1

سیاستدانوں کا امتحان – ایکسپریس اردو

عدم استحکام پاکستان کا دیرینہ اور سنگین مسئلہ رہا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے 2009 تک کے عرصے میں 23 حکومتیں تبدیل ہوئیں جب کہ تبدیل ہونے والے وزرائے اعظم کی تعداد 29 ہے۔ اس تعداد میں اگر باقی کے عرصے کو شامل کرلیا جائے تو تمام تبدیلیوں کی تعداد خاصی بڑی ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ بھارت کے وزیر اعظم نے طنزیہ کہا تھا کہ میں جتنی دھوتیاں بدلتا ہوں اس سے زیادہ وزیراعظم پاکستان میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں جہاں جمہوری حکومتیں آئی وہاں غیر جمہوری حکومتوں نے بھی ایک طویل عرصہ تک راج کیا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد وطن عزیز سیاسی کشمکش کا اکھاڑہ بن گیا اور اقتدار پرکسی نہ کسی طرح قبضہ حاصل کرنا سیاسی رہنماؤں کا معمول بن گیا۔

بس جس کا زور چلا اس نے موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔حکومتوں کی تبدیلی کا ایک ایسا دور چلا کہ ملک میںسیاسی استحکام ختم ہوتا نظر آنے لگا۔سیاسی رسہ کشی کا ایک پریشان کن دور شروع ہو گیا۔ایوان اقتدار سازشوں کے گڑھ بن گئے۔وہ لوگ جنھوں نے یہ سوچ کر پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دی تھیں کہ ایک ایسا وطن وجود میں آئے گا جو حقیقی معنوں میں اسلام کا گہوارہ ہو گا ، جہاؒں ہر طرف امن اور بھائی چارہ ہو گا،جہاں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی،حکمران اسلام اور عوام کے خادم ہوں گے،ہر طرف انصاف کی بالا دستی ہو گی مگر جب ان کے خواب تشنہ رہ گئے،انھوں نے اہل اقتدار کو اپنے مفادات کے لیے ہر گھناؤنا کھیل کھیلتے دیکھا تو ان میں مایوسی پیدا ہونے لگی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ملک سے مخلص تھے لیکن جنھیں سازشیوں نے ٹکنے نہیں دیا، اگرچہ بابائے قوم محمد علی جناح نے واضح ہدایت دی تھی کہ وطن عزیز میں بالادستی عوام کی ہونا چاہیے لیکن افسوس بعض طالع آزماؤں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اس سے بڑی زیادتی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اقتدار کے بھوکوں نے بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا۔ بہرحال حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔

قیام پاکستان کے وقت حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بے سر و سامانی کا عالم یہ تھا کہ سرکاری دفاتر میں کاغذات کو نتھی کرنے کے لیے پیپر پن بھی دستیاب نہیں تھے اور اس کے لیے کانٹوں سے کام لیا جاتا تھا۔ خزانہ خالی تھا اور سرکاری ملازمین کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے بھی رقم میسر نہیں تھی۔

بھارت کی حکومت نے پاکستان کے حصے کی رقم دبائی ہوئی تھی۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ تحریک پاکستان کے سرکردہ اور سرگرم کارکن راجہ صاحب محمود آباد نے اس مشکل کے وقت پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے بلینک چیک دے دیا تھا۔ اِس کے علاوہ حیدرآباد دکن کے فرما نروا نظام آف حیدرآباد نے بھی اپنی بساط بھر مدد کی تھی۔

صورت حال اس قدر خراب تھی کہ نوزائیدہ ریاست کا قائم رہنا محال تھا۔ حالات کی اس سنگینی کو دیکھتے ہوئے سندھ سے ترک وطن کرکے بھارت جانے والے مسلمانوں سے شدید نفرت کرنے والے ہندو توا کے زہر سے بھرے کالے ناگ ایل کے ایڈوانی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ( خدا نخواستہ) پاکستان چند ماہ کے مختصر عرصے کے بعد قائم نہیں رہ سکتا۔

پاکستان میں اس وقت کل ملا کر 14 صنعتی ادارے تھے جن میں ماچس بنانے والی فیکٹری بھی شامل تھی۔ رسل و رسائل کا نظام درہم برہم تھا اور بینکوں اور مالیاتی اداروں کو چلانے کے لیے نہ تو مطلوبہ سرمایہ اور نہ ہی عملہ موجود تھا لیکن پاکستان کے مخلص اور اہل لوگوں نے اپنی بے لوث خدمت کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے کایا پلٹ دی۔ملک کے باہمت صنعتکاروں اور سرکاری و غیر سرکاری ماہروں اور دستکاروں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی شب و روز کی ہمت سے ملک کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پاکستان ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے جس مقام پر پہنچا یہ اسی کا ثمر ہے۔آج پاکستان ایک ایٹمی ملک بن چکا ہے،یہاں بھی بڑے کارخانے قائم ہوئے،ڈیم بنے ،ملک کی سلامتی اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔دشمن کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھائی اور اس نے اس ملک کے دوٹکڑے کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی،اپنوں کی غداری نے دشمن کا حوصلہ بڑھایا  ؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

افسوس صد افسوس کہ مفاد پرستوں کی بازیگری نے ملک کو اِس نہج تک پہنچا دیا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اقتدار کے بھوکے حکمرانوں کی ہوس ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ملک اب دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور اس کے بچے بچے کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور معاشی دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔یہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ملک اب دیوالیہ نہیں ہو گا اور یہ ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ایک عرصے سے قوم کو ایسے ہی خواب دکھائے جا رہے ہیں اور قوم بھی خواب دیکھنے کی عادی ہو چکی ہے۔

ملکی ترقی ایسے خوابوں اور دعوؤں میں نظر آتی ہے،حقیقت اس کے برعکس ہے۔معاشی بیماری کے علاج کے لیے نت نئے نسخہ آزمائے جا رہے ہیں اور معاشی طبیب مرض سے نجات پانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ کلیدی اداروں کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟

الیکشن سے پہلے ہر کوئی مطمئن تھا کہ حالات کی گتھی سلجھ جائے گی اور ملک عافیت کی راہ پرگامزن ہوجائے گا مگر وائے ناکامی ایسا نہیں ہوسکا اور اب پوری قوم کو شدید تشویش لاحق ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنی رائے کا اظہارکر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ وطن کی محبت کا عملی ثبوت پیش کریں۔ملکی ترقی کے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں