112

حج، عشق الٰہی کا مظہر

حج، ارکانِ اسلام کا ایک عظیم الشان رکن ہے جو اپنی اہمیت و افادیت اور فضائل و برکات کی بناء پر ہر سال بڑے جوش و جذبے اور انتہائی محبت و عقیدت سے ادا کیا جاتا ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت ادا کیا جاتا رہے گا۔

چناں چہ ماہِ ذی الحجہ کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے مسلمان مختلف ملکوں، مختلف علاقوں اور مختلف خطوں سے اکٹھے ہوکر دیوانہ وار: ’’اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لاالٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر، اﷲ اکبر وﷲ الحمد۔‘‘ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، اپنی جبین نیاز اپنے خالق حقیقی کے سامنے رکھتے ہیں اور حج جیسی عظیم الشان عبادت ادا کر تے ہیں۔ یقیناً بندۂ مؤمن کے لیے اپنی زندگی میں حج جیسی عظیم الشان سعادت حاصل کرنا اس کی ایمانی معراج کے مترادف ہے۔

حج، لغت کے مطابق قصد کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاحِ شریعت میں اپنے گھر سے چل کر ’’حج بیت اﷲ‘‘ کی نیّت سے اسلامی ہدایات کے مطابق احرام باندھ کر ایام حج میں مقررہ تواریخ و اوقات میں چند مخصوص ارکان، چند مبارک افعال اور چند مقدس مناسک کی انجام دہی کا نام ’’حج‘‘ہے۔

قرآنِ مجید نے بیت اﷲ کی خصوصیات میں حج کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور صاحب استطاعت شخص پر بیت اﷲ کا حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ لوگوں میں حج (کے فرض ہونے) کا اعلان کردو! لوگ تمہارے پاس حج) کے لیے چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔

ایک دوسری جگہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے لیے لوگوں کے ذمے بیت اﷲ کا حج کرنا ہے ان پر جو کہ اس تک جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔ بیت اﷲ تک پہنچنے کی طاقت و قدرت سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے زاید اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اﷲ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچہ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک اپنے ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔

حج کرنے کے بے شمار فضائل و برکات احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس میں تاخیر نہ کرے بل کہ جلدی کرے۔ ایک حدیث میں آتا ہے سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے خاص اﷲ کے لیے حج کیا اور اس میں نہ فحش گوئی کی اور نہ کوئی خلاف شریعت کام کیا تو وہ شخص اس دن کی مانند لوٹتا ہے جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے رحمت دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج اور عمرہ کو ملا کر کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دُور کردیتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (یعنی حج مقبول) کی جزاء اور اس کا بدلہ جنّت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ دعا مانگیں تو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور اگر وہ استغفار کریں تو اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: نسائی، ابن ماجہ)

اسی طرح حج سے پہلو تہی برتنے اور اسے ادا نہ کرنے کی بھی وعیدیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو حج سے کھلم کھلا ضرورت یا ظالم بادشاہ یا رکاوٹ کے قابل بیماری نے حج سے نہ روکا ہو اور پھر بھی (باوجود فرض ہونے) اس نے حج نہ کیا ہو تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے، چاہے نصرانی ہوکر۔

حج کے ساتھ مدینہ منورہ جاکر مسجد نبوی ﷺ اور روضۂ اقدس ﷺ کی زیارت کا شرف ضرور حاصل کرے کہ اس کی بڑے فضائل و برکات وارد ہوئے ہیں، بل کہ کئی روایات میں تو اس کی باقاعدہ تاکید بھی آئی ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضرور ہوگی۔

اسلام کی شان دار تاریخ کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے تو اس میں حج بیت اﷲ سے متعلق مسلمانوں کے بعض نادر واقعات ملتے ہیں کہ جن سے انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں ہر زمانے میں بعض ایسے اسلام پسند اور نیک لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے حج جیسے عظیم الشان دینی رکن کے ساتھ محبت و عقیدت اور شیفتگی و فریفتگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میںملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

 ذیل میں دو مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں:

یہ غالباً سنہ 2012 ء کی بات ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمّد اور صفیہ نامی دو نوّے سالہ میاں بیوی تھے جن کے یہاں اﷲ کریم نے کوئی اولاد نہیں اُتاری اور یہ گزشتہ ستّر سال سے حج کی خواہش دل میں پالے ہوئے ہیں۔ ان ستّر برسوں میں ان دونوں نے محنت مشقت کرکے حج کے لیے رقم جمع کی اور آخر کار ان کی دلی خواہش پوری ہوئی، دونوں عزت مآب ہستیاں جب حج کی سعادت حاصل کر رہی تھیں تو ان سے پوچھا گیا: ’’اور کیا خواہش ہے؟ ‘‘ تو جواب ملا: ’’ایک اور حج کرنے کی تمنا ہے، اﷲ کریم ہماری عمریں دراز فرمائے، ہم مزید ستّر برس انتظار کرلیں گے۔‘‘

ایک شخص خلیفہ مامون الرشید کی خدمت میں حاضر ہُوا اور حج کے لیے روپیا، پیسا اور زاد راہ مانگا۔ مامون نے کہا: اگر تُو صاحب مال ہے تو سوال کیوں کر رہا ہے ؟ اور اگر صاحب مال نہیں تو تجھ پر حج بھی فرض نہیں۔ اس نے فی البدیہہ جواب دیا: میں آپ کو بادشاہ سمجھ کر آیا ہوں، مفتی سمجھ کر نہیں، مفتی تو شہر میں آپ سے زیادہ اچھے موجود ہیں، آپ مجھے فتویٰ نہ سنائیں، کچھ دے سکتے ہیں دے دیجیے ورنہ انکار کر دیجیے۔ مامون اس کی اس کے جواب پر ہکا بکا رہ گیا اور اس کو حج کے لیے رقم اور دیگر زاد راہ دے دیا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

حج، عشق الٰہی کا مظہر” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں