں کے محاذ پر بھارت کو شکست دے چکا ہے اور دنیا میں ہماری فوج کی برتری ثابت ہوچکی ہے لیکن دیگر محاذ پر ہمیں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گو کہ ہماری فوج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے مگر اس موقع پر بھی بہت سے ممالک پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہے کیونکہ ان کے بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کو مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بھی فروغ دینا ہوگا اور پڑوسیوں سے بھی برابری کی سطع پر اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔

اس موقع پر مفتاح اسمٰعیل اور ڈاکٹر شجاعت حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا سمیت تمام لوگوں کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ان حالات کو نہ صرف بین الاقوامی برادری سمجھے اور اپنا فعال کردار ادا کرے بلکہ خود بھارت اس صورتحال کو اور ان زمینی حقائق کو سمجھے۔ اب نہ تو دنیا اس پرانے ’دو قطبی‘ نظام والے دور میں ہے کہ اپنے اتحادیوں کی پشت پناہی سے پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جاسکے اور نہ ہی پاکستان دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور ہے کہ کوئی ’سرجیلے آپریشن‘ کرکے پاکستان کو دباؤ میں لایا جاسکے۔

بات سیدھی سی ہے کہ اب دونوں ملکوں کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں امن قائم ہو، آپس میں نہ صرف تجارت ہو بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت ہو، بالکل اسی طرح جس طرح کہ پاکستانی اور بھارتی عوام دیگر کسی ممالک میں سفر کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام بے شمار مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے دانشور ایک دوسرے کے ملک میں ہونے والے پروگراموں میں نہیں جاسکتے، دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کا ہونا بھی دشوار ہے، سگے رشتے دار برسوں میں بھی اپنے پیاروں سے مل نہیں سکتے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی ماضی میں کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر جب بھی یہ کوشیشیں کامیاب ہونے لگتی ہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما ہوجاتا ہے کہ جس سے یہ ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دورے حکومت میں بس سروس اور تجارت کے حوالے سے اچھی کوششیں کی تھیں مگر یہ بھی کسی واقعے کی نذر ہوگئیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت لوگوں کی ہجرت تاریخ کی ایک سب سے بڑی ہجرت تھی کہ جس میں لاکھوں خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہوگئے۔ شروع کی دہائی میں تو یہ خاندان بغیر ویزے کے ایک دوسرے ملک میں باآسانی اپنے رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے تھے مگر رفتہ رفتہ دونوں ملکوں کی پالیساں سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئیں اور اب یہ حال ہے کہ ویزے کا حصول ہی ناممکن ہوگیا ہے۔

دنیا اب بدل رہی ہے، حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ بنگلہ دیش کے بھی حالات تبدیل ہوئے ہیں اور وہ بھی پاکستان کے ساتھ سفری آسانیاں پیدا کر رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے عوام باآسانی ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں اور تجارت بھی کرسکیں۔ تجارت کے حوالے سے تو پاکستان اور بھارت کے صرف تاجروں کو ہی نہیں، دونوں اطراف کے عوام کو بھی بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بہت ساری اشیاء پاکستانی عوام کو سستی مل سکتی ہیں اور اسی طرح بھارتی عوام کو بھی بہت ساری اشیاء سستی مل سکتی ہیں۔ گویا امن اور محبت کا راستہ دونوں ملکوں کےلیے نہایت مفید ہے لیکن اس کو اپنانے کےلیے پہلے ایک دوسرے کے وجود کو دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔

بھارت کا اصل مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، جس کی ایک وجہ یقیناً بھارت کی سیاسی صورتحال ہے کہ جہاں ووٹ کے حصول کے انتہا پسند جماعتیں پاکستان دشمنی کے نعرے کو استعمال کرتی آرہی ہیں۔ بہرحال پاکستان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان سے جاری ہونے والے بیانیے خواہ وہ فوج کی جانب سے ہوں یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے، سب نے امن، محبت اور برابری کے تعلقات کی بات کی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی حال ہی میں یہی پیغام دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین برابری کی بنیاد پر، اچھے دوستانہ اور تجارتی تعلقات بھی ہونے چاہئیں، اب بھارت کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے، جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم یا دوستانہ تعلقات؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=127652 0
کم عمری میں شادی کے خلاف بل پر اعتراضات کیوں؟ https://aitadal.com.pk/?p=127104 https://aitadal.com.pk/?p=127104#respond Fri, 30 May 2025 06:00:49 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=127104 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

شانزے جو ابھی کالج سے گھر آئی تھی، ماں کے کہنے پر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ سامنے بیٹھے انجان چہروں نے لڑکی پسند آنے کی نوید سنائی تو مارے خوشی کے ماں نے بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔ شانزے کی عمر ابھی 17 برس ہے، شادی کے نام پر شانزے کا بچپن ختم کردیا گیا۔

کم عمری کی شادی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں ایسا مسئلہ ہے جو کئی دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کردی جاتی ہے۔ عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو صرف بھارت ہی ایک تہائی کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کا ملک ہے۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جیسے ظالمانہ اقدامات کے بعد افغانستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جس کے نتیجے میں 15 سے 19 برس کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2002 میں ہر 3 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوئی۔

افریقی ممالک جیسے کہ نائیجیریا، چاڈ اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی کی شرح 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ شدید غربت، تعلیم اور خواتین میں خودمختاری کا فقدان ہے۔

2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، البتہ اب بھی یہ مسئلہ لاکھوں بچوں کو متاثر کررہا ہے۔

 

صحت پر مہلک اثرات 

کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کی صحت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس عمر میں جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں میں غذائی کمی اور امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور ماں اور بچے کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین کے بچوں میں اسہال کی بیماری کا خطرہ 59 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔

 

تعلیم اور معاشی مواقع کی محرومی

کم عمری کی شادی میں زیادہ تر لڑکیوں پر گھریلو اور ازدواجی ذمے داریوں کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے خواتین مستقبل میں بہتر معاشی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 631,000 لڑکیاں کم عمری میں شادی کے باعث تعلیم سے محروم ہوئیں۔ یہ محرومی نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کم ہو جاتی ہے۔

 

گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل

کم عمری کی شادی کے نتیجے میں لڑکیاں گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین میں گھریلو تشدد کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈپریشن، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرتی ہیں۔

 

کم عمر کی شادیوں کے لڑکوں پر اثرات

اگرچہ کم عمری کی شادیاں زیادہ تر لڑکیوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن لڑکوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں 115 ملین لڑکوں کی 18 سال سے پہلے شادی ہوئی۔ کم عمر لڑکوں کو خاندان کی مالی ذمے داری اٹھانے کا دباؤ پڑتا ہے، جس کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کی تعلیم اور ذاتی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں شادی شدہ جوڑا جو ذہنی طور پر خود ناپختہ ہوتا ہے ان پر بچوں کی بھاری ذمے داری بھی پڑجاتی ہے جسے احسن طریقے سے پورا کرنا صرف ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل منظور ہونا خوش آئند ہے۔ اس بل میں نہ صرف کم عمر بچوں کے نکاح کے اندراج کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ایسی شادیوں میں والدین اور سرپرستوں کےلیے سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں جن کا مقصد اس مسئلے کو حقیقتاً جڑ سے ختم کرنا ہے جو کہ یقیناً ایک بہترین اقدام ہے۔

لیکن بدقسمتی سے کئی حلقوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بل پر نہ صرف اعتراض اٹھایا ہے بلکہ بل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے کر دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے۔ یعنی جن افراد کو قوم کو سمجھانے کا فرض ادا کرنا چاہیے تھا وہ ایسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق جوڑنا اور ازدواجی مسائل کو فروغ دینا جائز سمجھتے ہیں جن کو ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں دیا جاسکتا۔

ان تمام معترضین سے سوال ہے کہ کبھی وہ آبادی کے بڑھنے، بے ہنگم ہجوم سے لے کر خواتین پر تشدد سمیت ایسے کون سے مسائل ہیں جن کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوں؟ کیا ملک بھر میں تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو اب آپ 18 برس سے کم عمر بچوں سے ان کا بچپن اور لڑکپن چھین کر انھیں ازدواجی زندگی کے بوجھ تلے دبانے کے لیے اتنے پرجوش ہیں؟ اور اگر آپ ایسی خواہش رکھتے ہیں تو کیا کم عمری کی شادیوں کے سنگین نتائج کی ذمے داریاں بھی قبول کریں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=127104 0
جنگ نہیں امن: پاکستان کی حکمتِ عملی اور بھارتی سیاست کا بحران https://aitadal.com.pk/?p=126196 https://aitadal.com.pk/?p=126196#respond Mon, 26 May 2025 09:01:45 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=126196 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

جنوبی ایشیا ایک بار پھر پاک – بھارت کشیدگی کے سائے میں آیا، مگر اس بار سیاسی، سفارتی اور جغرافیائی توازن نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ جہاں بھارت کو اپنی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث شدید داخلی و خارجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، وہیں پاکستان نے متوازن حکمت عملی، فعال سفارت کاری اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کیا بلکہ ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنی عالمی حیثیت کو مزید مضبوط کیا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے ہمیشہ قومی سلامتی اور عسکری قوت کے بیانیے کو انتخابی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔ حالیہ کشیدگی میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا، جہاں بھارتی حکومت نے ایک جانب عسکری کارروائیوں کے دعوے کیے تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ تاہم جب نتائج ان دعوؤں کے برعکس نکلے تو اپوزیشن نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے دوران بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے نقصان پر مودی سرکار سے سخت سوالات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی کوئی بڑی عسکری کامیابی حاصل ہوئی ہے تو بھارت عالمی حمایت سے کیوں محروم رہا؟ سوشل میڈیا پر بھی ’’فیک وار‘‘، ’’الیکشن اسٹنٹ‘‘ اور ’’ریاستی ڈرامہ‘‘ جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ عوام میں سرکاری بیانیے پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔

نریندر مودی کو جس تنظیم کی مکمل حمایت حاصل رہی، وہ ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) تھی۔ لیکن حالیہ واقعات نے اس تنظیم کے سینئر رہنماؤں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ کئی رہنماؤں نے غیرعلانیہ طور پر مودی کی جنگی پالیسی کو ’’ناکام شو آف پاور‘‘ قرار دیا۔ بی جے پی کے بعض اراکین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ مودی کی جارحانہ حکمت عملی بھارت کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

اگر نریندر مودی کے 2014 سے اقتدار میں آنے کے بعد کیے گئے بیرونی دوروں کا تنقیدی و تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو نریندر مودی نے 2014 سے اب تک 70 سے زائد غیر ملکی دورے کیے۔ ان میں امریکا، چین، روس، یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ ابتدا میں ان دوروں کو بھارت کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش سمجھا گیا، لیکن بعد ازاں یہ سوالات جنم لینے لگے کہ ان دوروں کا عملی فائدہ کیا ہوا؟ پاکستان جیسے اہم علاقائی فریق کے خلاف بھارت کوئی خاطر خواہ سفارتی حمایت حاصل نہ کرسکا۔ او آئی سی نے کشمیر پر بھارت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں قراردادیں منظور کیں، جبکہ اقوام متحدہ نے بھارت کی یکطرفہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان نے کشیدگی کے آغاز ہی سے متوازن اور بردبار حکمت عملی اپنائی۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ آپریشن ’’سندور‘‘ کے دعوے کیے گئے، تو پاکستان نے عسکری محاذ پر بھرپور تیاری کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی فوری اقدامات کیے۔ پاکستان نے ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا آغاز کیا، جس کا مقصد محض عسکری جواب دینا نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی بیانیہ مضبوط کرنا تھا۔

’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کو نہ صرف پاکستانی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوئی بلکہ عالمی مبصرین نے بھی اسے ایک متوازن، محدود اور مؤثر عسکری حکمت عملی قرار دیا۔ پاکستان نے اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے دفاع کا حق استعمال کیا، اور اپنے اقدامات کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پیش کیا۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نئی توانائی ملی اور اسے ایک پرامن اور ذمے دار نیوکلیئر ریاست کے طور پر سراہا گیا۔

پاکستانی دفترِ خارجہ اور فوجی قیادت نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین، چین، ترکی اور دیگر اہم ممالک سے براہِ راست رابطے کیے۔ ان رابطوں نے واضح کیا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری سے رابطے میں ہے اور ذمے داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

چین، ترکی اور آذربائیجان نے پاکستان کے مؤقف کی نہ صرف زبانی بلکہ عملی حمایت کی۔ چین نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور بھارت کی یکطرفہ پالیسیوں پر تنقید کی۔ ترکی نے بھارتی اشتعال انگیزی پر براہِ راست بیانات جاری کیے اور پاکستان کے دفاعی حق کو تسلیم کیا۔ آذربائیجان نے بھی بھرپور سفارتی حمایت فراہم کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کی سفارتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔

اس کے برعکس، بھارت کو روایتی حمایت تک میسر نہ آ سکی۔ یورپی ممالک اور کئی نیوٹرل طاقتیں اس بار بھارت کے موقف کی حمایت سے گریزاں رہیں۔ بعض مبصرین نے بھارت کی پالیسی کو علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس بحران میں جس تدبر، صبر اور ذمے داری کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس سفارتی کامیابی کو ایک نئے آغاز میں تبدیل کرے۔ اقتصادی سفارت کاری کو فروغ دینا، سی پیک جیسے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنا، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات قائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

داخلی سطح پر اتحاد، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور میڈیا کے شعبوں میں اصلاحات سے نہ صرف قومی ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک جدید، معتدل اور قابلِ اعتبار ریاست کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے قومی پالیسیوں میں تسلسل، میڈیا کا مثبت کردار، نوجوانوں کی شمولیت اور عالمی سطح پر مؤثر عوامی سفارت کاری ضروری ہو گی۔

پاک بھارت حالیہ کشیدگی نے ایک نیا منظرنامہ پیش کیا ہے، جہاں پاکستان نے ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے عسکری، سفارتی اور سیاسی محاذوں پر بہترین حکمت عملی اختیار کی۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کےلیے پاکستان جیسے باوقار شراکت دار کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان کو اب ان کامیابیوں کو مستقبل کی ترقی، استحکام اور امن کی بنیاد بنانا ہوگا، تاکہ خطے میں ایک متوازن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=126196 0
تعلیم یا تشدد؟ اسکولوں میں بچوں پر جسمانی سزا کا جائزہ https://aitadal.com.pk/?p=125768 https://aitadal.com.pk/?p=125768#respond Sat, 24 May 2025 09:14:03 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=125768 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

پاکستان میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کی مار ایک روایتی جملہ ہے۔ یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ اگر کسی کو بچپن میں استاد کی مار پڑ گئی ہوتی تو وہ ایسا نہ ہوتا جیسا اب ہے بلکہ بالکل سُدھر گیا ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں استاد کا رعب اور ڈنڈا تربیت کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے، اور ’’مار نہیں پیار‘‘ جیسا تصور یا تو کمزور بچوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے یا مغربی معاشروں کی نقالی۔

 

روایتی سوچ بمقابلہ جدید تحقیق

روایتی طور پر استاد اور مدرس کی مار کو طالب علموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم مغرب میں یہ تصور مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ وہاں بچوں کی جسمانی اور دماغی نشوونما کے لیے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ انہیں عزت دی جائے، ڈرایا نہ جائے، اور ان کی شخصیت کو نرمی اور رہنمائی کے ذریعے نکھارا جائے۔

ماہرین نفسیات اور تعلیمی محققین کا ماننا ہے کہ جسمانی سزا نہ صرف بچے کے اعتماد کو کم کرتی ہے بلکہ اس کے اندر سیکھنے کی فطری خواہش کو بھی دبا دیتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات جسمانی سزا کا فوری نتیجہ نظم و ضبط کی شکل میں نظر آتا ہے، لیکن طویل المدت اثرات میں خوف، ذہنی دباؤ، غصہ، اور بغاوت جیسے رویے جنم لیتے ہیں۔

 

پاکستان میں صورتحال

پاکستان کے سرکاری و نجی اسکولوں کے علاوہ مذہبی مدارس سے بھی اساتذہ کی جانب سے بچوں کو مارنے کے واقعات کی خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ اخبارات، ٹی وی رپورٹس اور سوشل میڈیا پر ان واقعات کی ویڈیوز نے عوامی شعور کو بیدار کیا ہے، تاہم عملی طور پر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

قانونی طور پر پاکستان میں بچوں پر جسمانی سزا کے خلاف مختلف قوانین موجود ہیں، جیسے کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ، لیکن ان پر عملدرآمد بہت محدود ہے۔ اساتذہ کی تربیت اور مانیٹرنگ کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

 

یونیسیف کی رپورٹ اور عالمی اعداد و شمار

کھیل کے پہلے عالمی دن کے موقع پر یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو گھروں میں باقاعدگی سے نفسیاتی یا جسمانی سزا کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے 33 کروڑ بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے، جو کہ ایک انتہائی افسوسناک اور تشویشناک حقیقت ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور سوچیں کہ کیا واقعی مار پیٹ ایک مؤثر تدریسی طریقہ ہے؟

 

کیا مارنے سے تعلیم بہتر ہوتی ہے؟

یہ ایک اہم سوال ہے جس پر والدین، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کو غور کرنا چاہیے۔ کیا ایک ڈرا ہوا بچہ واقعی بہتر سیکھتا ہے؟ یا وہ صرف استاد کے خوف سے وقتی طور پر خاموش اور تابع بن جاتا ہے؟ تحقیق کہتی ہے کہ خوف کے ماحول میں سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ بچہ سوال کرنے سے گھبراتا ہے، غلطی کرنے سے ڈرتا ہے، اور نتیجتاً اس کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔

 

متبادل کیا ہے؟

اس کا متبادل ’’مثبت نظم و ضبط‘‘ (Positive Discipline) ہے، جو دنیا بھر میں کامیابی سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میں اساتذہ بچوں سے مشفقانہ انداز میں بات کرتے ہیں، ان کے جذبات کو سمجھتے ہیں، اور نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے بات چیت، رہنمائی، اور حوصلہ افزائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بچہ اعتماد کے ساتھ سیکھتا ہے، سوال کرتا ہے، غلطی کرتا ہے اور اس سے سیکھتا ہے۔

 

استاد کا کردار

استاد محض علم دینے والا فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ بچے کی شخصیت سازی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر استاد محبت، توجہ، اور احترام کا ماحول فراہم کرے تو بچہ نہ صرف علمی لحاظ سے بہتر بنتا ہے بلکہ ایک بہتر انسان بھی بن کر ابھرتا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ’’مار کے حق میں‘‘ دلائل کو چھوڑ کر ’’پیار سے تربیت‘‘ کے جدید اصولوں کو اپنائیں۔ بچوں کو مار کر سکھانا ایک پرانا اور ناکام طریقہ ہے، جو نہ صرف ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ تعلیم کے مقصد کو بھی فوت کر دیتا ہے۔ معاشرے کو اساتذہ کی تربیت، والدین کی آگاہی، اور قوانین پر عملدرآمد کے ذریعے جسمانی سزا کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اعتماد، ذہانت، اور تخلیقی سوچ کے ساتھ بڑے ہوں، تو ہمیں انہیں ایک ایسا ماحول دینا ہوگا جہاں ان کی عزت کی جائے، نہ کہ انہیں سزا کا نشانہ بنایا جائے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=125768 0
خط: خوشبو، شاعری اور ایک کھویا ہوا زمانہ https://aitadal.com.pk/?p=125548 https://aitadal.com.pk/?p=125548#respond Fri, 23 May 2025 08:16:53 +0000 https://aitadal.com.pk/?p=125548 مزید پڑھیں]]> [ad_1]

ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔

صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔

ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا… یہ سب خط پڑھنے کے وہ تجربے تھے جو صرف محسوس کیے جا سکتے تھے، بیان نہیں۔

پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے… اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔

جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا … شاید ایک پل کےلیے … دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔

کئی دن بعد اس کا جواب آیا … اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔

آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟

آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے … لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔

’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ … یہ سب کہاں چلا گیا؟

ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟

خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔

کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔

اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:

’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)

اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔

آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب…

جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔

شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں…
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

]]>
https://aitadal.com.pk/?feed=rss2&p=125548 0
https://www.voleybolum.org/
https://www.arschorus.com/
https://nanucloud.com/about-us/
https://www.ucandaire.org/
https://nelsonhouseantiques.com/
https://www.bng-tech.com/en/
https://mikestgp.com/
https://mindspecialistsschool.com/site/about/
https://cherrylodgecancercare.org/
https://lsppetalindo.com/klien/
https://couprie.org/
https://tabaldefouta.org/
https://smyrnalibrary.org/
https://www.blueridgecafefloyd.com/
https://kaashitech.com/
https://tanglewood-neighbors.org/
https://themusictionary.com/
https://shmechanicals.com/
https://hoteldesetrangers.com.tr/canakkale/
https://metalescamacho.com/nosotros/
https://www.5tips.co/freebies/
https://fcjcorredoresdeseguros.com/contacto/
https://poligreenperu.com/servicios/
https://webbasel.com/
https://abaclofen.com/
https://noobzinho.com/
https://aprilisarte.com/
https://elmentor.com.py/contact-us/
https://jmluque.gov.py/minutas/
https://perkimtan.sentanateknologi.co.id/
https://www.weldcounty150.org/
https://soteria-alaska.com/
https://servicio-maritimo.com/
https://xn--viasyparrasdelsur-gxb.com/contact/
https://sitiodato.com/contacto/
https://calientitas.club/21-2/
https://www.bdoentry.com/
https://richpointofview.com/
https://www.beingawoman.org/events/
https://www.hotelssilvassa.com/
https://www.tirarobots.com/
https://www.simetiket.com/referanslar/
https://www.kozhikodecitypolice.org/
https://forum-muzyczne.net/
https://cihangirescort.com/
https://cbdproductstrust.com/
https://tutgrodno.com/
https://www.poe-eureka.com/
https://brothersisterplays.org/
https://o.dijitalnesilakademisi.com/
https://cos.coop.py/creditos/
https://cakirgaraj.com/fiyat-listesi/
https://cakirogluikinciel.com/iletisim/
https://www.mitrajectoires.org/
https://vitalofc.org/
https://praunik.org/
https://haitileveproject.org/
https://pulaubidong.org/
https://adapazariescortbayanlar.com/
https://edoxycyclinep.com/
https://cengelkoyescortq.com/
https://ajedrezenmexico.org/
https://heavymetalencyclopedia.com/
https://ceritawarga.com/
https://www.zerfachaouis.com/
https://cantorscience.org/
https://grandinotizie.com/
https://annandalepei.com/
https://yazarmezar.com/
https://grandinotizie.com/
https://annandalepei.com/
https://vamoselche.com/
https://ourmusiq.com/
https://cinaradak.com/hakkimizda/
https://app.brdoc.com.br/
https://woaasrhockey.com/
https://gagra-city.com/
https://astrofotografia.org/
https://perkimtan.sentanateknologi.co.id/
https://wfh.umi.id/