پاک بھارت سفارتی اور تجارتی تعلقات پہلے ہی کم ترین سطح پر تھے، اس سے مزید گراوٹ کیا ہو سکتی تھی! تاہم مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلگام حملے نے ثابت کیا کہ ہوش کے ناخن فوری کام نہ آئیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اس دشوار گزار علاقے میں ہوئے اس واقعے کی اطلاع ملنے میں مقامی پولیس اسٹیشن کو بھی وقت لگا لیکن بھارتی میڈیا اور حکومت کو چند منٹ بھی نہ لگے یہ بتلانے میں کہ یہ سب کیا دھرا پاکستان کا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مودی سرکار کے حالی موالی اور میڈیا کے ساتھ اللہ دے بندہ لے کا معاملہ شروع ہو گیا، جنگی جنون فوارے کی طرح ابلنا شروع ہو گیا۔
معصوم اور بے گناہ انسانوں کی زندگیوں کا نقصان قابل مذمت ہے۔ بھارتی اپوزیشن، مسلمان، رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھرپور انداز میں پہلگام حملے میں ہوئے جانی نقصان کی مذمت کی۔ بطور ذمے دار ریاست پاکستان نے بھی سرکاری سطح پر اس حملے میں انسانی جانوں کے نقصان پر مذمت کا اظہار کیا۔
حملے کی پہلی اطلاع کے ساتھ ہی بی جے پی نے پہلگام حملے کو پاکستان دشمنی اور مذہبی منافرت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا لیکن جوں جوں واقعہ کی تفصیلات تفصیلات سامنے آئیں تو مختلف سوالات اٹھنے لگے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارتی مین اسٹریم میڈیا سے ہٹ کر کر بچے کھچے آزاد میڈیا، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے وقت کے ساتھ ساتھ اٹھائے جانے والے سوالوں میں شدت آ رہی ہے۔
ان سوالوں کی بوچھاڑ کے سامنے بی جے پی کے وزیر داخلہ کو تسلیم کرنا پڑا کہ پہلگام حملے کے واقعے میں شدید سیکیورٹی ناکامی ہوئی۔ انٹیلیجنس وارننگ کی موجودگی کے باوجود اس وارننگ پر فوری عمل نہ کرنا حکومت کی غیر ذمے داری کا مظہر ہے۔
تہرے لیول کے سیکیورٹی بندوبست کے باوجود ’’ایک بھی سیکیورٹی لیول‘‘ کا روبہ عمل نہ ہونا مجرمانہ سیکیورٹی ناکامی ہے۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب بھی مودی سرکار نہیں دے پائی کہ یاتریوں کے لیے اس مقام کو ایک مہینہ قبل کیوں کھولا گیا؟ اور یہ کہ اس کا باضابطہ اعلان تک بھی نہ کیا گیا! یہ اور اس سے ملتے جلتے کئی سوالات نے بی جے پی کی مودی سرکار کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے لیکن سیاست اور مذہبی منافرت کے بے رحم دھندے میں مین اسٹریم میڈیا یکطرفہ جنگی راگ الاپے جا رہا ہے۔
بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھئے تو جنگی جنون اور مذہبی منافرت کے ہذیان کے سوا کچھ بھی رپورٹ نہیں ہو رہا۔ تاہم بچے کھچے آزاد میڈیا سمیت اپوزیشن رہنماؤں اور دانشوروں کی رائے اور تجزیے سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے اندر بی جے پی کا بیانیہ جوں کا توں تسلیم نہیں ہو رہا بلکہ سنجیدہ حلقے محسوس کر رہے ہیں کہ بے جے پی کے موجودہ ہذیان میں ماضی کی مانند واضح پیٹرن دکھائی دے رہا ہے، سیاسی مفادات کے لیے پڑوسی ملک اور اپنی مسلمان اقلیت کو نفرت میں جھونکنے کا عمل ماضی کی طرح جانا پہچانا ہے! آخر کیوں اور کب تک؟
پہلگام حملے پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے رواں ہفتے بی جے پی حکومت نے نیو دہلی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں وزیراعظم مودی ملک میں موجود ہونے کے باوجود شریک نہ ہوئے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں ریاست جموں و کشمیر میں حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔
اس کانفرنس میں نیشنل کانگریس ، عام آدمی پارٹی اور مسلمان رہنما احمد اویسی کی طرف سے اہم سوالات اٹھائے گئے۔نیشنل کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے بار بار سیکیورٹی ناکامیوں کا ذکر کیا کہ حکومت نے انٹیلی جنس رپورٹس پر بروقت کان کیوں نہ دھرے؟ تین لیول پر مبنی سیکیورٹی کا نظام یوں آسانی سے زمین بوس کیوں ہوا ؟ یاترا کے لیے جگہ کو ایک ماہ پہلے کیوں کھولا گیا ؟
بی جے پی کے وزیر کو ںالاخر ماننا پڑا کہ سیکیورٹی ناکامی ہے جس کا جائزہ لیا جائے گا۔معروف سماجی رہنما رادھا کمار نے مین اسٹریم میڈیا سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ وادی جموں و کشمیر میں اس واقعے کی مذمت میں مسلمان کشمیریوں نے دو روز بھرپور مظاہرے کیے لیکن مین اسٹریم میڈیا نے ان مظاہروں کی کوریج کا بلیک آؤٹ رکھا تاکہ مسلمان کشمیریوں کا اظہار یکجہتی عوام کے سامنے سامنے ہی نہ آئے۔
اسی طرح حیدرآباد کے مسلمانوں نے جمعہ نماز کے وقت سیاہ پٹیاں باندھ کر پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا لیکن اس کی بھی میڈیا پر کہیں کوریج نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس چھتیس گڑھ سے بی جے پی کے رہنما نے ایکس اکاؤنٹ پر شعلہ بیانی کرتے ہوئے پہلگام کے حملہآورورں کے بارے لکھا کہ انھوں نے ’’دھرم پوچھا… جاتی نہیں‘‘!
اس واقعے کے بعد بھارت کی کئی ریاستوں میں کشمیری اسٹوڈنٹس پر ایک بار پھر افتاد ٹوٹ پڑی۔ بھارت کے مسلمانوں اور کشمیری مسلمانوں کی طرف سے اپنے ملک کی سلامتی کے واضح اظہار یکجہتی کے باوجود ان کے احساسات کو مین اسٹریم میڈیا پر نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ مین اسٹریم میڈیا نے جنگی جنون کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف رکھا۔آزاد میڈیا دا وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ نے بھارتی حکومت کے پاکستان کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ تر اقدامات حقیقی طور پر بے اثر ہیں، اس لیے کہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی ویزا جاری نہیں ہو رہے اور کراس بارڈر ٹریڈ بھی معطل ہے، سفارتی تعلقات بھی یخ بستہ ہیں لہذا سفارتی عملے کی مزید کمی کا عملی طور پر کوئی فوری نقصان نہیں ہو سکتا، البتہ سندھ طاس معاہدے کا تعطل ایک اہم اقدام ہے۔
پٹھان کوٹ اور پلوامہ واقعات کے بعد بھارت نے اسی طرح کے جنگی جنون کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس بار بھی حالات کی اٹھان اور ’’کچھ کرنے کی ڈیمانڈ‘‘ اس امر کی چغلی کھا رہی ہے کہ بی جے پی کو اپنی عوام اور دنیا کے سامنے کارروائی کرنے کا ایک بہانہ مل گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کی مہم جوئی پھیلنے کی صورت میں خطہ مزید تباہی اور بے یقینی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
موجودہ عالمی جیو پولیٹیکل صورت حال پہلے ہی دنیا میں جا بہ جا محاذ آرائی پر مشتمل ہے۔ دنیا کی سپر پاور امریکا اپنے ہی اٹھائے گئے طوفانوں میں مصروف ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان محاذ گرم ہوئے تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں، کارگل کی طرح امریکا شاید فوری کردار ادا نہ کر سکے۔ امید کرنی چاہیے کہ بھارت کے اندر سے اٹھنے والی باشعور آوازیں بی جے پی کے جنگی جنون پر مثبت اثر ڈال سکیں۔