34

واقعہ کربلا حق و باطل میں امتیاز کا استعارہ(قسط نمبر 3)

کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی وحشت و بربریت ، ظلم و جبر اور ستم شعاری کے باوجود کسی مسلمان نے ترک اسلام نہیں کیا۔اور ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔چناں چہ سرداران قریش حضرت ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیش کش کی کہ محمد ہمارے معبودوں کی نفی کرنا چھوڑ دیں تو جس حسین ترین لڑکی سے چاہیں۔شادی کروا دیتے ہیں۔جتنا مال و دولت چاہیں۔دے دیتے ہیں۔ اور انہیں مکہ کی حکومت بھی سونپ دیتے ہیں۔ حضرت ابو طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آگاہ فرمایا تو آپ نے واضح پیغام دیا کہ یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز نہیں آوں گا۔اس کے بعد کفار نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے آپ علیہ السلام،آپ کے اہل بیت اور اصحاب رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین کے ساتھ سماجی مقاطعہ کر دیا۔آپ اپنے اقربا و احباب سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے۔نان و نفقہ بند کر دیا گیا۔بعض لوگ نرم خوئی و حلیم المزاجی کے باعث چھپ چھپا کر اشیائے خورد و نوش پہنچا دیتے تھے۔مگر فاقوں کی نوبت آ جانا فطری امر تھا۔پتے بھی کھانے پڑے۔بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔یوں چند دن نہیں تین برس گزرے۔جب کفار کا لکھا گیا اور رواج کے مطابق لٹکایا گیا اعلامیہ دیمک کے کھانے سے ختم ہو چکا۔تب شعب ابی طالب کی قید سے نجات ملی۔پھر بھی کسی مسلمان نے دین اسلام نہیں چھوڑا۔ان میں سیدنا ابو طالب،سیدنا علی المرتضی،سیدنا ابو بکر،سیدنا عمر فاروق اورسیدنا عثمان غنی رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین بھی شامل تھے۔مکہ میں مظالم کے سبب ہجرت حبشہ بھی ہوئی۔ جس میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے۔کفار مکہ نے شاہ حبشہ نجاشی رحمہ اللہ کے پاس ابو سفیان کی سربراہی میں وفد بھیجا۔جس نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔شاہ حبشہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کر کے ان کے عقائد کے بارے میں سوالات کیے۔سیدنا جعفر طیار بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے مدلل جوابات دیے۔شاہ حبشہ کو بتایا گیا کہ حضرت مریم و عیسی علیھم السلام کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد درست نہیں۔

لہزا سیدنا جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ سے شاہ حبشہ نے سوال کیا تو آپ نے سورہ المریم کی تلاوت کی۔شاہ حبشہ نے سن کر پرجوش تائید کی کہ بالکل سیدہ مریم و مسیح علیھم السلام کا یہی مقام و مرتبہ ہے اور مسلمانوں کو اپنا مہمان قرار دے کر اطمینان کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔مشرکین کا وفد مایوسی کے عالم میں اپنا سا منھ لے کر مکہ کو ناکام لوٹ گیا۔سنہ 10 نبوی میں سیدنا ابو طالب و سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہما کا انتقال ہو گیا۔محسن اسلام اور محسنہ اسلام کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے عظیم سانحات تھے۔اس قدر رنج و غم، ملال اور دکھ پہنچا کہ اس سال کو عام الحزن( غم و ملال کا سال ) قرار دے دیا۔اہل مدینہ تک آپ کی نبوت و رسالت کا پیغام پہنچ چکا تھا۔اور وہاں کے یہودی رھبان و علما سے وہ سن چکے تھے کہ نبی آخر الزماں نے آنا ہے۔ان کی صفات و خصوصیات سے متعلق بھی خوب واقف تھے۔پس کچھ لوگ ملے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔مدینے میں جاکر دعوت دی تو مزید افراد نے بھی سر تسلیم خم کر دیا۔ایسی فضا بنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی ذمہ داری پر مدینہ منورہ آنے کی دعوت دے دی۔آں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم بھی تیار تھے مگر اللہ کریم کے حکم کے منتظر تھے۔نبوت کے تیرھویں برس کفار قریش نے رات کے وقت آپ کو قتل کرنے کا دوسرا منصوبہ بنایا مگر رب کائنات نے آں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہجرت مدینہ کا حکم دے دیا۔آپ نے شب ہجرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے بستر پر سلایا اور فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر مدینے آ جانا۔یہاں پر دو نکات قابل غور ہیں۔ایک یہ کہ عداوت و دشمنی کے باوجود اہل مکہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے۔اور آپ نے امانت داری کا حق شب ہجرت بھی نہیں بھلایا۔دوسرا یہ کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ کو کھلا پیغام مل گیا کہ وہ امانتیں واپس کر کے مدینہ ضرور پہنچیں گے۔

اس لیے وہ سکون سے سو گئے۔اور خود ہی فرماتے ہیں کہ اس رات جیسی سکون کی نیند پھر کبھی نصیب نہیں ہوئی۔شب ہجرت کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گھیراو کر لیا تھا۔آپ نے مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور بحکم خدا محاصرین کی جانب پھینکی۔سب لوگ جامد ہو گئے۔اللہ تعالی نے فرمایا۔ایک چال کفار نے چلی اور ایک چال اللہ نے چلی۔اور اللہ بہترین چال چلنے والا یے۔اسی لیے فرمایا جو مٹی آپ نے پھینکی۔وہ آپ نے نہیں۔اللہ نے پھینکی۔گویا جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا وہ دراصل اللہ نے کیا۔و ما ینطق عن الہوی’ ہ ان ھو الا وحی یوحی’ہ اور(نبی) اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔سوائے اس کے جو ان کی جانب وحی کی جاتی ہے۔ثابت ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کیا اور جو فرمایا وہ اللہ کی جانب سے تھا۔آپ نے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو بستر پر سلایا تو اللہ کی مرضی تھی۔اور پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئے۔کہ ہجرت کا حکم آ چکا ہے۔آئیے سفر مدینہ کے لیے روانہ ہوں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی جمع پونجی چالیس ہزار کی اشرفیاں اٹھائیں اور ساتھ ہو لیے۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر اس قدر اعتماد تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں پہلے ہی مطلع فرما چکے تھے۔سیدہ اسما و سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھما کو علم تھا حتی کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے نابینا والد ابو قحافہ کو بھی پتہ تھا۔جو تاحال مسلمان نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے پوتیوں سے پوچھا کہ ابوبکر سارا مال لے گئے یا تمہارے لیے بھی کچھ چھوڑ گئے؟ دونوں نے پتھر اٹھا کر مقررہ مقام پر رکھے اور اوپر کپڑا ڈال کر دادا کا ہاتھ رکھوا کر کہا کہ بہت ساری اشرفیاں چھوڑ گئے ہیں۔قربان جائیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتماد پر کہ ان کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بتا کر ہدایت کی گئی کہ وہ بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے پیچھے آئیں تا کہ دودھ پی کر بھوک کا بندوبست کیا جاتا رہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ روانہ ہو گئے۔کفار کو جب ہوش آیا تو دیکھا کہ بستر مبارک پر سیدنا علی کرم اللہ وجہ صاحب استراحت ہیں۔چناں چہ آپ کے تعاقب میں گھوڑے دوڑا دیے۔اور تلاش کرنے والے کے لیے سو سرخ اونٹ انعام دینے کا اعلان کر دیا۔

سراقہ بن مالک بن جعشم آپ تک پہنچے مگر اس کے گھوڑے کے پاوں زمین میں دھنس گئے۔اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معافی طلب کی اور آپ نے قبول کرنے کے ساتھ اسے نوید سنائی کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسری’ ایران کے طلائی کنگن دیکھ رہا ہوں۔یوں سراقہ کے مسلمان ہونے ،ایران کے فتح ہونے اور بادشاہ کے کنگن سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ کو پہنانے کی نوید بھی سنا دی۔ جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی۔آپ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے غار ثور میں قیام فرمایا۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے غار میں جا کر صفائی کی اور سوراخوں کو کپڑوں سے بند کیا۔پھر بار نبوت کو اپنے کاندھوں پر سوار کر کے غار میں لے گئے۔ایک سوراخ کپڑا نہ ہونے کے باعث کھلا رہ گیا جس پر آپ نے پاوں کا انگوٹھا رکھ دیا۔محبوب ربانی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی آغوش مبارک میں محو خواب تھے۔کہ سانپ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو ڈس لیا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں شدت درد سے اشک بہے اور چہرہ رسول پر ٹپک پڑے۔آپ کی آنکھ کھل گئی تو اشک باری کا سبب پوچھا۔آپ نے لعاب دہن لگایا تو درد جاتا رہا۔ایک روایت کے مطابق وہ سانپ مدتوں سے زیارت رسول کا منتظر تھا۔ایسا بھی ہوا کہ دشمن تعاقب کرتے ہوئے غار کے دھانے تک پہنچا مگر قدرت خداوندی دیکھیے کہ وہاں مکڑی نے جالا بن دیا تھا۔دشمن نے سمجھا کہ غار میں گئے ہوتے تو جالا ٹوٹ گیا ہوتا۔چناں چہ واپس ہو گئے۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بے تاب ہوئے تو قرآن پاک میں اللہ نے یوں بیان فرمایا۔غار میں دو میں سے دوسرے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے ساتھی سے کہا کہ گبھراو مت اللہ ہمارے ساتھ ہے۔یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے۔جب سیدنا موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو تسلی دی تو صرف یہ فرمایا کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یوں تسلی دی کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

مکہ المکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا فاصلہ تین سو میل سے زائد کا ہے۔اور ہجرت کا راستہ ہٹ کر طے کیا گیا۔جو انتہائی تکلیف دہ اور خطرناک تھا۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر مشتمل ہجرت کا قافلہ یثرب ( مدینہ منورہ) پہنچ گیا۔جہاں کے لوگ آپ کے شدت سے منتظر تھے۔بچیوں نے آپ کی شان میں نعتیہ کلمات دف بجا کر ترنم کے ساتھ سنائے اور آپ کا پرجوش و پر تپاک استقبال کیا گیا۔آپ یثرب پہنچے تو ہر انصاری کی خواہش تھی کہ آپ ان کے مہمان بنیں۔آپ نے فرمایا جہاں ناقہ بیٹھ جائے گا وہیں قیام ہو گا۔آپ کی مہمان نوازی حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی قسمت میں آئی۔جب آپ یثرب تشریف لے گئے۔ان دنوں یہودی عبداللہ بن ابی بن سلول کی تاج پوشی زیر تجویز تھی مگر آپ کی آمد کے باعث اس کی حکمرانی قائم نہ ہو سکی۔اہل یثرب مشرف بہ اسلام ہونے لگے اور مکہ کے مسلمان بھی یثرب پہنچنے لگے۔یوں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہو گیا۔حضرت عبد اللہ بن سلام ایسے ممتاز یہودی عالم بھی مسلمان ہو گئے۔بامر مجبوری عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی بظاہر مسلمان ہو گیا مگر اسے حکومت نہ ملنے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلبے کا دکھ تا حیات ستاتا رہا اور وہ شخص تادم مرگ دین اسلام،آپ اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا اور سازشیں کرتا رہا۔وہ تنہا بھی نہیں تھا۔

پورا ایک گروہ اس کا ہمنوا تھا۔جسے اللہ نے منافقین قرار دیا۔اور عبد اللہ بن ابی اس گروہ کا سردار ٹھہرا۔جسے تاریخ منافق اعظم کے عنوان سے یاد کرتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہاجرین و انصار رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین کے مابین مواخات کا نظام تشکیل دے کر ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔انصار رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین نے مثالی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے نہ صرف اپنی نصف جائیدادیں مہاجرین بھائیوں کو دے دیں۔ بل کہ جس کی دو بیویاں تھیں اس نے ایک کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی کے ساتھ نکاح کرا دیا۔سب کو بھائی بھائی بنانے کے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بھائی قرار دیا۔گویا مکہ میں بھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی زیر کفالت و زیر تربیت تھے اور یثرب میں بھی آپ کی ہمراہی کے حق دار ٹھہرے۔آپ کی آمد کے بعد یثرب مدینہ النبی کہلانے لگا۔وہاں دیگر لوگوں سمیت یہودی قبائل خذیمہ،بنو قریظہ،بنو قینقاع اور اوس و خزرج بھی آباد تھے۔چناں چہ آپ نے سب کے ساتھ معاہدہ کیا کہ مل جل کر اتفاق سے رہیں گے۔کسی بھی فریق کا دوست دوسرے فریق کا بھی دوست اور کسی بھی فریق کا دشمن دوسرے فریق کا بھی دشمن تصور ہو گا۔ایک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ سمجھا جائے گا۔اس معاہدے کو میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد مدینہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔

جس کی سربراہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے۔مسلمان داخلی طور پر پر سکون اور بیرونی دشمنوں بالخصوص کفار مکہ سے محفوظ ہو گئے۔مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کے ہاں طویل عرصے تک کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔تو کفار مکہ نے افواہیں اڑا دیں کہ یہ ان کے بتوں کی کرامات ہیں۔مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پھوپھی ذاد بھائی زبیر بن العوام اور حضرت اسما بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہم کو اللہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ عطا فرمایا۔یوں کفار مکہ کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا اور مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔سیدنا علی المرتضی اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ رضوان اللہ تعالی علیھم کا نکاح بھی ہو چکا تھا۔2 ہجری میں سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی۔کفار قریش کو ریاست اسلامیہ، مسلمانوں کا سکون اور ترقی و استحکام برداشت نہ ہو سکا۔ان کی ریشہ دوانیاں جاری تھیں۔کہ اہل مکہ کا قافلہ تجارت ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام سے واپس آرہا تھا۔اسے خطرہ محسوس ہوا کہ مسلمان مدینہ کے راستے میں لوٹ لیں گے۔چناں چہ ابو سفیان نے مدد و معاونت کے لیے اپنا قاصد مکہ بھیجا۔وہاں سے وقت کے فرعون ابوجہل اور سرداران قریش کی قیادت میں ایک ہزار افراد پر مشتمل مسلح لشکر روانہ ہوا۔جس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔تین سو تیرہ مسلمان چند گھوڑوں،اونٹوں،تلواروں،تیروں،نیزوں اور معمولی خوراک کے ساتھ روانہ ہوئے تو بدر کے مقام پر آمنا سامنا ہو گیا۔باہم جنگ میں ابوجہل،امیہ،عتبہ،عتیبہ،شیبہ سمیت ستر کافر واصل جہنم ہوئے۔اللہ تعالی نے مددو نصرت کا وعدہ پورا کر دیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم الاجمعین کی روایات کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ ملائکہ کفار کی گردنیں اتار اتار کر پھینک رہے تھے۔علامہ اقبال نے یوں تصویر کشی کی ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
غزوہ بدر میں مٹھی بھر نہتے مسلمانوں کی اپنے سے ڈھائی گنا زیادہ مسلح لشکر پر فتح نے کفار مکہ کے ہوش اڑا دیے اور روم و فارس کی عظیم عالمی سلطنتوں پر بھی دھاک بٹھا دی۔

غزوہ بدر کا گہرا زخم کفار قریش کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔اس لیے وہ پہلے سے بڑھ کر تیاری کر کے آئندہ برس ہی 3 ہجری میں ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلے۔مسلمان پہلے کی نسبت تعداد اور قوت میں زیادہ تھے۔آمد کے مقام پر آمنا سامنا ہوا تو کفار کو ایک مرتبہ پھر شکست ہوئی۔اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ پڑے۔مگر حضرت خالد بن ولید (جو تب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور لشکر کفار میں کمانڈر تھے)۔نے بھاگتے ہوئے مڑ کر پہاڑ کی اس گھاٹی ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پچاس تیر انداذ وہاں مقرر فرمائے تھے۔ان کے کمانڈر نے مورچہ خالی کرنے سے روکا مگر بیشتر نے موقف اختیار کیا کہ حکم جنگ تک کے لیے تھا۔اور مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے)کو خالی پا کر مسلمانوں پر اس وقت اچانک حملہ کر دیا جب وہ مال غنیمت سمیٹ رہے تھے۔

پس فتح شکست میں بدل گئی۔بہت سا جانی و مالی نقصان ہو گیا۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کھائی میں جا گرے اور ان کے دو دندان مبارک بھی شہید ہو گئے۔افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید ہو چکے۔مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا فضائل اعمال کے رسالے حکایات صحابہ میں غزوہ احد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا دیکھ کر کفار کا ایک دستہ آپ کی جانب بڑھا تو آپ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا۔اے علی! انہیں روکو۔انہوں نے مقابلہ کیا اور کفار کو پسپا کر دیا۔دوسری اور پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔حضرت جبرئیل امین تشریف لائے۔ اور فرمایا کہ اللہ نے علی کو سلام کہا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔کیوں نہیں۔علی منی وانا منہ۔(علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں)حضرت جبرئیل بولے۔وانا منکما۔(اور میں آپ دونوں میں سے ہوں)۔ اصحاب رسول رضوان اللہ تعالی عنہم الاجمعین میں ان لوگوں کے عمل پر ناراض ہوئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت کے بغیر گھاٹی چھوڑ دی تھی۔رب تعالی نے زخمیوں سمیت سب کو حکم دیا کہ کفار کا تعاقب کریں۔

تمام نے تعمیل کی مگر لشکر کفار نکل چکا تھا۔اللہ تعالی نے معافی کا اعلان بھی فرمادیا۔مگر سبق یہ ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے بغیر کوئی عمل نہیں کرنا اور مال غنیمت بھی نہیں سمیٹنا ورنہ اطاعت خدا و رسول کے منافی تصور ہو گا۔گویا اس حکم پر عمل یقینی بنایا جائے کہ جو رسول اللہ عطا کریں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاو۔پس یہی بندگی ہے۔ ہجری کے پانچویں برس کفار قریش متحد و منظم ہو کر پھر آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاع و مقابلے کے لیے مشاورت کی تو سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایران کی روایت کے مطابق شہر کے گرد دفاعی خندق کھودنے کی تجویز پیش کی۔جسے پسند کیا گیا۔چناں چہ کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔جس میں آقائے دو جہاں،سرور کون و مکاں اور شاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کارکن کے طور پر شریک ہوئے۔جب آپ کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم نے بتایا کہ بھوک کے باعث پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں تو پتہ چلا کہ آپ نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔بہرحال لشکر کفار آیا اور خندق کے گرد قیام پذیر ہو گیا۔خندق عبور کرنے کی کوشش کی جاتی تو مسلمان مزاحمت کر کے اسے ناکام بنا دیتے۔کئی روز تک محاصرہ رہا مگر ایک رات طوفان آیا تو کفار کے خیمے اکھڑ گئے۔ساز و سامان اڑ گیا۔یوں مسلمانوں کو نصرت خداوندی ملی اور لشکر کفار ناکام و نامراد لوٹ گیا۔اس جنگ کو غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ مشرکین کے گروہ متحد ہو کر آئے تھے۔

سورت الاحزاب بھی اسی مناسبت سے نازل ہوئی تھی۔اس بار جنگ کے دوران مدینہ کے بعض یہودی قبائل نے میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم مقرر کر کے فرمایا کہ وہ تورات کے مطابق فیصلہ کریں۔چناں چہ انہوں نے موسوی شریعت کے تحت فیصلہ دیا کہ یہودی ایک دوسرے کو قتل کریں اور اس پر عمل ہوا۔بعد ازاں یہودیوں کی شرارتوں اور سازشوں کے سبب انہیں مدینہ بدر کر دیا گیا۔وہ خیبر کے مقام پر منتقل ہو گئے۔اب مدینہ خالص اسلامی ریاست بن چکا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روم و فارس سمیت دنیا بھر کے ممالک کے سربراہوں کو مراسلات بھیج کر دین حق کی دعوت دیتے ہوئے اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کا پیغام دیا۔شاہ حبشہ نجاشی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ان کی وفات ہوئی تو آپ نے مدینہ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔بعض نے اسلامی سفیروں کی آو بھگت کی اور آپ کے مراسلوں کو عزت دی۔فارس کے کسری’ خسرو پرویز نے مراسلہ تار تار کر کے گستاخی کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا۔خسرو ہلاک ہو گیا۔اور پھر اس کے بیٹے نے اسے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
(جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/aitakvua/public_html/news/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296