2

اِک شخصِ بے مثال – ایکسپریس اردو

اٹھارویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں صنعتی دورکا آغاز ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے اس طرز معیشت کو یکسر تبدیل کردیا جس کی بنیاد انسان اور جانورکی مشقت پر قائم تھی۔

صنعتی انقلاب کے بعد مشین اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں پورا سماجی نظام تبدیل ہوگیا۔ صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں مشینی پیداوار کے باعث شدید بیروزگاری پیدا ہوئی، نئے طبقات وجود میں آگئے جنھوں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے بد ترین انسانی استحصال کیا، بعد ازاں نو آبادیاتی نظام کے ذریعے چند مغربی ملکوں نے تین چوتھائی دنیا پر قبضہ کر لیا۔

صنعتی دور میں جن سائنس دانوں اور مفکرین کو غیر معمولی شہرت ملی، ان میں جرمنی کے فلسفی کارل مارکس کا نام بہت نمایاں ہے۔ مارکس کو کئی علوم پر دسترس تھی وہ فلسفی، سماجی سائنسدان، صحافی، شاعر اور معیشت دان تھا۔ مارکس کی شخصیت ہمہ جہت تھی، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف وہ کھلے ذہن کے لوگ بھی تھے جو اس کے فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر اب ضرب المثل بن چکا ہے:

وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب

مارکس 5 مئی 1818 میں پیدا ہوا۔ 38 سال کی عمر میں ا س نے اپنے دوست اینگلز کے ساتھ مل کر کمیونسٹ مینی فیسٹو تحریر کیا، بعد ازاں اس کی تحقیقی کتاب ’’ داس کیپٹل‘‘ نے دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی پچاس کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مارکس کی کتابوں کو ورلڈ ہیریٹیج ڈاکومنٹس میں شامل کیا ہے۔ اپنے افکارکی وجہ سے مارکس کا اپنے وطن جرمنی میں رہنا ممکن نہ ہوسکا اور اس نے اپنی زندگی فرانس، بیلجیم اور برطانیہ میں ایک جلاوطن کے طور پرگزاری۔ مشکل ترین مالی مشکلات کے باوجود اس نے تحقیقی اور تخلیقی کام جاری رکھا۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے اپنے دوست اینگلزکو ایک خط میں لکھا ’’اتنی مشکل اور عذابناک زندگی میں جینا ممکن نہیں۔‘‘

مغرب کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں ہماری طرح زیادہ کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کارل مارکس کو اس کی کتاب’’ داس کیپٹل‘‘ پر 2016میں بعد از مرگ معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یہ انعام 1968 میں تخلیق کیا گیا تھا ۔ نوبل انعام کمیٹی کے ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ یہ انعام ان اسکالرزکو دیا جاتا رہا ہے جو نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر نئے پہلو تلاش کرتے ہیں۔

کمیٹی نے پہلی مرتبہ ایک ایسے معاشی محقق کو نوبل انعام دیا جو نظام میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانے کے حوالے سے تحقیق کررہا تھا۔ مارکس کی ہمہ جہت زندگی کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ اس کے ماں اور باپ دونوں کے خاندان صدیوں پرانی مذہبی روایات رکھتے تھے اور ان میں پشت در پشت ربّی گزرے تھے لیکن کارل کے باپ کو ٹرائر کے سماج میں بیروزگاری کے عفریت سے بچنے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا پڑا، اس کے باوجود اپنے قدیم یہودی پس منظرکی وجہ سے مارکس خاندان ٹرائر کے سماج میں سماجی اعتبار سے بے اعتنائی اور بیگانگی کا شکار رہا۔

کارل بورن یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس نے قانون اور فلسفے کا انتخاب کیا لیکن اس کے اندر ایک ایسا نوجوان سانس لیتا تھا جو یونان اور روما کی قدیم تاریخ اور ہومر کے رزمیوں کا عاشق تھا۔ ارسطو، افلاطون، دیو جانس کلبی، ایپی کیوریس، پلوٹارک، سنیکا اور سسرو کو وہ پندرہ سولہ برس کی عمر میں پڑھ چکا تھا۔ شیکسپیئر، اسکائی لس اورگوئٹے اس کے محبوب شاعر تھے۔ اسپارٹکس اور کپلر اس کے ہیروتھے۔ اسکائی لس کی شاعری کا دلدادہ ہونے کی بنا پر وہ پرومی تھیس ایسے بے مثال باغی کردار کے بارے میں اسکائی لس کے شاندارکلام کو اپنے وجود میں جذب کرچکا تھا۔

اس کو جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ شاعری اس کے اضطراب کا اظہار تو تھی لیکن درحقیقت وہ اس میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ شاعری ترک کر کے فلسفے سے اپنی دائمی رفاقت کا فیصلہ کارل مارکس نے یقینا کشف کی کسی ایسی گھڑی میں کیا تھا جس نے اسے تاریخ کی ایک نادر روزگار شخصیت بنادیا۔ اس نے آنے والی انسانی نسلوں کی تقدیر کا دھارا موڑ دیا۔ وہ عظیم جرمن شاعروں اور یونان و روما کے کلاسیکی شعراء کے کلام کا والہ وشیدا تھا، اس کی خود نگری نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اگر وہ ان جیسی یا ان سے بہتر شاعری نہیں کرسکتا تو اسے کسی اور میدان میں اپنا جوہر آزمانے کی ضرورت ہے۔

مارکس کا کہنا تھا کہ افراد کی ذہانت اور ان کی دانشورانہ گہرائی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عظیم ادب کا کتنا فہم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ شیلے اور بائرن کا موازنہ کرتے ہوئے وہ شیلے کو ایک مکمل انقلابی ٹھہراتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر وہ30   برس کی عمر میں ختم نہ ہوگیا ہوتا تو سوشلسٹ تحریک کا رہنما اور مشعل بردار ہوتا جب کہ بائرن کے بار ے میں ا س نے یہ رائے دی کہ36   برس میں دنیا سے اگرکوچ نہ کر جاتا تو ایک رجعت پسند بورژوا کے طور پر سامنے آتا۔

شیکسپیئر کے مشہور کردار شائیلاک کا ذکر اس کی تحریروں میں کئی بار آیا ہے۔ ہائنے کی شاعری اسے ازبر تھی، گوئٹے کی ’’فائوسٹ‘‘ اور ’’دیوان مشرق و مغرب‘‘ کے حوالے سے اس کے خطوط ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہائنے کی اس سطر کو دہراتا ہے کہ ’’ میں نے اژدھے کاشت کیے تھے لیکن پسوئوں کی فصل کاٹی‘‘ کسی خط میں وہ ایک ہی سانس میں وشوامتر، ولیم تھیکرے اور چاسرکی ’’کینٹربری ٹیلز‘‘ کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے۔ پال لافارج کو بہ یک وقت فرانسیسی اور انگریزی میں خط لکھتا ہے تو ہائنے اور وکٹر ہیوگوکے اشعار اور جملے اس خط میں دریا کی موجوں کی طرح لہریں لیتے ہیں۔

مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے مکالمے مجھے ازبر تھے ۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومرکا سارا کلام سنایا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائی تھیں جن میں سروانٹس کی ڈون کہوٹے اور الف لیلہ سر فہرست ہیں۔

مارکس کی اس داستان گوئی کی تصدیق پال لافارج نے بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ جب اس کی بیٹیاں چہل قدمی کے قابل ہوئیں تو وہ انھیں ساتھ لے کر میلوں نکل جاتا اور انھیں پریوں، جادوگروں اور جل پریوں کی نو تصنیف کہانیاں برجستہ سناتا جاتا۔

ایلیزکی طرح لافارج کو بھی اس کا ملال رہا کہ یہ کہانیاں کاغذ پر محفوظ نہ ہوسکیں ورنہ وہ مارکس کے ادبی وفور اور ذہن کی خلاقی کے ایک دوسرے پہلو کو اجاگرکرتیں۔ وہ معیشت کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے ادب پاروں کو جس طرح دلیل کے طور پر ٹانکتاچلا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس کی تحریرکے اس ٹکڑے سے کیا جاسکتا ہے جس میں روپے کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔

’’ روپے کے ذریعے مجھے کیا حاصل ہے، روپے سے جو کچھ مجھے حاصل ہے میں بس وہی ہوں۔ میری طاقت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی روپے کی جس کے پاس روپیا ہے اس کی صفات اور صلاحیتیں وہی ہیں جو روپے کی ( جو اس کی تحویل میں ہے) چنانچہ میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ کرسکتا ہوں وہ میری انفرادیت سے متعین نہیں ہوتیں۔ ( اس کا مطلب یہ ہوا کہ ) میں بد صورت نہیں ہوں، کیونکہ بد صورتی کراہیت میں مبتلا کرنے والی قوت ہے، جسے روپیا ختم کردیتا ہے۔ میں اپنی انفرادی فطرت کے اعتبار سے لنگڑا ہوں لیکن روپیا مجھے 24   ٹانگیں فراہم کردیتا ہے‘ چنانچہ میں لنگڑا نہیں ہوں۔

میں ایک بد طنیت، بے ایمان، دھوکے باز اورکند ذہن انسان ہوں لیکن روپے کی تکریم کی جاتی ہے چنانچہ جس کے پاس روپیا ہے وہ بھی واجب التعظیم ٹھہرتا ہے۔ روپیا اعلیٰ ترین نیکی ہے چنانچہ اس کا مالک بھی نیک ٹھہرتا ہے ۔ میں کوڑھ مغز ہوں لیکن چونکہ روپیا تمام اشیا کی اصل روح ہے تو پھر بتائیے کہ اس کا مالک کیوں کر ذہانت میں کم ہوسکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ روپے کا مالک ذہین ترین لوگوں کو خرید سکتا ہے اور اگر ذہین ترین لوگ کسی شخص کے قبضہ قدرت میں ہیں تو کیا وہ ان سے زیادہ ذہین نہیں ہے؟ روپے کی اتنی شاعرانہ اور تخلیقی تشریح کرنا کسی عام ادیب کے بس کی بات ہے؟

اس امر سے انکار دشوار ہے کہ جدید دورکے جن فلسفیوں کے افکار نے دنیا میں سوچ اور غور و فکر کے دھارے تبدیل کیے ہیں، ان میں مارکس کا نام بہت نمایاں ہے۔ کالم کا آغاز اقبال کے جس شعر سے کیا گیا ہے، وہ اس امرکی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں