115

واقعہ کربلا حق و باطل میں امتیاز کا استعارہ (قسط 1)

جب کچھ نہیں تھا تب بھی رب تعالی کی ذات بابرکات تھی۔اور جب سب کچھ فنا ہو جائے گا تب بھی رب تعالی کی ذات مقدس ہی باقی رہے گی۔سورت الرحمن میں اللہ کریم نے واضح فرما دیا ہے۔کل من علیھا فان ہ ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اول ما خلق نوری کہ سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا گیا۔گویا رب کی ذات تھی اور رب کا محبوب تھا۔محبوب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت اور اپنی ربوبیت کے اظہار کی خاطر اللہ تعالی نے کائنات فرمائی۔جس میں نوری و ناری مخلوق بھی شامل تھی۔نوری مخلوق میں ملائکہ اور ناری میں جنات تھے۔

ناریوں میں عزازیل( ابلیس) ایسی شخصیت تھی جس نے بندگی خدا میں اعلی مقام اور نوری و ناری مخلوق کی سرداری پائی۔جب اللہ پاک نے خاکی مخلوق پیدا فرمانے اور اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو فرشتوں نے استفہام کرتے ہوئے کہا ایسی مخلوق جو خوں ریزی و فساد برپا کرے گی!تیری تسبیح و تحمید کرنے کے لیے ہم کافی ہیں۔اللہ نے فرمایا۔جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔پھر اسے کچھ چیزوں کا علم دے دیا۔پھر فرشتوں سے ان چیزوں کے نام پوچھے مگر وہ نہیں بتا سکے۔جب آدم سے پوچھے تو انہوں نے بتا دیے۔تب ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔سارے فرشتے حکم بجا لائے مگر ابلیس نے غرور و تکبر کے باعث سجدہ نہیں کیا۔اللہ نے آدم سے فرمایا کہ تم اور تمہاری زوجہ جنت میں رہو۔جہاں سے جو دل چاہے کھاو اور پئو۔مگر اس درخت کے قریب بھی مت پھٹکنا۔لیکن ابلیس نے انہیں وسوسے کے ذریعے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر اکسایا اور رب کریم کی حکم عدولی پر جنت سے نکال کر ابلیس سمیت زمین پر بھیج دیے گئے۔کیوں کہ منشائے رب تھی کہ آدم کو زمین پر خلیفہ بنانا ہے اور شیطان کو مہلت دینی ہے کہ تا قیامت جئے اور اولاد آدم کو بھٹکانے کی کوشش کرے۔مگر اللہ کریم نے اس پر واضح کردیا کہ اس کے مخلص بندے شیطان کے بہکاوے میں ہرگز نہیں آئیں گے۔البتہ جو ابلیس کی پیروی کریں گے وہ اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

مگر جو اللہ کی فرما برداری کریں گے یا گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کی جانب قدم بڑھائیں گے تو وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔گویا زمین پر بھیجنے کا مقصد اللہ کی ربوبیت منوانا اور نیکی بدی کی بنیاد پر جنت و جہنم میں داخل کرنا ٹھہرا۔تاہم آدم زمین پر ہدایت یافتہ،نبی اور نائب خدا تھے۔چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام تک مقصود یہ بھی رہا کہ ہر نبی و رسول نے اپنے اپنے دور میں خاتم الانبیاء و رسل حضرت محمد مصطفی،احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد اور ان پر ایمان لانے کی تلقین و تاکید کرنا ہے۔
سورت البقرہ میں اللہ نے یہ واقعہ و اذ قال ربک للملائکہ انی جاعل سے ھم فیھاخالدون تک مفصل بیان فرمایا ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندگی صرف حکم خدا کی تعمیل ہے۔سجدہ محض اللہ کے لیے ہے مگر رب تعالی نے بابا آدم کے لیے تعلیمی سجدہ کرایا۔ملائکہ نے فرما برداری کی مگر ابلیس نے انکار کیا اور وہ راندہ درگاہ ہو گیا۔اللہ نے خاکی بشر کو اعلی مقام عطا فرمایا کیوں کہ اسے نوری و ناری خلقت سے زیادہ علم دیا تھا۔یعنی علم فضیلت کا باعث بنا اور یہ سب کچھ خالق کائنات کا کرم تھا۔جنت اور دوزخ میں ڈالنے کا پیمانہ علم پر عمل ہے۔اللہ تعالی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں فرماتا۔

سورت القارعہ میں ہے۔فاما من ثقلت موازینہ فھو فی عیشتہ الراضیہ ہ واما من خفت موازینہ فامہ ھاویہ ہ جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو گاوہ سکون میں ہو گا اور جس کا نیکی کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ دوزخ کا ایندھن بنے گا۔ بہر حال منشائے رب کے مطابق زمین آباد ہو گئی۔سیدنا آدم و حوا علیھم السلام کو اولاد پیدا ہوئی۔سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند ہابیل نے اپنے بھائی قابیل کو قربت خداوندی اور والدین کی محبت حاصل ہونے پر حسد کے سبب قتل کیا۔بنی نوع انسان کی افزائش کے ساتھ ابلیس کی شیطانیاں بھی فروغ پانے لگیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت شیث علیہ السلام نبی تھے۔ایک طرف ہدایت یافتہ و برگزیدہ انبیاء و رسل لوگوں کی صراط مستقیم کی جانب رہبری و رہنمائی کرتے رہے اور دوسری جانب ابلیس نے بد راہ و گمراہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔حتی کہ مر جانے والے بزرگوں کے مجسمے بنا کر ان کا ادب و احترام کرتے کرتے ان کی پوجا و پرستش میں مبتلا ہو گئے۔پھر حضرت نوح علیہ السلام ہدایت کے لیے بھیجے گئے مگر افسوس ان کا اپنا بیٹا کنعان بھی نافرمان و گمراہ ثابت ہوا۔وقت گزرتا گیا۔آج سے چار ہزار برس قبل نمرود بادشاہ کی سلطنت میں انتہائی برگزیدہ و با عظمت نبی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جنم لیا اور خلق خدا کو نمرود و بتوں اور ستاروں و سیاروں کی پوجا و پرستش سے روک کر رب کائنات کی عبادت و بندگی کرنے کی ہدایت کی مگر قرآن کے مطابق قوم تو قوم ان کے والدین نے بھی ہدایت قبول نہیں کی۔
(جاری

ہے)

واقعہ کربلا حق و باطل میں امتیاز کا استعارہ( قسط 2)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حق گوئی و دعوت الی اللہ کی سزا یوں دی گئی کہ نمرود نے انہیں آگ کے بہت بڑے الاو میں ڈلوایا مگر آپ کے لیے خالق حقیقی نے وہ آگ گل و گل زار بنادی۔قرآن کریم گواہ ہے۔قلنا یا نار کونی بردا و سلاما۔ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔
علامہ اقبال نے یوں تصویر کشی کی۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ اور سیدہ سائرہ سلام اللہ علیھان کے ساتھ شادیاں کیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیھا اور دوسرا فرزند حضرت اسحاق سیدہ سائرہ سلام اللہ علیہا کے بطن مبارک سے عمر رسیدگی میں پیدا ہوئے۔اللہ کریم نے آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو کڑےامتحانات اور سخت آزمائشوں سے گزارا۔حتی کہ شیر خوار اسماعیل اور سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیھا کو بے آب و گیاہ وادی بکہ ( مکہ المکرمہ)میں چھوڑ آنے کا حکم ملا۔جب چھوڑ آئے۔شیرخوار اسماعیل نے بھوک و پیاس کے سبب زمین پر ایڑیاں رگڑیں تو رب ذوالجلال نے ان کی ایڑیوں کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکال دیا۔جسے آب زم زم کہا جاتا ہے۔جو بھوک و پیاس مٹانے کے ساتھ صحت افزا بھی ہے۔یوں وہاں سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیھا کی اجازت سے قبیلہ بنو جرہم آکر آباد ہو گیا اور وادی آباد ہو گئی۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام بلوغت کو پہنچے تو حکم ملا کہ اسے اللہ کے لیے قربان کر دیجیے۔آپ نے صاحب ذادے کو اللہ کا حکم سنایا تو انہوں نے سرتسلیم خم کر کے فرمایا۔اے ابا جان! کر گزریے جو حکم ملا ہے۔آپ مجھے صبر و استقامت کرنے والا پائیں گے۔


یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی


حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیھا کو ابلیس نے بہکانے کی کوشش کی تو انہوں نے کنکریاں مار کر بھگادیا۔بہرحال سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلائی تو اللہ نے اپنی قدرت سے مینڈھا بھیج دیا۔جس کے گلے پر چھری چل گئی اور اسماعیل علیہ السلام کو بچا کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ نے تعمیل حکم کر دی۔پھر اللہ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی۔تکمیل پر دعا مانگی گئی۔اے اللہ ہماری محنت قبول فرما۔ہمیں متقین کا امام بنا۔اس وادی کو گہوارہ امن و خوش حالی بنا۔چناں چہ سیدنا اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام تک انبیاء و رسل پیدا ہوئے۔اور سیدنا اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کا لقب اسرائیل( اللہ کا بندہ) تھا۔ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔جس میں ہزاروں انبیاء و رسل تشریف لائے اور خدا کی لاڈلی یہ قوم اس قدر بد راہ و گمراہ ہوئی کہ رب کے فرستادوں کو بے دریغ شہید کیا۔

بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے آسمان سے براہ راست رزق نازل کیا مگر بنی اسرائیل نے نافرمانی و انحراف کی تمام حدود پائے مال کیں۔انہی میں حضرت موسی علیہ السلام ایسے جلیل القدر نبی و رسول پیدا ہوئے۔اس وقت بنی اسرائیل سلطنت مصر میں قبطی قوم کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے تھی۔اور ظالم و جابر بادشاہ فرعون وقت رعمیس ان کی گردنوں پر سوار تھا۔وہ شقی القلب حاکم جس نے نجومیوں اور کاہنوں کی پیش گوئی پر سیدنا موسی علیہ السلام کی پیدائش روکنے کی خاطر بڑی تعداد میں نومولود بچے قتل کرائے مگر حضرت موسی علیہ السلام پیدا بھی ہوئے اور اللہ نے ایسا بندوبست کیا کہ وہ اسی کے محل میں پلے بڑھے کیوں کہ فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں گود لے لیا تھا جو فرعون کو بہت پیاری تھیں اور وہ ان کی خواہش رد نہیں کرتا تھا۔سیدنا موسی علیہ السلام جواں ہوئے تو اللہ نے حکم دیا کہ فرعون کو دعوت الی اللہ دیجئے کیوں کہ وہ خود کو انا ربکم الاعلی( میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں) کہتا ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے استدعا کی کہ یا رب میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر مقرر فرما دیجیے۔چناں چہ اللہ نے دعا قبول فرمائی۔سیدنا موسی علیہ السلام نے فرعون کو دعوت حق دی مگر اس نے قبول نہ کی۔

اور نبوت و رسالت کا ثبوت مانگا۔آپ نے اللہ کے حکم سے عصا پھینکا تو وہ سانپ بن گیا۔فرعون نے اسے جادو گردانا۔اور جادوگروں کے ساتھ مقابلے کا چیلنج کیا۔دربار دوبارہ لگا۔جادوگروں نے رسیاں پھینکیں تو سانپ بن گئے۔آپ نے عصا پھینکا تو وہ سانپ بن کر سارے سانپوں کو ہڑپ کر گیا۔جادوگر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اور سیدنا موسی علیہ السلام پر ایمان لے ائے۔انہوں نے شہادت دی کہ حضرت موسی علیہ السلام جادوگر نہیں۔فرعون نے ان تمام کو قتل کرا دیا۔ایک شب سیدنا موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو آذادی دلوانے کی خاطر لے کر نکلے۔فرعون اپنا لشکر لے کر نکلا۔اور بنی اسرائیل کے پیچھے پہنچ گیا۔آگے دریائے نیل تھا۔بنی اسرائیل نے کہا۔اے موسی ہمیں مروا دیا۔آپ نے فرمایا۔ان اللہ معی( بے شک اللہ میرے ساتھ ہے)۔پس اپنے رب کے حکم سے دریا کے پانی پر عصا مارا۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ راستے بن گئے۔اور سب کے سب دریا پار کر گئے۔فرعون کا لشکر جیسے ہی اترا تو راستے ختم اور دریا بہنے لگا۔فرعون لشکر سمیت ڈوب گیا۔بنی اسرائیل میں آخری نبی و رسول سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام آئے جو سیدہ مریم علیہا السلام کے پاک بطن سے اللہ کے خاص حکم کے تحت بن باپ کے پیدا ہوئے۔بنی اسرائیل نے اس کے باوجود بھی انہیں قبول نہیں کیا۔جب وہ نومولود ہو کر بھی بولے۔انی عبداللہ اتانی الکتاب ( میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے کتاب دی گئی ہے۔انہوں سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کو شہید کرنا چاہا مگر ان کے ہم شکل شخص کو صلیب پر چڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو موت کے منھ میں دھکیل دیا ہے۔جب کہ اللہ نے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔
(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/aitakvua/public_html/news/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296