آدم نامہ … !!!
تحریر:ابن آدم

پلیز اس شہکار کو مِس نہ کریں ….! اگر آپ ڈرامہ سے شغف رکھتے ہیں تو پھر پی ٹی وی کا وہ سنہری دور یقیناً آپ کے نظروں کے سامنے 1960, 1970 اور پھر 1980 کے عشروں کا وہ زمانہ گھوم کر یاد آ جاتا ہے کہ جب پی ٹی وی کی سکرین پر خدا کی بستی, وارث, شمع, دھوپ کنارے, جانگلوس, دبئی چلو, دہلیز, قصہ چار درویشوں کا, ان کہی, من چلے کا سودا, پرچھائیاں, سونا چاندی, اندھیرا اجالا, شب دیگ, ففٹی ففٹی, الف نون, تنہائیاں اور ان جیسے دیگر لازوال ڈراموں کی وہ لمبی فہرست موجود ہے جو تنگئ دامن کی وجہ سے پوری بیان نہیں کی جا سکتی, یہ وہ ٹی وی ڈرامے تھے کہ جب یہ رات آٹھ بجے نشر ہوتے تھے تو سڑکیں, بازار وغیرہ ویران ہو جاتے تھے اور سب لوگ اپنی اپنی ٹی وی سکرین کے سامنے انہماک سے بیٹھے ان ڈراموں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

ان ڈراموں کے لکھت کار احمد ندیم قاسمی, اشفاق احمد, امجد اسلام امجد, اصغر ندیم سید, آپا بانو قدسیہ, حسینہ معین, نور الہدا شاہ, ڈاکٹر سجاد انور وغیرہ کی کہانی, سکرپٹ اتنا جان دار اور ان ڈراموں میں اداکاری کرنے والے اداکار مثلاً قوی خان, طلعت حسین, راحت کاظمی, عابد علی, محمد شفیع شاہ, فردوس جمال, محمد شکیل, علی اعجاز, ننھا رفیع خاور, سید افضال احمد, شجاعت ہاشمی, محمود اسلم, روحی بانو, عظمی گیلانی, بشری انصاری, صبا حمید, شہناز شیخ وغیرہ اپنی ایکٹنگ, ڈائیلاگ ڈلیوری, بِیٹ, تلفظ اور چہرے و آنکھوں کے تاثرات دینے میں اس قدر ڈوب جاتے تھے کہ ڈرامہ دیکھنے والے اسے ڈرامہ نہیں بلکہ حقیقی زندگی کے کردار سمجھ لیتے, یہ ڈرامے ہماری معاشرتی و سماجی زندگی کے تلخ مسائل, کڑوی حقیقتوں, طنز و مزاح کے شہکار ترجمان ہوا کرتے تھے ۔
لیکن اس کے پی ٹی وی کی کوکھ نے یہ شہکار تخلیق کرنے بند کر دیئے کہ جنکے چرچے پورے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی یکساں تھے اور وہاں کے کئی فلمسازوں نے ہمارے ان ڈراموں کی کہانیاں چرا کر یا ان سے متاثر ہوکر انکی طرز پر اپنی کئ فلمیں بنائیں اور ہمارے یہ ٹی وی ایکٹرز اور ایکٹریسز بھارت میں بھی فن اداکاری کی اکیڈمی مانے گئے, پی ٹی وی پہ ڈرامہ سازی کا ایسا زوال آیا کہ لوگوں نے پی ٹی وی ہی دیکھنا چھوڑ دیا اور پھر نجی ٹی وی چینلز کا سیلاب سا آگیا لیکن ڈرامہ اس قدر کمرشلائزیشن کا شکار ہوا کہ بے جان کہانیوں, بے ربط موضوعات اور بے تاثر اداکاری کی وجہ سے ڈرامہ اپنی اس اٹھان کو نہ پہنچ سکا کہ جو کبھی پی ٹی وی کا طرۂ امتیاز ہوا کرتا تھا لیکن پچھلے چند برسوں سے پاکستانی ڈراموں نے دوبارہ اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے ” ہم چینل ” کی کاوشیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں کیونکہ اس چینل پہ پیش کئے جانے والے متعدد ڈراموں نے اپنے حقیقی موضوعات, جاندار کہانی, مضبوط سکرپٹ, اعلی ہدایت کاری اور چند ابھرتے ہوئے اور ماضی کے عظیم اداکاروں کی یاد دلانے والے اداکاروں کی فنی پختگی کی وجہ سے ایک بار پھر ناظرین کو اپنی طرف بھرپور انداز میں متوجہ کرنا شروع کردیا ہے۔

آجکل ” ہم ” چینل پر ہر منگلوار کی شب آٹھ بجے ایک ڈرامہ نشر ہو رہا ہے کہ جسکا نام ” پری زاد ” ہے کہ جسکی تاحال صرف چھ اقساط ہی آن ائیر یا نشر ہو سکی ہیں, کیا ڈرامہ ہے, کیا کہانی ہے اور کیا کمال کی اداکاری ہے کیا اچھوتا مگر ہماری روائتی معاشرتی و سماجی زندگیوں, تلخیوں, سادگی اور جدت کے ٹچ کا اعلی ترین نمونہ ہے, ڈرامہ نہیں بلکہ ایک شہکار ہے اسکی کہانی جس ربط, تجسس اور عمدہ پلاٹ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کہ ایک قسط دیکھنے کے بعد اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہتا ہے, ہر کردار اور اسکی آدائیگی کرنے والا اداکار اپنی اپنی جگہ جگہ بلکل فٹ اور نگینہ ہے اور ابھی کہانی نے کئ دلچسپ موڑ لینے ہیں اور کئ اداکاروں نے اپنے اپنے کردار مطابق انٹری دینا باقی ہے لیکن اس ڈرامے پری زاد کے مرکزی کردار یعنی پری زاد نے جس اعلی پائے کی کردار نگاری نبھائ ہے وہ کلاسیکل کے زمرے میں آتی ہے اور اداکاروں کو اپنی فنی زندگی میں ایسے جاندار اور حقیقی کردار ادا کرنے کا کبھی کبھی موقع ملتا ہے کہ جب کہ اس میں ایک ببلی نام کی لڑکی کہ جسکو اسکے والدین نے اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا بیٹا یا لڑکا بنا کر پالا پوسہ ہے اس کردار میں وہ بھی اپنی فنی معراج پر نظر آتی ہیں, ڈرامے کی کہانی آگے کس طرح بڑھتی ہے یہ تو پیشگی علم نہیں ہے مجھے لیکن ڈرامے کے رائٹر اور ڈائریکٹر و پروڈیوسر نے ابھی نشر شدہ چھ اقساط میں جسطرح اپنا لوہا منوایا ہے امید واثق ہے کہ جب یہ پری زاد ڈرامہ اختتام پذیر ہوگا تو یقیناً یہ پاکستانی ڈرامہ ہسٹری کے آرکیائز میں بطور ایک ” شہکار ” کے درج…