1

موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک بہتر معاشرہ



انسانی تاریخ گواہ ہے کہ معاشرے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ کبھی ترقی اور خوشحالی کا دور آیا اور کبھی زوال اور انتشار نے گھیر لیا۔ آج کا دور تیز رفتار تبدیلیوں، سائنسی ترقی، ڈیجیٹل انقلاب اور عالمی رابطوں کا زمانہ ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی گراوٹ، معاشی عدم مساوات، سماجی ناانصافی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل بھی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک بہتر معاشرے کی تشکیل نہ صرف ایک خواہش بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ بہتر معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں انسان کو عزت، انصاف، امن، مواقع اور ذمے داری کا احساس میسر ہو۔

موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا چیلنج اخلاقی اقدار کا کمزور ہونا ہے۔ سچائی، دیانت داری، برداشت اور احترام جیسے اوصاف جو کسی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہے ہیں۔ مادہ پرستی اور خود غرضی نے اجتماعی سوچ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک بہتر معاشرہ وہی ہو سکتا ہے جہاں فرد اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کے حقوق اور احساسات کا خیال رکھے۔ اس کے لیے اخلاقی تعلیم، گھریلو تربیت اور عملی نمونوں کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں رٹا، نمبروں کی دوڑ اور ڈگریوں کی اہمیت تو ہے مگر کردار سازی، تنقیدی سوچ اور عملی ہنر کی کمی ہے۔ ایک بہتر معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو محض ملازمت کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے انسان سازی کا عمل بنایا جائے۔ نصاب میں اخلاقیات، شہری ذمے داریاں، تحقیق، مکالمہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو شامل کیا جائے تاکہ نوجوان نسل باشعور اور ذمے دار شہری بن سکے۔

معاشی عدم مساوات بھی موجودہ معاشرتی مسائل میں ایک اہم عنصر ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق سماجی بے چینی، جرائم اور محرومی کو جنم دیتا ہے۔ ایک بہتر معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم، روزگار کے مساوی مواقع اور کمزور طبقوں کی کفالت ضروری ہے۔ ریاست، نجی شعبہ اور سماجی ادارے مل کر ایسا نظام تشکیل دیں جس میں محنت کی قدر ہو، استحصال کی حوصلہ شکنی ہو اور ہر فرد کو باعزت روزی کمانے کا موقع ملے۔

قانون کی بالادستی اور انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں انصاف کا تاخیر کا شکار ہونا اور طاقتور کا قانون سے بالاتر ہونا معاشرتی اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ ایک بہتر معاشرے کے لیے لازم ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو، احتساب شفاف ہو اور ادارے آزاد اور مضبوط ہوں۔ جب عام شہری کو یہ یقین ہو کہ اس کے حقوق محفوظ ہیں تو وہ معاشرے کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار آج کے دور میں نہایت اہم ہوچکا ہے۔ یہ ذرائع رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے سنسنی خیزی، جھوٹی خبروں اور نفرت انگیز مواد نے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک بہتر معاشرہ وہ ہوگا جہاں میڈیا ذمہے داری، سچائی اور توازن کے اصولوں پر عمل کرے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ تصدیق کے بغیر معلومات پھیلانے سے گریز کریں اور مثبت مکالمے کو فروغ دیں۔

نوجوان کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں نوجوان بے روزگاری، عدم رہنمائی اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔ ایک بہتر معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم، ہنر، کھیل اور مثبت سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان کی آواز سنی جائے، انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے۔ جب نوجوان بااختیار ہوں گے تو معاشرہ خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

خواتین کا کردار بھی ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت کو تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ کے مساوی حقوق دینا نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کی ضمانت بھی ہے۔ موجودہ حالات میں خواتین کو درپیش مسائل جیسے ہراسانی، امتیاز اور محدود مواقع کا حل نکالنا ناگزیر ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کریں، حقیقی معنوں میں بہتر معاشرہ کہلا سکتا ہے۔

ماحولیات کا تحفظ آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال آنے والی نسلوں کے لیے خطرہ ہے۔ ایک بہتر معاشرے میں ماحول دوست طرزِ زندگی، شجرکاری، صاف توانائی اور ذمے دارانہ استعمال کو فروغ دیا جاتا ہے۔ فرد اور ریاست دونوں کی ذمے داری ہے کہ وہ زمین کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک بہتر معاشرہ کسی ایک فرد یا ادارے کی کوشش سے وجود میں نہیں آتا بلکہ یہ اجتماعی شعور، مشترکہ ذمہ داری اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال اگرچہ چیلنجز سے بھرپور ہے، مگر اسی میں بہتری کے مواقع بھی پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم تعلیم، اخلاق، انصاف، مساوات اور باہمی احترام کو اپنا شعار بنا لیں تو ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد باعزت، محفوظ اور پرامید زندگی گزار سکے۔ یہی ایک بہتر معاشرے کا حقیقی تصور ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔



Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں