1

مغربی کنارے میں بستے فلسطینی بھی نشانے پر!

یہ 8 فروری کی بات ہے، کئی مسلح اسرائیلی آباد کاروں نے ان فلسطینی چرواہوں پر حملہ کردیا جو مقبوضہ مغربی کنارے(ویسٹ بینک) میں واقع الخلیل شہر (ہیبرون )کے قریب سادیت الثلہ محلے میں اپنے ریوڑ چرا رہے تھے۔

انہوں نے فلسطینیوں کو چراگاہ سے نکال دیا اور ان کے مویشیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا۔ نتیجے کے طور پر چرواہوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے خوف زدہ جانوروں میں سے اکثر کو اسقاط حمل ہو گیا اور مردہ بچے پیدا ہوئے۔

گھناؤنی جنگ

یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں۔درحقیقت یہ اس گھناؤنی جنگ کا حصہ ہے جسے انسانی حقوق کے رہنما اہل فلسطین کے خلاف جاری “اسرائیلی آباد کاروں کی معاشی جنگ” کے طور پر بیان کرتے ہیں۔اس جنگ کے باعث خاص طور پہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بسے فلسطینی مسلمان نقل مکانی اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

سادات الثلہ میں جو کچھ ہوا وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں کے ’’ 561 واقعات ‘‘میں سے ایک ہے جنھیں اقوام متحدہ کے ادارے ، یو این آفس فار دی کوآڈینیشن آف ہیومن افئیرز (UN Office for the Coordination of Humanitarian Affairs) نے 7 اکتوبر 2023ء سے 20 فروری 2024ء کے درمیان ریکارڈ کیا۔ اس ڈیٹا بیس کے مطابق اسرائیلی آباد کار اب تک اپنے حملوں سے مقبوضہ مغربی کنارے میں کم از کم آٹھ فلسطینی شہید کر چکے اور 111 زخمی ہوئے ۔

اعدادوشمار کی رو سے پچھلے پانچ ماہ کے دوران اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے تشدد کی بار بار لہریں، جنہیں اسرائیلی فوج کی کھلی حمایت حاصل ہے، 198 گھرانوں میں 586 بچوں سمیت 1,208 فلسطینیوں کی نقل مکانی کا باعث بن چکیں۔گویا غزہ میں بستے فلسطینی مسلمان اگر ریاست اسرائیل کے براہ راست ظالمانہ حملوں کی زد میں ہیں تو اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کا بھی جینا حرام کررکھا ہے۔

 یہودی بستیاں

مقبوضہ مغربی کنارے کا رقبہ 5,655 مربع کلومیٹر ہے۔اس علاقے کو مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست میں شامل ہونا ہے۔علاقے میں تقریباً اٹھائیس لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔مگر اسرائیلی آباد کار اس علاقے میں رفتہ رفتہ اپنی یہودی بستیاں بسا کر علاقے پہ قابض ہو رہے ہیں اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی قوتیں ان یہودی بستیوں کی مذمت تو کرتی ہیں مگر ان کی تعمیر روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعداد 279 ہو چکی۔ان میں سات لاکھ سے زائد اسرائیلی آباد ہیں۔ان میں وہ اسرائیلی بھی شامل ہیں جو مشرقی بیت المقدس میں بھی اپنی بستیاں بنا کر علاقے پہ قبضہ کر رہے ہیں۔یاد رہے، اہل فلسطین مشرقی بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ظالم وجابر اسرائیلی حکمران طبقے کو کسی طور یہ گوارا نہیں۔ یہی وجہ ہے، وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑے منظم اور شاطرانہ طریقے سے یہودی بستیاں بسا کر رفتہ رفتہ اس علاقے کو ہڑپ کر رہا ہے۔

مودی کو راہ دکھا دی

ماہرین کہتے ہیں، اسرائیل نے بھارتی انتہا پسند حکمران، نریندر مودی کو بھی صلاح دی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندو بستیاںتعمیر کرنے کا منصوبہ بنائے ۔اس طرح مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی آبادی کم سے کم کر کے انھیں اقلیت میں بدلا جا سکتا ہے۔اس طرح کبھی رائے شماری ہوئی بھی تو مقبوضہ کشمیر بھارت سے الگ نہیں ہو سکے گا۔

اسرائیلی حکمران طبقہ اسی منصوبے پہ عمل کر کے مقبوضہ مغربی کنارے پہ قابض ہونا چاہتا ہے۔اور اس کا منصوبہ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں کی مکمل حمایت و آشیرباد سے جاری ہے۔ یہ قوتیں بظاہر یہودی بستیاں تعمیر کرنے پہ اسرائیل کی مذمت کرتی ہیں، مگر اندرون خانہ انھوں نے یہ بستیاں تعمیر کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

حملوں کا نیا سلسلہ

غزہ پہ اسرائیل کے حالیہ وحشیانہ و انسانیت سوز حملے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد اسرائیلی آبادکار بھی بڑھ چڑھ کر فلسطینی پڑوسیوں پہ حملے کرنے لگے۔یہ آباد کار ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہیں۔یہی نہیں انھیں اسرائیلی سیکورٹی فورسز اور حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔یہ جتھوں کی صورت اہل فلسطین پہ حملہ آور ہوتے اور انھیں ہر ممکن طریقے سے ہراساں و خوفزدہ کرتے ہیں تاکہ وہ خاص طور پہ اپنی زمینوں سے دستبردار ہو جائیں۔

اسرائیلی سرکاری پالیسی

اسرائیلی آباد کاروں کو ہر ممکن مدد دینا اور انھیں اہل فلسطین پہ حملے کے لیے اکسانا اسرائیلی ریاست کی سرکاری پالیسی کا مرکزی حصّہ ہے۔اسی سرکاری پالیسی کے ذریعے اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں اہل فلسطین کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ اس پر مکمل خودمختاری قائم کی جا سکے اور بستیوں کی توسیع کو ممکن بنایا جا ئے۔

اسرائیل نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے پہ قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے اس علاقے کو ’’یہودا وسامرہ ‘‘کا نام دے رکھا ہے۔کٹر یہود کا دعوی ہے کہ ماضی میں یہ علاقہ یہودی ریاست کا حصہ تھا۔اسی لیے وہ یہود کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ یہاں اپنی بستیاں تعمیر کر لیں۔چونکہ اس علاقے کے’’ 82 فیصد‘‘حصے پر اسرائیل قابض ہے لہذا نئی بستیاں بنانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں آتی۔

اصول وقانون کی پروا نہیں

سچ یہ ہے کہ جیسے جیسے امریکی حکمران طبقہ اسرائیل کی مکمل و ننگی حمایت کر رہا ہے، ویسے ویسے اسرائیلی حکومت کے حوصلے بھی بڑھے ہیں۔اب وہ اخلاقیات اور اصول وقانون کی پروا کیے بغیر مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔جب عالمی معاملات میں طاقت سکہ بن جائے تو سب سے پہلے کمزور وناتواں انسانوں کے حقوق ہی پامال ہوتے ہیں۔یہ حقیقت مغربی کنارے میں بڑی شدت و خوفناکی سے نمایاں ہے۔

یہود کو ملتی مراعات

مغربی کنارے میں بنی یہودی بستیوں میں سے ایک سو باقاعدہ ہیں۔وہاں بستے اسرائیلیوں کو زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ دیگر بستیاں کھیتوں یا چوکیوں کی صورت قائم ہیں۔مگر اسرائیلی حکومت رفتہ رفتہ انھیں وسعت دے رہی ہے۔

یورپ ، افریقا، جنوبی امریکا اور ایشیا سے جو یہودی نقل مکانی کر کے اسرائیل آئیں تو اسرائیلی حکومت کوشش کرتی ہے کہ انھیں مغربی کنارے میں واقع کسی بستی میں بسا دیا جائے۔اس سلسلے میں نئے آبادکاروں کو بہت سی مراعات اور سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔مدعا یہی ہے کہ یہود کو ابھارا جائے ، وہ ان بستیوں میں بس جائیں۔غریب و متوسط طبقے کے یہودی اپنی حکومت کی پیشکش قبول کر کے ان بستیوں میں آباد ہو جاتے ہیں۔

منفی ذہنیت

مغربی کنارے میں آباد ہوئے بیشتر یہودی ایسے ماحول سے آئے ہیں جو مذہبی طور پہ شدت پسند رہا ہے۔ان کی تعلیم بھی مذہبی امور تک محدود ہوتی ہے۔اسی لیے ان کا زاویہ نظر بھی محدود ہوتا ہے۔وہ اتنی وسعت قلبی نہیں رکھتے کہ مسلمان فلسطینیوں کو پڑوسی کی حیثیت سے تسلیم کر لیں اور ان کے حقوق ادا کریں۔تنگ ذہنیت کے سبب بیشتر اسرائیلی آباد کار اہل فلسطین سے نفرت کرتے اور انھیں نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔

اہل فلسطین وکشمیر کے مجرم

یہ عالم اسلام کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ان کو پہلے برطانیہ اور پھر امریکا کے مسلم دشمن حکمران ٹکر گئے۔ان دونوں مغربی ممالک کے حکمرانوں کی سازشوں اور چالوں کا نتیجہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان بھارتی حکمران طبقے کے ماتحت بننے پہ مجبور ہو گئے۔جبکہ فلسطین میں بستے مسلمانوں پہ اسرائیلی حکمران مسلط کر دئیے گئے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ جموں و کشمیر اور فلسطین، دونوں علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔مگر سازشوں کے ذریعے ان علاقوں کے حکمران غیرمسلم بنا دئیے گئے۔ اب ان دونوں متنازع علاقوں کی وجہ سے نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں جنگوں اور بے چینی کا دور دورہ ہے۔مگر برطانیہ اور امریکا یہ جنگیں ختم کرنے کی سعی نہیں کرتے کیونکہ اس سے انھیں مالی مفادات ملتے ہیں۔ یہ دونوں مغربی ملک متحارب قوتوں کو اپنا اسلحہ بیچ کر خوب کمائی کرتے ہیں۔گویا انسانی حقوق اور جمہوریت کے یہ نام نہاد چیمپین دراصل انسانی لہو بہا کر صدیوں سے اپنے آرام وآسائشوں کا بندوبست کررہے ہیں۔یہ ہے ان مغربی طاقتوں کا اصل مکروہ چہرہ !

سبھی غیرقانونی
مغربی کنارے میں جتنی بھی یہودی بستیاں اور اسرائیل کی دیگر تعمیرات بنی ہیں، وہ سب بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔ کیونکہ وہ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جس کی اسرائیل نے توثیق کر رکھی ہے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4)کی رو سے اگر کوئی ملک کسی علاقے پہ بزور قبضہ کرتا ہے تو وہ وہاں اپنی تعمیرات نہیں کر سکتا۔ ایسی تعمیرات غیر قانونی ہوں گی کیونکہ ان کے ذریعے مقبوضہ علاقے پہ مستقل قبضہ کرنا تصور کیا جائے گا۔

اس معاملے پر بین الاقوامی قانون واضح ہے۔ 2016 ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد نے اسی قانون کی حمایت کی تھی اور جسے امریکہ نے ویٹو نہیں کیا تھا۔اس کے باوجود اسرائیل نے مغربی کنارے میں 279 بستیوں کی ترقی کے لیے موزوں سیاسی حالات پیدا کیے اور اقتصادی مراعات کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی مدد فراہم کی ۔گویا اسرائیلی حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر زورشور سے جاری رہے۔

مسلسل خوف میں مبتلا فلسطینی
ان یہودی بستیوں کا حدود ورقبہ دیواروں والے شہری علاقوں سے نکل کر آس پاس کے دیہی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں کمزور فلسطینی خاندان اپنے گھروں پر حملوں کے خوف میں ہر وقت مبتلا رہتے اور سخت ٹینشن و ڈپریشن میں رہ کر زندگیاں گذارتے ہیں۔ وہ روزی کمانے کے لیے جانور پالنے پہ انحصار کرتے ہیں۔

7 اکتوبر کو اسرائیلی فوج غزہ پہ حملہ آور ہوئی تو ادھر مغربی کنارے میں بستے اسرائیلی آبادکار اپنے پڑوسی فلسطینیوں پہ حملے کرنے لگے۔یہ اسرائیلی مسلح تھے، اس لیے اکثر فلسطینی اپنا گھربار چھوڑ کر شہری علاقوں کی سمت نقل مکانی کر گئے۔

ان کی رخصتی کے بعد کئی مقامات پہ اسرائیلی آباد کاروں نے چراہ گاہوں کو باڑ لگا کر بند کر دیا۔مقصد یہی تھا کہ فلسطینیوں کے مویشی ان چراہ گاہوں سے مستفید نہ ہو سکیں۔ یوں اہل فلسطین پہ ایک اور معاشی وار کیا گیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مجبور و بے کس ہو جائیں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل فلسطین کو معاشی پابندیاں کا نشانہ بنا رہا ہے۔اس کا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں کسی قسم کی معاشی سرگرمیاں انجام نہ پائیں۔یوں وہ ان علاقوں میں بستے مسلمانوں کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اردن یا مصر ہجرت کر جائیں۔ غرض اسرائیلی حکمران طبقہ ہر وہ ظلم وستم اپنا رہا ہے جن کی بدولت اسے غزہ اور مغربی کنارے کا مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے اور وہ یہ علاقے باضابطہ طور پہ اسرائیل ریاست میں شامل کر سکے۔

آبادکاروں کا تشدد بطور ریاستی تشدد
یہ درست ہے کہ اسرائیل میں آباد سبھی یہودی اہل فلسطین کے دشمن نہیں۔ کئی یہودی چاہتے ہیں کہ آزاد ریاست فلسطین کا قیام عمل میں آ جائے تاکہ روزانہ کے لڑائی جھگڑوں سے نجات ملے۔ مگر ایسے یہود کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔اب دنیا بھر میں یہود کی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ پورا فلسطین اسرائیل کے قبضے میں آ جائے اور وہاں صرف یہود ہی آباد ہوں۔ اسرائیلی حکومت میں بھی اس نظریے کے حامی سیاست دانوں، وزیروں اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا۔

یہی وجہ ہے، مغربی کنارے کے فلسطینیوں پہ ظلم وستم کرتے اسرائیلی آبادکاروں کو ریاست اسرائیل کی ہر ممکن مدد وحمایت حاصل ہو چکی۔ اسرائیلی حکمران طبقہ اہل فلسطین کے خلاف ان کی کارروائیوں پہ اظہار مسرت کرتا ہے۔اب تو حکومتی وزرا کھلے عام فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں کے لیے آباد کاروں کو اکسانے لگے ہیں۔۔ مثال کے طور پر پچھلے سال اسرائیلی وزیر خزانہ ،بیزلیل سموٹریچ (Bezalel Smotrich)نے فلسطینی قصبے حوارا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

عسکری حمایت بھی حاصل
اسرائیلی آباد کاروں کو نہ صرف سیاسی بلکہ فوجی حمایت بھی حاصل ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو “محفوظ” کرنے میں مدد دینے کے لیے مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نام نہاد “علاقائی دفاعی یونٹس” جو آباد کاروں پر مشتمل ہیں، اسرائیلی فوج ہی نے بنائے ہیں۔ ان یونٹوں میں تعنیات آباد کاروں کو فوجیوں ہی نے تربیت دی اور انھیں مسلح کیا گیا ۔

نتیجہ یہ ہے کہ اب اسرائیلی آباد کار مسلسل اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی حفاظت میں رہتے ہیں۔ اور جب بھی موقع ملے، یہ آباد کار اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی بھرپور مدد ہی سے اہل فلسطین پہ حملہ آور ہوتے اور انھیں نقصان پہنچاتے ہیں۔

7 اکتوبر سے غزہ کے محاذ پر اسرائیلی فوج نے بہت سے فوجی یونٹ تعینات کیے ہیں۔اس اقدام کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم آبادکاروں کے علاقائی دفاعی یونٹوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یہ یونٹ مقبوضہ زمین پر کنٹرول قائم کرنے میں اور بھی نمایاں کردار ادا کریں گے۔مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی مسلح آباد کاروں کے درمیان حد خاص طور پر اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی، ایتمار بن گویر(Itamar Ben-Gvir) کی قیادت میں تیزی سے دھندلی ہوتی جا رہی ہے،۔ حالیہ مہینوں میں، اس نے اسرائیلی آباد کاروں میں ہزاروں آتشیں اسلحہ اور دیگر جنگی ساز و سامان تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔

شہریوں کی آڑ میں
اسرائیلی آباد کار بنیادی طور پہ شہری کا درجہ رکھتے ہیں۔لیکن ریاست اسرائیل مکمل طور پہ ان کی پشت پناہ بن چکی۔اسی لیے اسرائیل اہل فلسطین پر جو ریاستی تشدد کر رہا ہے، اسے انجام دینے میں یہ نام نہاد شہری آباد کار سرگرمی سے پیش پیش ہیں۔شہری ہونے کے ناتے وہ کسی خاص سلوک کے مستحق نہیں۔

قابل اطلاق بین الاقوامی قانون، بشمول بین الاقوامی طور پر غلط کاموں کے لیے ریاستوں کی ذمہ داری سے متعلق قوانین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غیر ریاستی عناصر، جیسے اسرائیلی مسلح آباد کاروں کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے طرز عمل کو ریاست سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیل میں انسانی حقوق کی ممتاز تنظیم،بتسلیم (B’Tselem) نے اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد کو ریاستی تشدد کی ایک شکل قرار دیا ہے، جس کے ذریعے اسرائیلی حکومت ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔ مثال کے طور پہ وہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ پرائیویٹ افراد کی طرف سے کیا جانے والا تشدد ہے…آباد کاروں کے درمیان چند “خراب سیب” موجود ہیں۔ اور آباد کاروں کی سرگرمیوں کے نتائج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرتے ہوئے ریاست اسرائیل اپنی سیکورٹی فورسز کے کردار سے انکار کر سکتی ہے ۔

حفاظت کا فرض
بین الاقوامی قوانین کے تحت اسرائیل پہ قابض طاقت کے طور پر فلسطینی آبادی کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی آبادکار اہل فلسطین پہ کھلے عام تشدد کرتے ہیں۔ اور انھیں یہ ظلم کرنے میں ریاست اسرائیل کی کامل حمایت حاصل ہے۔یوں دونوں علی الاعلان جنگی قوانین اور انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ بشمول سیکورٹی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستے اسرائیلی آباد کاروں کی ساتھی بن بیٹھی ہے اور ان کی حفاظت کا فریضہ سنبھال چکی۔یہ حقائق اس خوفناک امر کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی حکمران مقبوضہ آبادی کے سلسلے میں اپنی قانونی ذمے داریوں کو فعال طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔

اسرائیلی عدالتوں میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کے ضمن میں جوا ب دہی کا مکمل طور پہ فقدان ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی حکام اسرائیلی آبادکاروں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ پہلے ہی 2013 میں اقوام متحدہ کے حقائق تلاش کرنے والے مشن نے رپورٹ کیا تھا کہ “تشدد اور دھمکیوں کے ذمہ دار اسرائیلی آباد کاروں کی شناخت اسرائیلی حکام کو معلوم ہے، پھر بھی یہ کارروائیاں روکنے کی کوشش نہیں ہوتی بلکہ آباد کاروں کو معافیاں مل جاتی ہیں”۔

اسرائیل کی جنگی جرائم
انسانی حقوق کی ایک این جی او کے تازہ ترین سروے سے پتا چلا ہے کہ 2005 ء اور 2023 ء کے درمیان اسرائیلی پولیس نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے اسرائیلیوں سے متعلق 93.7 فیصد تحقیقاتی فائلوں کو بند کر دیا۔اسی طرح جب سے موجودہ اسرائیلی حکومت نے دسمبر 2022 ء میں اقتدار سنبھالا، اسرائیل کے جرائم کا شکار ہونے والے 57.5 فیصد فلسطینیوں نے نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے شکایت درج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ یقینی ہے، مقبوضہ مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی رفتار تیز کرنے کے لیے اسرائیلی ریاست نے اپنے آباد کاروں کے تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر اپنالیا ہے۔ ایک بار جب مقبوضہ فلسطین کے اہم حصوں کو مقامی فلسطینی برادریوں سے پاک کر دیا جاتا ہے، تب آبادکاری کا ادارہ بلا روک ٹوک اور بلا مقابلہ آگے بڑھ سکتا ہے اور علاقے کا اسرائیل سے الحاق بھی ممکن ہو گا۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ مقبوضہ مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ میں بھی آباد کاری کی اسرائیلی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون کی تسلیم شدہ خلاف ورزی ہیں، بین الاقوامی برادری اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد کو قبول نہیں کر سکتی جو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکال کر آباد کاری کی توسیع میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں فلسطین کی صورتحال کے بارے میں تحقیقات زیر التوا ہیں۔ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے تصدیق کی ہے کہ ان کا دفتر اہل فلسطین پہ اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد کے سلسلے میں تحقیقات تیز کر رہا ہے۔وہ اس بات پر زور دیتے ہیںکہ “ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کرے، مجرم اسرائیلی آباد کاروںکے خلاف قانونی کارروائی کرے، ان کی فلسطینی دشمن سرگرمیوں کو روکے اور انصاف کو یقینی بنائے۔‘‘

یہ سچائی اظہر من الشمس ہے کہ آئی سی سی کی تحقیقات صرف اس صورت ٹھوس اور اہل فلسطین کے حق میں مفید ثابت ہوں گی جب دیکھا جائے کہ ریاست اسرائیل کیونکر اپنے آبادکاروں کی پُرتشدد کاررائیوں کی حمایت کرتی ہے اور یہ کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بنی تمام یہودی بستیاں غیرقانونی ہیں۔ قابض طاقت کی طرف سے “شہریوں کی منتقلی” درحقیقت اسرائیل کے سب سے زیادہ دستاویزی مبینہ جنگی جرائم میں سے ایک ہے۔

یہ درست ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ریاستوں نے متشدد اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف معاشی و تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔مگر یہ افراد کو نشانہ بناتی ہیں، ریاست اسرائیل کو نہیں جو اصل مجرم ہے۔سچ یہ ہے، جب بھی اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی بات آتی ہے تو مغربی طاقتیں اسرائیل کو آزادانہ راستہ فراہم کر دیتی ہیں۔

اس کے بجائے بین الاقوامی برادری کو واضح طور پر اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسرائیلی ریاست اور اس کے طفیلی اسرائیلی آباد کاروں کو اہل فلسطین پہ تشدد کا ذمے دار ٹھہرانا چاہیے۔عالمی عدالتوں میں ریاست اسرائیل کے ان اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلنے چاہیں جو اسرائیلی آبادکاروں کو فلسطینیوں پہ ظلم وستم کرنے سے نہیں روکتے بلکہ انھیں سفلی عزائم کی تکمیل کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔یہ اسرائیلی انسانیت اور قانون کے مجرم ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں