ڈیرہ اسماعیل خان( ابوالمعظم ترابی ) بحرانوں اور تنازعات کا شکار جامعہ گومل مزید ڈوبنے لگی۔تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی کے لیے رقوم نہیں۔سیاسی و سفارشی بھارتیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔مسائل حل نہ ہونے اور فیسوں میں اضافے پر طلبا سراپا احتجاج ہو گئے۔وائس چانسلر کی پالیسیوں سے ناراض طلبہ سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔
تفصیلات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی مادر علمی جامعہ گومل جو طویل عرصے سے مالیاتی سمیت دیگر بحرانوں اور تنازعات کا شکار چلی آ رہی ہے۔وہ ایک مرتبہ پھر ڈوبنے لگی اور بحرانوں کی ذد میں ہے۔تنخواہوں اور پنشنوں کے لیے رقوم نہ ہونے کے باوجود مزید بھرتیاں کی جارہی ییں۔جب کہ اطلاعات کے مطابق سیاسی و سفارشی بنیا دوں پر بغیر انٹرویو ٹیسٹ کے کئی افراد کو بھرتی کر لیا گیا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق اس بہتی گنگا میں جامعہ کے حاضر سروس اور وائس چانسلر کے چہیتوں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ان کے دائیں بائیں موجود افسران اور ریٹائرڈ ملازمین نے اپنے کئی کئی پیارے بھرتی کرائے ہوئے ہیں۔دوسری جانب پنشرز سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں دو ماہ سے پنشنیں نہیں دی جارہیں۔ملازمین کو تنخواہوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔طلبہ اپنے حقوق اور سہولیات کے حصول کی خاطر شور فیسوں میں تیس فی صد اضافے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
شعبہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز کی تاحال رجسٹریشن نہ ہونے پر بھی اس کے طلبہ احتجاج میں شامل ہیں۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد کی غلطی کے باعث طلبہ کو احتجاج کرنا پڑا تو فارغ التحصیل بعض سیاسی طلبہ کو بھی سنہری موقع ہاتھ آگیا۔جنہیں سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور اور سابق ڈائرکٹر ایڈمن گومل یونیورسٹی دل نواز کی سرپرستی و تعاون حاصل ہے۔علی امین نے زرعی یونیورسٹی کے قیام میں وی سی کو رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اپنے اقدام کا دفاع کیا ہے۔جب کہ دل نواز کو نوکری پر بحال نہ کرنے کا رنج ہے۔
وی سی نے گومل یونیورسٹی کے وسائل،اثاثے،جائےدادیں اور شعبہ جات زرعی یونیورسٹی کو نہ دینے کے بارے میں قائم مقام گورنر و چانسلر مشتاق غنی کو مراسلے کا جواب دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ موجود ہے جس کی خلاف ورزی توہین عدالت ہو گی۔جو ممکن نہیں۔
نیز جامعہ کے باختیار ادارے سنڈیکیٹ نے بھی اثاثوں کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی کو ان کی حوالگی سے روکا ہوا ہے۔انہوں نے پولیس حکام کو تحریری درخواست میں غیر متعلقہ عناصر کی مداخلت اور طلبہ کو اشتعال دلوانے پر ایف آئی آر کے اندراج کے لیے کہا مگر فارغ التحصیل طلبہ نعمت وزیر اور جگنو وزیرستانی کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اور انہیں جیل بھیجا گیا۔ جب کہ علی امین کے خلاف تاحال قانونی چارہ جوئی نہیں �