A picture of an oppressed woman 138

“سمیعہ صرف ایک نام نہیں، ہر مظلوم عورت کی چیخ ہے”

تحریر : پاکیزہ سحر

ایک ویڈیو دیکھی، جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا، ٹائٹل :اگر مجھے انصاف نہ ملا تو میں اپنے بچوں سمیت وزیر اعلی کے گھر کے سامنے خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گی۔ تاکہ میری چیخیں اس نظام کو جھنجھوڑ دیں اور کسی عورت کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو۔

ٹائٹل نے نظام کو تو نہیں جھنجھوڑا لیکن میرے ضمیر کو ضرور جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
ہم جو خود کو سماجھی کارکن کہتے ہیں، ایسے مسائل پر ہم بھی چپ سادھ لیتی ہیں کیونکہ باس سسٹم اس نظام نے ہم سے انصاف کی امید چھین لی ہے۔
ہم بھی بے حس ہو گئے ہیں نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خود کے حقوق کے لیے بھی۔
سمیعہ کیس صرف ایک سمیعہ کا نہیں ہے،
بلکہ بہت سی سمیعاوں کے ہیں،
جنکی چیخیں کورٹ کچہری کی فصیلوں میں دب جاتی ہیں۔
جو اپنا حق تک چھوڑنے کو تیار ہوتی ہیں صرف ظلم سے بچنے کو۔
پر، اُنکے نصیب کی تاریکی دور نہیں ہوتی..

میں صرف کورٹ جج کو ہی نہیں بلکہ تمام سسٹم کو اسکا قصوروار سمجھتی ہوں ۔اور اس ظلم میں ظلم میں برابر کا شریک سمجھتی ہوں،

ایک عورت کو اپنے حق کے لیے اس فرسودہ نظام میں اپنے حق کے لیے روز زلیل ہونا پڑتا ہے،،

اک سمیعہ آپ ہیں جس نے آواز اٹھائی اور جن سمیعاوں کو میں جانتی ہوں، انہوں نےبھی انصاف کے لیے جسٹس کے دروازے کھٹکٹائے ہیں،
پر ابھی تک انکو انصاف مانگنے کے جرم میں سولی پر لٹکایا ہوا ہے۔
ک انکے بالوں میں چاندی اتر آئی۔
سمیعہ کے شوہر کی طرح انکے شوہر بھی دوسری شادی کر کے، اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئے۔۔
اور انصاف کی امید پر بیٹھی وہ بہت سی سمیعائیں امید و بہم میں ڈوبی اداس دکھ بھری آنکھوں سے انصاف کے لئیے کبھی وکیل کی طرف اور کبھی جج کی طرف دیکھ رہی ہیں،
اور ہر گزرتا لمحہ انکے چہرے کی رونق، انکی جوانی کو دکھ او کرب کی لکیروں سے بھر رہا ہوتا ہے،
یہ کرب کا احساس نہ تو ایک وکیل محسوس کر سکتا ہے نہ یہ سسسٹم، انہوں نے تو زہر بیچ کے بھی اپنی دُکان چلانی ہوتی ہے،
نہ وہ جج محسوس کر سکتا ہے جو تاریخوں پر تاریخیں دے کے انکے(سمیعاؤں) بالوں میں اُترتی چاندی یا اُنکی چھرے پر وقت کی لکیروں کو نہیں دیکھ پاتے۔،
انکو کیا پرواہ ہے کہ ان جیسی سمیعائیں جب کورٹ کچہری کے چکر لگاتی ہیں تو معاشرے کے بچھائے ہوئے طنز، طعنے، اور تہمت کے کانٹوں پر چل کے اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ آتی ہیں،

اور ماں باپ کو اپنی وجہ سے ٹوٹتے اور سہہ کے دیکھ کر روز مرتی ہیں ۔

کسی اور کے جرم کی سزا بےگناہ ہوتے بھی برداشت کر رہی ہوتی ہیں ، اور اپنی شخصیت کو مسخ ہوتا دیکھتی ہیں۔
حتی کہ خود کو بھی بیٹی ہونے کا مجرم سمجھنے لگتی ہیں۔

میں یہ سوچ کے حیران ہوں،، اور یہ حقیقت بھی ہے اور ہمارے معاشرے کا دستور بھی یہ ہی ہے کہ جو بھی ہو قصور اک خاتون، اک عورت ایک سمیعہ کا ہے کیونکہ وہ بےانصافی سے بغاوت کا حق نہیں رکھتی،،
اسکو زندگی میں اگے بڑھنے کا سکون سے جینے کا کوئی حق نہیں، اسکو ایک بھگوڑہے شوہر کو جو اپنی پسند کی کسی کو لے کے بھاگ گیا، اپنی پسند کی دوسری شادی کر لی اور اسکو اپنے حقوق بھی نہیں دیتا ،اسکو نہ رکھنا چاہتا ہے۔ نہ چھوڑتا ہے،
ہر ایسے شوہر کو قبول کرنا ہو گا، اپنے جہیز، اپنا حق مہر اپنے زیور یا اپنے خوابوں اپنے شوہر سے دستبردار ہو کے بھی اسکو رہائی نہیں ملتی،

کیونکہ وہ ایک عورت ۔ اسے زندگی میں آگے بڑھنے کا کوئی حق نہیں،
، اسے کوئی حق نہیں کے وہ انصاف مانگے ۔

ہندؤں کی اک رسم کہ خاتون کو شوہر کے ساتھ ستی (مردہ شوہر کے ساتھ زندہ بیوی کو جلانا) کیا جاتا ، لیکن ہمارے معاشرے میں زندہ درگور کیا جاتا ہے ایسی سمیعاؤں کو۔ اسی لئیے بہت سی سمیعائیںں انصاف کے لئیے اندھے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے گھر کے کونوں کھدروں میں اجڑی آنکھوں سے زندگی کے دن گن رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اب انکا خوشیوں پہ کوئی حق نہیں اب وہ ستی ہو چکی ہیں، اب وہ زندہ درگور ہیں۔
اس سسٹم کو چینج نہ کیا تو یہ سمیعہ میری بیٹی ،اپکی بیٹی ہوگی اور ہم تماشائی ہوں گے ۔
انصاف وقت پہ ہو تو ہی انصاف کہلاتا ہے،
پر ایسی سمیعائیں تو عمر قید بامشقت کاٹ رہی ہوتی ہیں اک فیصلے کے انتظار میں،، ان گزرتے لمحوں کا اس قیمتی جان کے ضیاء کا اس ناکردہ جرم کی سزا کا خمیازہ کوئی نہیں بھر سکتا ، نہ ہی کوئی ٹائم مشین ہے کہ وقت کو ریورس کر کے انکے بالوں میں اترتی چاندی انکے چہرے پہ آئی وقت کی لکیروں اور اس کرب کی سزا کو واپس کر سکے۔
انصاف وقت پہ نہ ملے تو بے گناہ سمیعاؤں کو اس دنیا کی جیل میں عمر قید بامشقت ہوتی ہے۔۔
یہ میری بیٹیاں ،آپکی بیٹیاں اور قوم کی بیٹیاں کب تک اس طرح زندہ درگور ہوتی رہیں گی ۔ اس سسٹم کو کون بدلے گا ؟ کیا سمعیہ ستی ہو کر اس سسٹم کو بدل پائے گی ؟ یا انصاف بروقت مل پائے گا ؟ یا صرف اک کہانی سمجھ کے پھر سے اس نظام کا حصہ ہوں گے ہم ؟؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں