31

شہید کا لخت جگر بھی شہید (دوسرا حصہ)

خود کش دھماکے میں مولانا حامد الحق کے ساتھ کئی اور مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، مجھے ا س بات کا یقین ہے کہ مولانا عبدالحقؒ، مولانا سمیع الحق شہید اور باباجانؒ نے مل کر جنت الفردوس میں حامد الحق حقانی شہید کا استقبال کیا ہوگا کیونکہ اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے عمریں گزارنے، قربانیاں دینے اور جانوں کے نذرانے پیش والوں کو اﷲ کریم ان کی شایان شان ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔

مولانا حامد الحق حقانی کو شہید کرنے والا خود کش بمبار تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن چکا ہے اور انشاء اﷲاس کے سہولت کار، سرپرست اور تمام کُھلے چُھپے مددگار بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ایک مومن مسلمان کو قصداً عمداً قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کے لیے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ اسے اﷲ نے اپنے غضب، لعنت اور زبردست عذاب کا بھی حقدار قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اﷲ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اسے اصطلاحِ شرع میں اِرتداد کہتے ہیں اور مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ امام بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا‘‘۔ یعنی اس طرح کے قاتل ایمان سے فارغ ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے اس عظیم خانوادے نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کے لیے مثالی اور قابل تحسین و قابل تقلید جدوجہد کی، اسلام کی تعلیمات اور قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کو مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی نہیں چھوڑا۔

اس بات کا عملی ثبوت مولانا سمیع الحق کی شہادت ہے، اتنا بڑا سانحہ رونما ہونے کے باوجود ان کے خانوادے، دارالعلوم حقانیہ اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (س) نے نہ سڑکیں بلاک کیں، نہ جلاؤگھیراؤ کیا اور نہ ہی توڑ پھوڑ کی مگر ریاست نے بلا کی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور 7 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود قاتل گرفتار ہوئے نہ اس بہیمانہ قتل کے منصوبہ ساز۔ مگر قاتل اور منصوبہ ساز یہ جان لیں کہ اﷲ کے حکم کے مطابق شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کے خاندان نے صبر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مقدمہ اﷲ رب العزت کے دربار میں اسی وقت پیش کیا تھا اور انشاء اللہ منتقم اللہ ان سفاک قاتلوں، ان کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں سے اپنی شان کے مطابق انتقام لے گا اور مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کو اپنے وعدے کے مطابق جنت الفردوس میں اعلی مقام اور اپنے محبوب خاتم النّبیین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب سے نوازے گا۔

مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے اعلی ظرف اورمحب وطن خاندان کے روایات کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا عبدالحقؒکے علمی گلشن دارالعلوم حقانیہ میں ان کے پوتے اور شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے لخت جگر مولانا حامد الحق حقانی کی خود کش حملے میں شہادت پر بھی نہ احتجاج ہوگا، نہ سڑکیں بلاک ہوں گی، نہ توڑ پھوڑ اور نہ جلاؤگھیراؤ کیا جائے گا مگر ریاست کے ذمے داروں نے کبھی سوچا ہے کہ آخر کب تک یہ ظلم برداشت کیا جاسکتاہے؟

جہاں تک مولاناعبدالحق رحمہ اللہ کے خاندان کاتعلق ہے، اﷲ کی رضا پر راضی اس خانوادے نے ایک بار پھر اپنی روایات کے مطابق اپنا مقدمہ اور ایف آئی آر منتقم اللہ کے دربار و عدالت میں جمع کردی ہے۔ اس اذیت ناک اور جذباتی موقع پر جس طرح مولانا انوار الحق دامت برکاتہم عالیہ سے لے کر شہید ابن شہید حامد الحق حقانی کے مجاہد بیٹوں، مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے چھوٹے بھائی نے کیا ہے وہ قابل رشک اور قابل تقلید ہے۔

جس طرح مولانا عبد الحقؒ سے مولانا سمیع الحق شہید اورمولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ سے مولانا حامد الحق حقانی شہید تک اس خانوادے، ان کے علمی گلشن اور قرآنی علوم کے مرکز دارلعلوم حقانیہ کے شیوخ، اساتذہ کرام، طلباء کرام ، جامعہ کے منتظمین اور ان کی جماعت نے اسلام اور پاکستان کا پرچم مضبوطی سے تھام کے رکھا ہے انشاء اﷲ ان کے بھائی، بیٹے، شاگرد اور کارکنان آیندہ بھی اسلام اور پاکستان کا پرچم تھامے رکھیں گے، مگرکیا ریاست ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان سفاک قاتلوں کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے،یا مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کے کیس کی طرح بھول جائیں گے؟

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے قائد مولانا فضل الرحمن جو اس وقت سعودی عرب کے سفر پر ہیں نے اس ظالمانہ اور سفاکانہ خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ’’دارلعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق حقانی پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے، ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے، جمعہ اور ماہ رمضان کی آمد کی حرمت کو پامال کیا، دہشت گردی اور بے امنی معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہے، امن و آمان کی ناگفتہ بہ صورتحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، کسی کی جان، مال، عزت اور آبرومحفوظ نہیں، خیبر پختونخوا میں بے امنی کے بارے میں عرصے سے رونا رو رہے ہیں لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔‘‘

ریاست کی بے حسی اور لاتعلقی کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے سینوں میں دل اور دل میں خوف خدا موجود ہے اگر ریاست شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید کے سفاک قاتلوں کو نشان عبرت بناکر دارلعلوم حقانیہ کے لان میں الٹا لٹکا دیتے تو آج مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ ریاست کو اب ہوش کے ناخن لے کر یہ ماننا پڑے گا کہ دارالعلوم حقانیہ اورمولانا حامد الحق پر حملہ پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر حملہ ہے، یہ جس نے کیا انھوں نے پاکستان کی بنیادوں میں بارودی سرنگ بچھانے کی کوشش کی ہے۔

 خیبر پختونخوا میں کافی عرصے سے حکومت صرف دھرنوں اور جلسوں کی سرکار بنی ہوئی ہے مگر مولانا حامد الحق حقانی رحمہ اﷲ کی شہادت صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اور داغ ہے۔ صوبائی حکومت عوام کی جان و مال، عزت آبرو کی حفاظت میں جس بری طرح ناکام ہوچکی ہے ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کی پوری تصویر چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران دکھا دی ہے۔ پاکستان کے متقدر حلقے مولانا کی اس تقریر کو سنجیدگی سے سنیں، اس میں دہشت گردی سے نمٹنے کا ٹھوس حل موجود ہے۔

اﷲ کریم مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ان کے تمام پسماندگان خصوصاً ان کے جواں سال جانشین مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے اہل خانہ کو اپنے حفظ و آمان میں اور ان کے خاندان سمیت ہم سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں