کراچی:
صوبائی محکمہ صحت گزشتہ 20 سال سے ہیلتھ پالیسی کے بغیر کام کررہا ہے جبکہ صوبے میں ڈرگ پالیسی بھی نہیں بنائی گئی، 18 ویں ترتیم کے بعد یہ تمام ذمہ داری محکمہ صحت پر عائد ہوتی ہے، سندھ میں بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے، محکمہ صحت کی جانب سے 2005میں آخری ہیلتھ پالیسی جاری کی گئی تھی، 20 سال گزرنے کے باوجود ہیلتھ پالیسی جاری نہیں کی جاسکی۔
اس دوران صوبے کی عوام کو کوویڈ، چکن گنیا، کانگو، ملیریا، ڈینگی، ایچ آئی وی ایڈز، ہیپاٹائٹس اور تپ دق سمیت دیگر انفیکشن ڈیزیز اور موسمی بیماریوں کا سامنا ہے۔ صوبے میں ہیلتھ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری محکمہ صحت کے شعبہ جات میں روابط کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ ان 20 سال کے دوران محکمہ صحت کے ماتحت سرکاری اسپتالوں اور دیگر صحت کے پرگراموں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی بھی مرض پر قابو نہیں پایا جاسکا اور نہ ہی ہیلتھ پالسی بنائی جاسکی۔
محکمہ صحت کی جانب سے کسی بھی وبائی امراض اور موسمی وائرس پر صرف ایک نوٹیفیکشن جاری کر کے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے جبکہ صحت کی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہیلتھ پالیسی کا مقصد صوبے کی عوام کو مختلف وبائی امراض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور جنرل فزیشن کو بھی بیماریوں کے بارے میں اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے آخری ہیلتھ پالیسی 7 مارچ 2005 میں بنائی گئی تھی جس کی منظوری اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے دی تھی اور اپنے ایک مکتوب میں ہیلتھ پالیسی جاری کرنے پر اس وقت کے سابقہ سیکرٹری صحت پروفیسر نوشاد شیخ، ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر شفقت عباسی اور سیکشن آفیسر ڈاکٹر جمیل مغل کو مبارکباد دی تھی۔
2005 میں بنائی جانے والی ہیلتھ پالیسی میں مواصلاتی اور غیر مواصلاتی بیماریوں کی روک تھام، ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنانے، غذائی قلت کو قابو پانے، ضلعی ہیلتھ سسٹم کے قیام، نجی طبی اداروں کی ریگولیشن، طبی تعلیم کی بہتری، اسکول ہیلتھ سروس کے قیام، ادویات کے غیرقانونی استعمال کو کنٹرول سمیت دیگر مقاصد شامل تھے اور اس پالیسی میں بیماریوں کی روک تھام اور سدباب کے اہداف بھی مقرر کیے گئے تھے تاہم بدقسمتی سے اس کے بعد 20 سال گزرجانے کے باوجود محکمہ صحت حکومت سندھ کوئی ہیلتھ پالیسی نہیں بنا سکا جس سے محکمہ صحت کی عوام دلچسپی اور صوبے کو صحت مندانہ ماحول بنانے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ماہر صحت اور سابقہ ڈائریکٹر صحت کراچی ڈاکٹر اکرام سلطان کا کہنا تھا کہ صوبے میں 20 سال سے ہیلتھ پالیسی بنائی گئی اور نہ ہی ڈرگ پالیسی موجود ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کے بعد محکمہ صحت سندھ کے محکمہ صحت میں ڈرگ پالیسی، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سمیت دیگر امور بھی مکمل فعال ہونے چاہیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ میں ہیلتھ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محکمہ صحت کا صوبے سے بیماریوں کے خاتمے کے لیے کوئی اہداف (ٹارگٹ) مقرر نہیں، جو بھی بیماری سامنے آئی اس کو حل کرنے میں لگ جاتے ہیں لیکن جب پالیسی بنائی جاتی ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت محکمہ کے ماتحت چلنے والے مختلف ورٹیکل پروگرام کو ایک ٹارگٹ دیا جاتا ہے اور محکمہ میں قبل ازوقت حکمت عملی بنائی جاتی ہے کہ ہم نے کس طرح بیماریوں کا سدباب کرنا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے سال میں اہداف مقرر کیے جاتے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت مختلف بیماریوں کے خاتمے کے لیے ٹائم فریم مقرر ہوتا ہے اور پھر سال کے آخر میں اہداف کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ بیماری پر کنتے فیصد قابو پایا گیا۔
انہوں نے کہا بدقسمتی سے صوبے میں کسی بھی مرض کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے کیونکہ ہمارے صوبے میں ہیلتھ پالیسی نہیں اور جب ہیلتھ پالیسی نہیں ہوتی تو محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے ورٹیکل و ضلع صحت عامہ کے پروگرام کے کوئی اہداف مقرر نہیں ہوتے۔
صوبے سندھ کے عوام ہر ماہ اور پورا سال مختلف وائرس کی زد میں زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ صوبے سندھ میں صحت مند معاشرے کا قیام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ کراچی سمیت سندھ کی عوام پورے سال کسی نہ کسی بیماری یا وباء یا وائرس کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے علاج کے لیے در بدر ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا صوبے سندھ میں کوئی ہیلتھ پالسی نہیں ہے اس لیے کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے کوئی اہداف بھی مقرر نہیں اور نہ ہی ان بیماریوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ جب تک کسی بیماری کا ڈیٹا موجود نہیں ہوگا اس وقت تک بیماری کے علاج و خاتمے کے لیے کوئی ہدف مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
ڈرگ پالیسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ سمیت پاکستان میں میں ڈرگ پالیسی اور Pharmacopia (ادویات کا آئین) موجود نہیں جبکہ دنیا بھر کے تمام ممالک کی اپنی اپنی Pharmacopia موجود ہے، انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار ادویات کی خریدوفروخت Generic name سے ہوتی تھی جوکہ ختم کردی گئی، جس کے بعد اب دوائیں Trade نام سے فروخت کی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بیرون ممالک سے جو ادویات پاکستان درآمد کی جاتی ہیں ہم اس کے معیار کیسے چیک کریں کیونکہ ہمارے ملک میں Pharmacopia موجود ہی نہیں ہے، ہمارے ملک میں اپنے Pharmacopia ہونی چاہیے تاکہ باہر سے آنے والی ادویات کو چیک کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کی اپنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے جسے سندھ میں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کی گئی اسی طرح سندھ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے۔
ماہر صحت Dr. Greesh Kumar نے بتایا کہ صوبے میں صحت پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیماریوں کا اور ان پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی واضع نہیں ہوتی اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون کون سے صحت کے پروگرام کی کارگردگی کیا ہے اور کون کون سی بیماریاں سر اٹھارہی ہیں جبکہ صوبے میں موسمی بیماریوں کے ساتھ ساتھ مختلف انفیکشنز کا بھی عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صوبے پر پورے سال مختلف انفیکشن حملہ آور رہتے ہیں جبکہ صوبے میں ان انفیکشن ڈیزیز کی روک تھا م اور مانیٹرنگ کے لیے باقاعدہ ورٹیکل پروگرام موجود ہیں لیکن ان کی کارگردگی سے حکومت اور عوام لاعلم رہتے ہیں جس کی وجہ صوبے میں ہیلتھ پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ ہیلتھ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے اسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکزوں کے انفراسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوتے ہیں جبکہ ورٹیکل پروگرام سمیت دیگر پروگراموں اور اسپتالوں کی کارگردگی بھی عوام کے سامنے نہیں آتی اور عوام اور بین الاقوامی اداروں میں ایک منفی پہلو اجاگر ہوجاتا ہے۔
دوسری جانب صحت عامہ کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں مریضوں کا دباؤ شدید ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو مناسب طبی توجہ بھی نہیں مل پاتی۔ جبکہ صوبہ سندھ میں پرائمری ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر موجود ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سروے رپورٹ کے مطابق صوبے سندھ میں مختلف بیماریوں اور مختلف سرکاری اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کا کوئی ڈیٹا سسٹم موجود نہیں اور اس وقت کراچی میں سیکریٹری صحت سمیت ڈائریکٹر صحت کراچی اور دیگر ضلعی اسپتال موجود ہیں جبکہ حیدرآباد میں محکمہ صحت کا دوسرا اہم سیکریڑیٹ قائم ہے جس کو ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ کا نام دیا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ڈی جی آفس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ورٹیکل پروگرام اور دیگر کو حیدرآباد جانا پڑتا ہے جس میں وقت کا ضائع اور پیٹرول کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اور متعلقہ آفسر کو ٹی اے ڈی اے بھی ملتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے ورٹیکل پروگرامز کو سالانہ اربورں روپے جاری کیے جاتے ہیں جس میں بیماریوں کی سرویلینس اور روک تھام شامل ہوتی ہے جبکہ وبائی امراض کے کنٹرول کرنے کے لیے بھی بجٹ فراہم کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں ہیلتھ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کی روک تھام، علاج اور معذور افراد کی بحالی پر کوئی صحت کی پالیسی نہیں بنائی جاسکی جبکہ اسٹیک ہولڈرز، این جی اوز، نجی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ادارے اور بین الاقوامی شراکت داروں کے لیے بھی کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔
دوسری جانب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے اسپتالوں اور اندرون سندھ میں صحت کے بنیادی مراکز میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اور سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں جبکہ سندھ میں شعبہ طب میں جدید ٹیکنالوجی سے استعفادہ بھی نظر نہیں آتا۔
صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے ماہرین صحت اور طبی عملے کی کمی کا محکمہ صحت کو مسلسل سامنا کرنا پڑرہا ہے، ان عملے کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لیے سرکاری سطح پر تربیت کا بھی فقدان ہے۔ پرائمری سطح پر صحت کے مسائل اور ان سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی تحقیق کے مراکز بھی موجود نہیں۔
صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ایک مضبوط ہیلتھ پالیسی کا قیام ضروری ہے تاکہ سندھ میں عوام کی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنایا جاسکے جس سے صوبے کے عوام کو فائدہ ہو اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاسکیں۔