اینٹی بائیوٹکس کے نامکمل یا غیر ضروری استعمال کے سبب پاکستان کے شہری اینٹی مائیکروبیل مزاحمت کے بڑھتے ہوئے خطرے کی لپیٹ میں ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال 2 سے 3 لاکھ افراد براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے انفیکشنز کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،جبکہ آئی سی یوز میں بھی ایسے مریضوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جن کے انفیکشن ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ جراثیم کے سبب پھیلتے ہیں۔ڈاکٹرز خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق 2050 تک اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کے باعث دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ تک اموات ہو سکتی ہیں۔
اس حوالے سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مالیکیولر پیتھالوجی لیبارٹری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (اے ایم آر) اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیکٹیریا، وائرس، فنگس یا پیراسائٹس وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں انفیکشن کا علاج مشکل یا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اینٹی مائیکروبیل مزاحمت ایک عالمی خطرہ ہے کیونکہ اس سے بیماری کا دورانیہ طویل ہوجاتا ہے، علاج کے اخراجات زیادہ بڑھ جاتے ہیں، علاج میں پیچیدگیاں اور اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورتحال سرجری، کیموتھراپی اور انتہائی نگہداشت کے شعبوں کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کے باعث دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ اموات ہو سکتی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید خان کے مطابق پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کی بڑی وجوہات میں بغیر نسخے کے اینٹی بایوٹکس کا استعمال، ادویات کا نامکمل یا غیر ضروری استعمال، اسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول کے ناقص انتظامات، مویشیوں اور پولٹری میں اینٹی بایوٹکس کا بے جا استعمال اور کمزور نگرانی و رپورٹنگ نظام شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی کے بڑے اسپتالوں میں سب سے زیادہ مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا میں ایشیریشیا کولی، کلیبسئیلا نیومونیا، ایسینیٹوبیکٹر باؤمانی، پیسیوڈوموناس ایروجنوزا، میتھیسلن ریزسٹنٹ اسٹیفیلوکوکس اوریئس (ایم آر ایس اے) اور ایکس ڈی آر سالمونیلہ ٹائیفی شامل ہیں۔ یہ بیکٹیریا پیشاب کی نالی کے انفیکشنز، آئی سی یو انفیکشنز اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض میں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔فلو کے بعد بیکٹیریل نمونیا زیادہ مہلک ہو گیا ہے کیونکہ پہلی لائن اینٹی بایوٹکس اکثر بے اثر ہو جاتی ہیں، جس سے مؤثر علاج میں تاخیر اور بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ بچوں، بزرگوں اور کمزور مدافعت والے افراد میں اے ایم آر کا خطرہ زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے اسپتالوں کے آئی سی یوز، نیونیٹل یونٹس، سرجیکل وارڈز، ٹی بی اور انفیکشن وارڈز میں ایم ڈی آر گرام نیگیٹو انفیکشنز اور ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر سعید خان نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں تپِ دق (ٹی بی) کا بوجھ سب سے زیادہ ہے، جبکہ ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ اور ایکسٹینسیولی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی ایک ہنگامی مسئلہ بن چکی ہے۔ ایسے مریضوں کو 18 سے 24 ماہ تک طویل اور مہنگا علاج درکار ہوتا ہے، جبکہ علاج ناکام ہونے اور اموات کا خطرہ بھی نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف مطالعات کے مطابق ملک کے بڑے سرکاری و نجی اسپتالوں کے آئی سی یوز میں 40 سے 70 فیصد مریض ایسے انفیکشنز کا شکار ہوتے ہیں جو ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ جراثیم سے پھیلتے ہیں، جن میں زیادہ تر گرام نیگیٹو بیکٹیریا شامل ہوتے ہیں، جو علاج کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
مائیکروبیالوجسٹ ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر نے کہا کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے 204 ممالک میں 29 ویں مقام پر ہے،جبکہ مختلف ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ہر سال اے ایم آر کے سبب 2 سے 3 لاکھ افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر جان سے جاتے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کی شرح سالانہ بڑھ رہی ہے،ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں 5 سے 15 فیصد تک اضافہ تک اضافہ ہورہا ہے۔
Source link















