20

سیاسی اختلافات کی سزا عوام کو کیوں؟

عیدالفطر تو گزر گئی مگر ملک میں گرمی کا آغاز ہو گیا ہے اور اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی نے اپریل سے ہی سیاسی ماحول گرم کرنا شروع کر دیا ہے جس کو وہ حکومت مخالف سیاسی اتحاد کے ذریعے مزید آگ بھڑکا کر انتہا پر پہنچانے کی بھرپور کوشش میں ہے۔

بلوچستان کے پشتون رہنما محمود خان اچکزئی اور چھوٹی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علامہ ناصر عباس اور حامد رضا پہلے ہی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی مجبوری کے بعد حامد رضا کی پارٹی پارلیمانی پارٹی بن گئی تھی اور پی ٹی آئی کی حمایت سے ہی وہ رکن قومی اسمبلی بن گئے تھے جب کہ محمود خان اور علامہ ناصر عباس کا اپنا ووٹ بینک ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی نئی پارٹی عوامی مقبولیت کے مخصوص درجے پر نہیں پہنچ پائی۔ وہ تو 2018 کے الیکشن میں اپنے آبائی حلقے مری سے بھی ہارے تھے، ان کی سیاسی حیثیت سابق وزیر اعظم کی بھی ہے اور اپوزیشن کے بڑے اتحاد کے لیے کوشاں مصطفیٰ نواز کھوکھر، سابق سینیٹر محمد علی درانی کی طرح پی پی کی وجہ سے ایک بار سینیٹر بن گئے تھے۔

جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن موجودہ اپوزیشن میں واحد سیاسی قوت اور اسٹریٹ پاور کے حامل ہیں جو گرمیوں میں بھی سڑکیں گرم رکھنے کی سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس کے پی کی حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان اور پنجاب و سندھ میں ارکان صوبائی اسمبلی ضرور ہیں مگر اس کا بانی اپنی جارحانہ سیاست کے باعث جیل میں ہے اور انھوں نے اپنی پارٹی ان وکلا کے حوالے کردی ہے جو نئے سیاستدان ہیں جنھیں سیاست نہیں وکالت کا تجربہ ضرور ہے۔

 پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی آزاد قیادت چاہتی ہی نہیں کہ بانی جیل سے باہر آئیں، ورنہ ان کی وہ سیاسی حیثیت ختم ہو جائے گی جو انھیں بانی کے قید میں رہنے کے باعث حاصل ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی بصیرت کا یہ حال ہے کہ بانی کے چاہنے والوں نے برے وقت میں پی ٹی آئی کے جلسے کرائے، بانی کی وکالت کی مگر اپنوں ہی کی سیاسی رقابت کے باعث بانی نے انھیں پارٹی سے فارغ کر دیا اور انھی کے مطابق پی ٹی آئی میں بھی معاہدے کے مطابق فارم 47 کے منتخب ارکان موجود ہیں اور انھی کی وجہ سے حکومت پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش میں ہے۔

پی ٹی آئی کا اہم سیکریٹری جنرل کا عہدہ لاہور کے ایک قابل مشہور وکیل کے حوالے کیا ہے جن کی سیاسی اہمیت ابھی بہت زیادہ نہیں۔ یہی حال پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین کا ہے جو پی ٹی آئی کی وجہ سے پارلیمنٹ میں کے پی سے ہیں مگر نئے سیکریٹری جنرل لاہور سے الیکشن ہارے ہوئے ہیں۔ حامد خان کی وجہ سے لاہور اور بعض شہروں میں وکیلوں کی بڑی تعداد موجودہ حکومت کی مخالفت میں پی ٹی آئی کی حامی ہے مگر پی ٹی آئی کے حامی وکلا ملک میں حکومت کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلا سکے یہ سب سیاست میں غیر اہم مگر وکلا سیاست میں ضرور اہم ہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت جن وکیلوں کے ہاتھ میں ہے وہ ابھی تک بانی کو رہا نہیں کرا سکے اور بانی کی اہلیہ اور بہنوں کے بھی وکیلوں میں مختلف گروپ ہیں اور پرانے پی ٹی آئی رہنماؤں کی حیثیت صرف پارلیمانی رہ گئی ہے جن کا زیادہ تعلق کے پی سے ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے نو وارد وقاص اکرم کو پارٹی ترجمان بنایا گیا ہے باقی پنجاب کی قیادت خود خاموش ہے اور محدود سیاست کر رہے ہیں یہی حال سندھ کا ہے اور پی ٹی آئی بلوچستان میں بھی نام کی حد تک ہے صرف کے پی میں اقتدار کے باعث پی ٹی آئی نظر ضرور آتی ہے مگر وزیر اعلیٰ کے پی کی توجہ اب صرف اپنے اقتدار تک محدود ہے کے پی کی پارٹی قیادت اب وزیر اعلیٰ سے واپس لی جا چکی ہے۔

موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی مختلف گروپوں میں تقسیم ہے اور منقسم پی ٹی آئی اپنے بانی کے مفاد کے لیے مولانا فضل الرحمن کو ملا کر حکومت کے خلاف گرمیوں میں تحریک چلانا چاہتی ہے، جو اس کا حق ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی مولانا کو بانی کی رہائی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر مولانا نے کچی گولیاں کھیلی ہیں نہ وہ سیاسی اختلاف کے باوجود ریاست کے خلاف جائیں گے کیونکہ انھیں ملکی مفاد عزیز ہے اور اختلافات کی سزا ریاست کو نہ دینے کے حامی ہیں۔

پی ٹی آئی پہلے بھی ریاست کے خلاف تحریک چلانے میں مکمل ناکام رہی ہے اور اب پھر احتجاجی تحریک چلانا چاہتی ہے تو ضرور چلائے جو اس کا حق ہے مگر اپنے سیاسی اختلافات کی سزا ریاست کو نہ دے کیونکہ حکومت کے پاس ریاستی طاقت ہے جو کمزور نہیں اگر تحریک چلی تو نقصان حکومت کا نہیں پی ٹی آئی کا اپنا ہوگا۔ پی ٹی آئی اپنے ساتھ ریاست کا جو نقصان کرے گی وہ حکومت کا نہیں عوام کا ہوگا اور سزا عوام بھگتیں گے اور مزید ٹیکسوں، مہنگائی اور بدامنی کا شکار ہو جائیں گے اس لیے سب کو چاہیے کہ اپنے احتجاج کی سزا عوام کو بھی نہ دیں تو بہتر ہوگا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں