[ad_1]
22دسمبر کو ہر سال پاکستان میں ـورکنگ ویمن کا قومی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد رسمی اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق و تحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہے۔
2011ء میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 22 دسمبر کو سرکاری طور پر ’ورکنگ ویمن کا قومی دن‘ منانے کا اعلان کیا جس کے بعد سے اب تک ہر سال یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس روز سرکاری و غیر سرکاری اداروں، سول سوسائٹی سمیت خواتین کی جانب سے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں آگاہی پیدا کرکے، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سمیت خواتین کے بیشتر مسائل حل کیے جا سکیں۔
قومی دن کے موقع پر جہاں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں وہیں اس بات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ ورکنگ ویمن کی صورتحال کیا ہے، انہیں کیا مسائل درپیش ہیں اور ان کے حوالے سے کن مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس اہم دن کے موقع ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اشفاق بخاری (ایڈیشنل ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
22دسمبر ملکی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس روز نہ صرف ورکنگ ویمن کے قومی دن کا اعلان ہوا بلکہ ملک کی پہلی خاتون محتسب کی تعیناتی بھی ہوئی جو یقینا ایک بڑا قدم تھا۔ اس سے نہ صرف خواتین کو تحریک ملی بلکہ ہراسمنٹ و دیگر مسائل کی شکایت اور حصول انصاف کیلئے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔ خواتین کے مسائل کے حوالے سے میرا نقطہ نظر مختلف ہے۔ میں سوال کرتا ہوں کہ ہم خواتین کے مسائل کو جینڈر لینز کے ساتھ ہی کیوں دیکھتے ہیں؟
اگر ہمیں مسائل کی وجہ سمجھ آجاتی تو خواتین کیلئے خصوصی قوانین اور کوٹہ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ میرے نزدیک مسائل تو تب ہی پیدا ہوگئے تھے جب خواتین کو تعلیم، روزگار سمیت ہر چیز میں پیچھے رکھا گیا۔ اس وقت توازن خراب ہوگیا اور اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل گھمبیر ہوتے گئے جن کے حل کیلئے ریاست کو خصوصی اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست نے خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اہم قانون سازی کی ہے۔
ادارے بنائے گئے اور ایسے اقدامات کیے گئے جن سے خواتین کے مسائل میں کمی ہوئی۔ یہ اقدامات آج بھی جاری ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ انہیں رہائش کا مسئلہ بھی درپیش ہے جسے حل کرنے کیلئے حکومت نے ورکنگ ویمن ہاسٹلز قائم کیے۔ اس وقت پنجاب میں 16 ورکنگ ویمن ہاسٹلز موجود ہیں جن میں700 خواتین رہتی ہیں۔ ان میں سے 4 ہاسٹلز لاہورجبکہ دیگر اضلاع میں 2، 2 ہاسٹلز موجود ہیں۔
ان ہاسٹلز میں میٹرس، بیڈ، کرسیاں، لانڈری، کچن سمیت تمام سہولیات میسر ہیں اور کرایہ بھی 500 سے 1000 روپے ماہانہ ہے۔ اس سے بڑی اور سستی سہولت ورکنگ ویمن کیلئے کیا ہوگی۔ اب پرائیویٹ ہاسٹلز کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے جس کے بعد خواتین کیلئے مزید آسانیاں پیدا ہوںگی۔ ایسی ورکنگ ویمن جن کے چھوٹے بچے ہیں ان کی سہولت کیلئے ڈے کیئر سینٹرز موجود ہیں جہاں بچوں کی کیئر کے حوالے سے تمام سہولیات میسر ہیں۔
پنجاب میں 411 ڈے کیئر سینٹرز بنائے گئے جب میں سے 310 آپریشنل ہیں، ان میں 17 ہزار بچے رہتے ہیں۔ لاہور میں 93 ڈے کیئر سینٹرز موجود ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بھی ضرورت کے حساب سے قائم کیے گئے ہیں۔ پرانے 36اضلاع میں سے کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں ڈے کیئر سینٹر موجود نہ ہو، اب نئے اضلاع میں بھی اس حوالے سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈے کیئر سینٹرز کیلئے حکومت پیسہ فراہم کر رہی ہے۔ 3 سے 6 بچوں والے ڈے کیئر سینٹر کیلئے 8 لاکھ، 7 سے 12 بچوں والے ڈے کیئر سینٹر کیلئے 13 لاکھ جبکہ 20 سے 30 بچوں والے ڈے کیئر سینٹر کیلئے 22 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ حکومت اب تک ایک خطیر رقم کر خرچ کر چکی ہے۔ ہم صوبے میں مزید ڈے کیئر سینٹرز کی منظوری دینے جا رہے ہیں جس کے بعد ملازمت پیشہ خواتین کیلئے بڑی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
ہراسمنٹ کی بات کریں تو قانون سازی کے بعد سے اب ہر ادارے میں ہراسمنٹ کمیٹی لازمی ہے۔ ہراسمنٹ ثابت ہونے پر جرمانہ اور سزا موجود ہے، ملازمت سے برخاست بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین کے مسائل کے حوالے سے قوانین موجود ہیںمگر میرے نزدیک سب سے اہم معاشرتی سوچ ہے۔
لوگوں کی ذہن سازی، تربیت اور سوچ بدلنے کیلئے خاندان، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی کا کرداراہم ہے۔ ہمیں گھر سے ہی تربیت پر کام کرنا ہے۔ اگر گھر سے بچوں کو ایک دوسرے کا احترام اور دیگر اقدار سکھائی جائیں گی تو یقینا معاشرے میں بہتری آئے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر رعنا ملک (چیئرپرسن جینڈ سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ ،جامعہ پنجاب )
ہراسمنٹ ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے بہت سارے دیگر مسائل جڑے ہیں۔ یہ خواتین کی ترقی میں ایک رکاوٹ بھی ہے جسے دور کرنا ہوگا۔ ورکنگ ویمن کو ہراسمنٹ سمیت بیشتر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیہی و شہری خواتین، دونوں کو ہی ہراسمنٹ کا سامنا ہے ۔ دیہی خواتین بھی ورکنگ ویمن ہیں جو 65 فیصد کے قریب ہیں مگر ان کا بدترین استحصال ہوتا ہے، انہیں ورکر تسلیم نہیں کیا جاتا لہٰذا انہیں بھی ورکنگ ویمن کے طور پر عزت دینا ہوگی۔
لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں 19 فیصد خواتین روزگار کما رہی ہیں جبکہ باقی 81 فیصد خواتین کے کام کو تسلیم نہیں کیا جاتا جو افسوسناک ہے، ہمیں تمام خواتین کے کردار کو تسلیم کرنا اور انہیں عزت و وقار دینا ہوگا۔ جو خواتین گھر پر کام کرتی ہیں، اگر یہی کام وہ باہر کریں تو انہیں معاوضہ ملے گا ، ہمیں ان کے کام کو سمجھتے ہوئے عزت دینا ہوگی۔ میرے نزدیک ہمیں گھرسے ہی صنفی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے لڑکے، لڑکیوں کی تربیت کرنا ہوگی۔
اگر گھر میں صنفی برابری ہوگی تو اس کا مثبت اثر معاشرے پر پڑے گا۔ افسوس ہے کہ ہم نے ہراسمنٹ کو نارملائز کر دیا ہے، لڑکی کو گھورنا، اس کا پیچھا کرنا، ہراسمنٹ نہیں سمجھنا جاتا۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے ہمیں لڑکوں کی تربیت کرنا ہوگی ۔اس حوالے سے ہم یونیورسٹی میں لڑکوں کی تربیت کیلئے خصوصی سیشنز منعقد کرواتے ہیں جن کا خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ ہمیں انہیں ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھانا ہوگا تاکہ ایک بہترین معاشرے کی جانب بڑھا جا سکے۔
خواتین کے حوالے سے بنگلہ دیش ہمارے سے بہتر ہے، ہمیں اپنی عورت کو عزت دینی ہے، اسے بااختیار بنا کر قومی دھارے میں لانا ہے۔ ہمیں خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے چاہے وہ کھیت میں ہی کیوںنہ کام کرتی ہو۔ہمیں ہر میدان میں آگے بڑھنے کیلئے خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی ہے، ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے ہے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین کی شمولیت کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا،ا گر خواتین کو پیچھے رکھا گیا تو ملک کے مسائل کبھی ختم نہیں ہونگے۔
بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی)
خواتین کے حقوق و تحفظ اور انہیں بااختیار بنانے کے حوالے سے جس نے بھی جدوجہد کی، ہم اس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ آج ملک میں خواتین کو جو حقوق حاصل ہیں یہ اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ 90ء کی دہائی میں یہاں قومی و بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت خواتین کیلئے یہ ایک مشکل شعبہ سمجھا جاتا تھا اور ان اداروں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے مسائل بھی تھے۔
ڈاکٹر فوزیہ سعید جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں اور خواتین کیلئے مشعل راہ ہیں، وہ اس وقت ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ انہیں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ 2، 3 برس تو انہوں نے مشکل برداشت کی مگر جب اپنے ساتھ کام کرنے والی دیگر خواتین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ وہاں 11 خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ طے کیا کہ اب اس ظلم پر خاموش نہیں رہنا بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔
اس کے بعد 22 دسمبر 1997ء کو کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے پاکستان سے اقوام متحدہ میں پہلی شکایت کی گئی اور یہ کام ڈاکٹر فوزیہ سعید سمیت ہراساں ہونے والی 11 خواتین نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا۔ یہ درخواست جب اقوام متحدہ میں گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس بھی اس حوالے سے قانون ، پالیسی اور میکنزم موجود نہیں تھا۔ پھر اس پر کام کا آغاز ہوا اور بعدازاں ہراسمنٹ کے معاملے کوایک مہم کے طور پر چلایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 22 دسمبر کو ورکنگ وویمن کا قومی دن قرار دیا جو خواتین کے لیے حوصلہ افزاء ہے۔یہ دن تمام خواتین کے لیے آگے بڑھنے کا ایک راستہ ہے، اس سے یقیناان کیلئے آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ سماجی تنظیمیں تو یہ دن بڑے اہتمام سے مناتی ہیں اور اس پر کام بھی کر رہی ہیں لیکن سرکاری سطح پر ہمیں کمی نظر آتی ہے لہٰذا حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کریں تاکہ معاشرے میں آگاہی دی جائے اور خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے بچایا جاسکے۔
اس کے علاوہ نجی اداروں کو بھی چاہیے کہ اس دن کے موقع پر اپنے اپنے ادارے میں سرگرمیاں رکھیں، چاہے وہ چند ورکرز کی میٹنگ ہی کیوں نہ ہو، اس روز خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی کے حوالے سے قوانین کی آگاہی دی جائے اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کی جائے۔ پاکستان میں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا ہے، خاص طور پر وہ خواتین جو دیہات ، کھیتوں میں کام کرتی ہیں، انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ہمارے ہاں مرد اور بچے بھی جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہوتے ہیں، اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ ہمیں تمام افراد خصوصاََ خواتین کو ہراسانی سے پاک ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا کر سکیں۔ میرے نزدیک پاکستان کی ہر عورت ورکنگ وویمن ہے۔
بدقسمتی سے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ بھی دن رات کام کرتی ہیں۔ انہیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کا استحصال ہوتا ہے جسے روکنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ہمیں گھریلو خواتین کے کام کو بھی تسلیم کرنا ہوگا اور انہیں باعزت مقام دینا ہوگا۔
جو خواتین ملازمت پیشہ ہیں، انہیںکام کی اجرت اور ٹرانسپورٹ سمیت بیشتر مسائل درپیش ہیں جن کے حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔ خواتین ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لہٰذا ہمیں ملکی معیشت میں ان کے کردار کا اعتراف کرنا ہوگا۔ مختلف علاقوں سے خواتین کام کرنے کیلئے تیار ہیں مگر انہیں رہائش کا مسئلہ ہے لہٰذا حکومت کو ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر توجہ دینا ہوگی۔
خواتین کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد، قانون سازی اور اقدامات کے باعث خواتین کی صورتحال ماضی کی نسبت بہتر ہے۔ بہت ساری پرانی روایات کا خاتمہ بھی ہوا ہے۔ اب خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں، اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں بھی موجود ہیں جو حوصلہ افزاء ہے ۔ پاکستانی خواتین کسی سے کم نہیں ہیں، اگر انہیں درپیش مسائل کاخاتمہ کر دیا جائے تو ہماری خواتین بہتر انداز میں ملکی تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
[ad_2]
Source link