45

واقعہ کربلا حق و باطل میں امتیاز کا استعارہ( قسط2)

تحریر : ابو المعظم ترابی

سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کے571 برس بعد دنیا گمراہیوں کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی۔عیسائیوں نے سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر خدا بنا لیا اور یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا گردانا۔دونوں اہل کتاب مذاہب نے رشد و ہدایت کے لیے بھیجی گئیں آسمانی کتب میں تحریف و تبدل کر کے اپنی گمراہی کا سامان تو کیا ہی تھا۔دیگر خلق خدا کی ہدایت کے راستے بھی مسدود کر دیے۔اس لیے بت پرستی کا دور دورہ تھا۔خطہ عرب میں مکہ المکرمہ اور وہاں قائم بیت اللہ میں بھی تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔

لوگ معبود حقیقی کے بجائے لات و منات،ہبل اور سیکڑوں بتوں کی پوجا و پرستش کرتے تھے۔رب تعالی نے وہاں سیدنا اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں قبیلہ قریش کے سردار جناب عبد المطلب بن ہاشم کے مرحوم صاحب زادے حضرت عبد اللہ کی بیوہ حضرت آمنہ کے بطن سے خاتم الانبیاء والمرسلین نے جنم لیا۔دادا نے “محمد” نام رکھا۔یہ وہ سال تھا جسے عام الفیل ” ہاتھیوں والا سال ” کہا جاتا تھا۔اللہ کریم نے سورت الفیل میں اسی واقعہ کو بیان کیا ہے۔الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل (کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟) ہوا یوں کہ یمن کے بادشاہ ابرہہہ نے بیت اللہ کے مقابلے میں یمن میں عمارت تعمیر کر کے چاہا کہ لوگ مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کریں بل کہ اس کی بنائی گئی عمارت کے گرد چکر کاٹیں۔مگر وہاں لوگ نہیں گئے۔وہ مشتعل ہو کر ہاتھیوں پر مشتمل لشکر لے کر مکہ کے باہر آکر قیام پذیر ہو گیا۔ حضرت عبد المطلب کے اونٹ چر رہے تھے۔وہ پکڑ لیے۔

حضرت عبد المطلب اپنے اونٹ چھڑوانے گئے۔تو وہ بولا کہ میں تو خانہ کعبہ ڈھانے آیا ہوں۔تمہاری پیشانی میں ایسی روشنی دیکھی ہے۔اگر تم کہتے تو میں خانہ کعبہ منہدم کیے بغیر چلا جاتا۔حضرت عبد المطلب بولے۔اونٹ میرے ہیں وہ مجھے دے دو۔گھر کی حفاظت گھر والا خود کرے گا۔اونٹ لیے اور واپس آگئے۔بیت اللہ کے دروازے کی زنجیر پکڑی اور اللہ سے مخاطب ہو کر دعا کی کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کرے۔یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ حضرت عبد المطلب نے یہ نہیں کہا کہ لات و منات اور ہبل تحفظ کریں گے نہ ہی ان کے سامنے جا کر فریاد کی۔بل کہ رب تعالی سے دعا کی۔بہرحال ابرہہہ نے جب حملہ کرنا چاہا تو اللہ نے ننھے منے پرندے بھیجے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکر تھے۔وہ انہیں پھینکتے تو ہاتھی اور سپاہی ہلاک ہو جاتے۔اللہ نے فرمایا کہ انہیں ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھوسا۔ غربت و یتیمی کے سبب کسی دایا نے بھی حضرت آمنہ کے یتیم لعل پر نظر کرم ڈالنے سے گریز کیا۔

مگر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا ایسی مفلس دایا نے ایک نگاہ ڈالی تو چہرہ انور کے نور سے متاثر ہو کر یتیم بچے کو بخوشی قبول کر لیا۔سب دائیاں امیروں کے بچے لے کر جا چکی تھیں۔دائی حلیمہ کی اونٹنی بےحد لاغر و سست تھی۔مگر اس میں ایسی قوت وچستی آ گئی کہ تیز رفتاری کے باعث قافلے سے جا ملی۔دائیاں حیران ہوکر پوچھنے لگیں کہ اونٹنی میں طاقت و تیزی کیسے آگئی؟۔دائی حلیمہ بچے کی برکت و فضیلت بھانپ چکی تھی اور انہیں باور کرایا کہ جسے تم نے یتیم سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔یہ اسی بچے کی قبولیت کا صلہ ہے۔حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں خوش حالی آگئی۔چہار جوانب روشنی پھیل گئی۔بھیڑ بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ برس کے ہوئے تو والدہ ماجدہ بھی دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔آٹھ برس کی عمر میں دادا بھی داغ مفادات دے گئے۔اور آپ اپنے چچا حضرت ابو طالب کی زیر کفالت و پرورش آگئے۔وہ چچا جنہوں نے آپ کو اپنے بچوں کے مقابلے میں فوقیت و ترجیح دی۔ہر لحاظ سے آپ کا خیال رکھا۔اپنے سینے سے لگا کر رکھتے اور کبھی جدا نہ کرتے۔شام کے سفر پر گئے تو اپنے ہمراہ رکھا۔وہاں ایک عمر رسیدہ راہب بحیرہ نے دیکھا کہ بادل بچے پر سایہ کیے ہوئے ہے۔

حضرت ابو طالب سے معلومات لیں تو بولا کہ میں طویل عرصے سے اس بچے کی زیارت کا منتظر تھا۔آسمانی کتب میں اس کی آمد اور نشانیوں کی پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔اس بچے میں وہ تمام علامات موجود ہیں۔لہذا اسے فوری طور پر واپس لے جاو۔ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کو علم ہو اور وہ اس کی جان لے لیں۔کیوں کہ ان کے خیال میں نبی آخر الزماں بنی اسرائیل سے ہونا چاہیے اور یہ بچہ وہی ہے مگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے جو یہودیوں کو برداشت نہیں ہو گا۔ پس یہ سننا تھا کہ حضرت ابو طالب بچے کو واپس مکہ لے آئے۔یہاں نکتے کی بات یہ ہے۔کہ بحیرہ راہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی شہادت اس وقت دی جب آپ کا بچپن تھا۔اور حضرت ابو طالب نے اس کی شہادت تسلیم کر کے واپسی کر لی۔گویا خود بھی آپ کی نبوت و رسالت کے قائل ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پچیس برس کے ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کی۔نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا۔

آپ نے چالیس سال ایسے گزارے کہ اہل مکہ آپ کو صادق و آمین کہہ کر پکارتے تھے۔بیت اللہ شریف کی عمارت سیلاب کی وجہ سے شہید ہوئی تو اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے بعد حجر اسود کو مطلوبہ مقام پر رکھنے کی سعادت حاصل کرنے پر قبائل جنگ کے لیے آمادہ ہو گئے۔مگر طے پایا کہ کل صبح جو شخص بھی خانہ کعبہ میں سب سے پہلے قدم رکھے گا وہی حجر اسود رکھے گا۔صبح ہوئی تو سب سے پہلے آپ داخل ہوئے اور سب نے بالاتفاق آپ کو ذمہ داری سونپ دی لیکن آپ نے کمال حکمت و دانائی کا مظاہرہ فرمایا۔ اپنی چادر بچھائی۔اس پر حجر اسود رکھا۔تمام سرداروں سے کہا کہ وہ چادر پکڑیں اور حجر اسود مطلوبہ مقام تک پہنچائیں۔آپ نے حجر اسود اٹھایا اور اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سب خوش ہو گئے۔ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ عمارت کی تعمیر پہلے والی بنیاد پر نہ ہو سکی۔کیوں کہ رقوم کم اور خرچہ زیادہ تھا۔مشرکین نے بھی یہ طے کیا تھا کہ اللہ کا گھر حلال کمائی سے بنانا ہے۔وہ کم پڑی تو حرام کی کمائی بیت اللہ پر صرف نہیں کی۔عمارت محدود کر دی اور حقیقی بنیاد پر چھوٹی سی دیوار بنادی جسے حتیم کہا جاتا ہے۔اور آج تک وہ قائم ہے۔شاید اس میں بھی خدا تعالی کی حکمت پنہاں تھی۔کہ ایک وقت آئے گا۔حکمرانوں کے لیے بیت اللہ کا دروازہ کھلے گا اور غریب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے۔لہزا غریبوں کے لیے پہلے ہی ایک حصہ چار دیواری سے باہر کروا دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس سال گزارے۔اس دوران آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مال کی تجارت بھی کرتے رہے اور غار حرا میں جا کر رب تعالی کی عبادت بھی کرتے۔ایک روز حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ پر پہلی وحی نازل فرمائی۔اقرا باسمک ربک الذی خلق ہ خلق الانسان من علق ہ اقرا و ربک الاکرم ہ الذی علم بالقلم ہ علم الانسان مالم یعلم ہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا۔انسان کو جمے ہوئے لہو سے پیدا کیا۔ پڑھ اپنے عزت والے رب کے نام سے جس نے قلم کے ساتھ سکھایا انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

آپ گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو واقعہ سنایا۔انہوں نے آپ کی صفات و خصوصیات بیان فرما کر کہا کہ آپ کو رب کائنات ضائع نہیں ہونے دے گا۔ان کے چچا زاد ورقہ بن نوفل انجیل کے عالم تھے۔سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان سے تذکرہ کیا تو وہ بولے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانی کتب کے مطابق آخری نبی و رسول ہیں۔افسوس ان کی قوم انہیں شہر سے نکال دے گی۔اگر میں زندہ رہا تو محمد کا ساتھ دوں گا۔گویا ورقہ بن نوفل بھی اسی وقت ایمان لے آئے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی تائید و حمایت کر دی۔جب آپ کو حکم ملا کہ اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرما کر لوگوں کو خالصتا میری بندگی اور عبادت کی دعوت دیجیے۔پس آپ اس وقت کے رواج کے مطابق کوہ صفا پر چڑھے اور چادر مبارک ہوا میں لہرائی۔

تمام اہل مکہ اہم اعلان سننے کی خاطر جمع ہو گئے۔آپ نے ان سے پوچھا۔کہ آپ نے مجھے کیسا پایا؟ سب کے سب بیک زباں بولے کہ آپ صادق و امین ہیں۔آپ نے کہا اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے لشکر چھپا بیٹھا ہے تو کیا مان لو گے؟ سارے بولے کیوں نہیں۔ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن ہشام المعروف ابو جہل پہاڑ پر چڑھا اور اس کے پیچھے جائزہ لینے کے بعد بولا۔اے محمد! لشکر نہیں ہے مگر آپ سچے ہیں اس لیے آپ کی بات مانتا ہوں۔تب آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے رب کریم نے نبوت و رسالت سے نوازا ہے۔پس آپ لوگ کہو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔اللہ کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں۔محمد اللہ کے رسول ہیں۔پس یہ پیغام دینا تھا کہ آپ کا چچا ابو لہب بولا۔تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ہمیں اس لیے بلایا ہے۔اللہ رب العزت نے اولین شاتم رسول کی سزا کا اعلان اسی وقت فرما دیا۔تبت یدا ابی لہب و تب ہ ہاتھ ٹوٹ گئے ابو لہب کے اور وہ تباہ ہو گیا۔ابو جہل سمیت سرداران قریش نے طعنہ زنی کی کہ اللہ کو نبی و رسول بنانے کے لیے ایک یتیم ہی ملا تھا۔جو ہم جیسا ہے۔کھاتا پیتا ہے۔شادی کرتا اور اس کے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں۔وہ بازار بھی جاتا ہے۔اس کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں ہیں۔اللہ تعالی ان گستاخوں کو وحی کی شکل میں جوابات اور اپنے لاڈلے رسول کو تسلیاں دیتا حتی کہ سورت الضحی میں فرمایا ” و للآخرت خیر لک من الاولی ہ ولسوف یعطیک ربک فترضی’ ہ آپ کا مستقبل حال سے بہتر ہو گا اور آپ کا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔آپ کی دعوت حق بت پرستوں کو نہیں بھائی۔اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا بتوں کو پوجتے آئے ہیں۔ہم ان کا راستہ کیسے چھوڑدیں۔حق گوئی و بے باکی پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دی جانے لگیں۔آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنھم بھی زیر عتاب آگئے اور جو آپ پر ایمان لے آتا اسے قید کر دیا جاتا،اس پر تشدد کیا جاتا،اس پر وحشت و بربریت کی جاتی۔اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے۔اور کفر و شکر میں واپسی کا مطالبہ کیا جاتا۔مگر اہل حق میں سے کوئی بھی ترک حق تو کیا کرتا،متذبذب و متزلزل بھی نہیں ہوتا تھا۔

آپ نے حضرت ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کو دعوت حق کا مرکز و محور بنایا۔حضرات ابوبکر،عمر،عثمان اور علی رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین سمیت چالیس افراد مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا مانگی کہ یا اللہ عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے دین اسلام کو تقویت عطا فرما۔آپ کی دعا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں قبول ہوئی۔کفار کی مجلس مشاورت دارالندوہ میں مشرکین نے فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیا جائے۔یہ ذمہ داری عمر نے لی۔مگر جب قتل کے ارادے سے نکلے تو علم ہونے پر بہن کے گھر گئے۔اور مسلمان ہونے پر بہن و بہنوئی پر تشدد کیا۔بہن نے کہا کہ تم خطاب کے بیٹے ہو تو میں بھی اسی کی بیٹی ہوں۔جان دے دوں گی مگر ترک اسلام نہیں کروں گی۔پس پھر سرد پڑ گئے۔غسل کرکے قرآن مجید سنا اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔عبادت کا وقت ہوا تو مسلمانوں نے پہلی بار بیت اللہ میں عبادت کی۔سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ امیہ کے غلام تھے ۔ وہ خود بھی مظالم ڈھاتا اور دوسرے بھی ظلم کرتے تھے۔حضرت حارث رضی اللہ تعالی عنہ پہلے شہید اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی شہیدہ ٹھہریں۔جنہیں انتہائی بے دردی،سفاکی اور سنگ دلی کے ساتھ شہید کیا گیا۔جب یہ آیت نازل ہوئی وانذر عشیرتک الاقربین ہ اور اپنے قرابت داروں کو ڈرائیے۔تو آپ نے اپنے خاندان کی ضیافت کی۔اور دعوت حق دیے کر پوچھا کہ میرا ساتھ کون دے گا؟ تو تینوں مرتبہ ایک کمزور و لاغر نوجوان اٹھا کہ میں آپ کا ساتھ دوں گا۔اور وہ سیدنا علی المرتضی شیرخدا حیدر کرار کرم اللہ وجہہ تھا۔جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔

مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور کفار کا غم و غصہ بڑھنے کے ساتھ تشدد و سفاکیت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔آپ کو اللہ کریم نے مکہ سے فلسطین یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصی اور پھر آسمانوں سے عرش تک کا سفر کروایا جسے معراج النبی کہا جاتا ہے۔پندرھویں پارے کا آغاز ہی یوں ہوتا ہے۔سبحان الذی اسری’ بعبدہ لیلا”من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی’۔ وہ پاک ذات ہے جس نے اپنے بندے کو رات کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کروائی۔کفار نے سمجھا کہ لوگوں کو ورغلانےکا سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے۔کہ کون شخص راتوں رات مکہ سے فلسطین اور آسمانوں کا سفر کر کے واپس بھی آ سکتا ہے؟مگر راستے میں آنے والے قافلوں نے تصدیق کی۔آپ سے مسجد اقصی’ سے متعلق سوالات کیے گئے۔آپ نے پورا نقشہ کھینچ دیا۔ابو جہل نے سیدنا ابو بکر صدیق کو بتایا کہ کوئی شخص ایسا دعوی’ کرے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ بولے ممکن ہی نہیں۔ ابو جہل خوش ہو گیا کہ آج ابو بکر بھی انکاری ہو جائے گا۔مگر جب بتایا کہ آپ کا دوست محمد یہ دعوی’ کر رہا ہے۔تو آپ نے بلا چوں وچراں تصدیق کی کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سچ کہتا ہے۔ (جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/aitakvua/public_html/news/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296