1

میڈوسا – ایکسپریس اردو

میڈوسا (Medusa) یونانی تاریخ کا ایک دیومالائی کردار ہے۔ حددرجہ خوبصورت لڑکی جس کے سر پر گھنے بال موجود تھے جو شانوں تک آتے تھے۔

بال دراصل خوفناک ترین سانپ تھے جو ہر وقت لہراتے رہتے تھے۔ میڈوسا کا اوپر والا دھڑ حسین لڑکی کا تھا مگر کمر سے نیچے ایک سانپ کا جسم رکھتی تھی۔ روایت کے مطابق میڈوسا کا والد ایک دیوتا تھا جس کا نام Phoveys تھا۔ والدہ بھی ایک دیوی تھی جس کا نام Celo تھا۔ رومن روایت میں ایک مصنف Ovid نے میڈوسا پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔

میڈوسا ظلم، قتل اور مصائب کا نشان تھی اور آج بھی کئی لوگ اسے بالکل ماضی کی طرح تسلیم کرتے ہیں۔ میڈوسا کی طاقت دراصل اس کی آنکھیں تھیں۔ وہ طلسماتی بلکہ جادوئی تھیں۔ جو بھی انسان اس کی آنکھوں کو دیکھتا تھا، وہ پتھر کا بن جاتا تھا۔ میڈوسا کا خوف، رومن کہانیوں اور داستانوں میں بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ جب اس سانپ نما دیوی کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے تو آسمانی دیوتاؤں نے فیصلہ کیا کہ اب اسے قتل کر دینا چاہیے۔ مگر کوئی ایسا سورما نہیں تھا جو یہ کام کرنے کا خطرہ مول لے سکتا۔

لہٰذا دیوتاؤں نے ایک بہادر نوجوان Perseus کا انتخاب کیا۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کی بھرپور مدد کے بغیر Perseus، اس خوفناک عورت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا انھوں نے اس وجیہہ نوجوان کو آفاقی طاقت اور تحفوں سے نوازا۔ Athena نے ایک شیشہ کی بنی ہوئی ڈھال دی جس کے ذریعے میڈوسا کو دیکھا جاسکتا تھا۔ Hermes نے اسے سونے کے بنے ہوئے سینڈل دیے جس سے وہ فضا میں اڑ سکتا تھا۔ Hephaestus نے اسے حددرجہ طاقتور تلوار اور Hades نے اس نوجوان کو انسانی نظر سیاوجھل ہونے کے لیے ایک کمبل دیا۔ ان دیومالائی صلاحیتوں سے معمور Perseus نے میڈوسا کو قتل کر دیا۔

جب سلطان فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور اسے اپنی حکومت کا مرکز بنایا۔ تو یہودیوں کا ایک وفد اٹلی سے دربار میں ملاقات کے لیے آیا۔ یہودی وفد نے، سلطان کے وزراء اور عمائدین کو حددرجہ قیمتی تحائف دیے۔ التجاء کی کہ شہر کے نیچے پانی کے نایاب ذخائر تک جانے کی اجازت دی جائے۔ اس آبی نظام کا نام Basilca Cistern ہے اور یہ آج بھی موجود ہے۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ اس پانی کے نیچے سونے چاندی کے خزانے دفن کیے گئے ہیں۔ وہ یہ حاصل کر کے آدھا خزانہ، سلطان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ سلطان کو ان لوگوں کے اصل عزائم پر شک تھا۔ لہٰذا اس نے وفد کو Cistern تک جانے کی اجازت نہیں دی۔

کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ سیکڑوں برس پہلے مسلمان سلطان تک پہنچنے والے یہ یہودی کون تھے۔ یہ تمام Free Mason تنظیم کے رکن تھے۔ جو آج بھی موجود ہے۔ بہرحال سلطان نے انکار تو کر دیا مگر اس نے سچ جاننے کے لیے پوری کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ میڈوسا قسطنطنیہ کے آبی ذخائر کے نیچے ایک پتھر کی قبر میں دفن ہے۔ اور یہودی اس کی لاش کو لے جانا چاہتے تھے۔ سلطان فاتح نے اس قبر کو تلاش کروایا اور اس کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کر دیا۔ وقت گزرتا گیا۔ مگر Free Mason والے اپنے کام میں جتے رہے۔

سلطان عبدالحمید کے دور میں یہودیوں نے دوبارہ اس لاش کی واپسی کا مطالبہ کیا اور اس کے بدلے سلطان کو محیرالعقول رقم دینے کا وعدہ کیا۔ مگر سلطان عبدالحمید نے بھی انکار کر ڈالا۔ بلکہ اس نے قبر کھدوائی تو اس میں ایک ایسی مخلوق کا جسم ملا جو سانپ اور انسان کے درمیان تھی۔ سلطان نے اس لاش کو آبی ذخائر سے نکال کر ایک حددرجہ خفیہ جگہ پر دفن کروایا۔ بعد میں عوام کو بتانے کے لیے میڈوسا کی ایک قبر Helga Sophia کے نزدیک بنوا ڈالی۔ جو کہ آج بھی موجود ہے مگر خالی ہے۔

میڈوسا شاید ایک فرضی کردار تھا۔ داستان سنانے والوں کی اختراع تھی یا کہاوت تھی۔ مگر اس کی منفی اورجان لیوا خصوصیات آج تک مشہور ہیں۔ یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے ملک میں میڈوسا جیسے سفاک کردار ہر سطح پر موجود ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ ان کرداروں میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ یہ ہر ادارے اور ہر تنظیم میں موجود ہیں۔ برا نہ مانیے گا، طالب علم، میڈوسا کو صرف ایک استعارے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

کسی بھی شعبے پر نظر ڈالیں۔ آپ کو موت کے یہ سوداگر بڑے سکون سے موت تقسیم کرتے نظر آئیں گے۔ چلیے، اس نکتہ پر بات کر لیتے ہیں۔ صحت کا شعبہ کسی بھی ملک میں شہریوں کے لیے تریاق کا کام کرتا ہے۔ مغربی ممالک نے عام آدمی کی بہتری کے لیے صحت کے شعبے کو اوجِ ثریا پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارا بالائی طبقہ اس شعبہ کے مقامی گھمبیر معاملات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے آپ کو کسی پاکستانی ڈاکٹر کو دکھانے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ مگر عام آدمی تو ان مسیحاؤں کی اکثریت کے لیے ’’چارہ‘‘ کا کام کرتا ہے۔ ڈاکٹرز کی اکثریت لیبارٹریز سے کمیشن وصول کرتی ہے۔

میڈیسن کمپنیاں بھی کمیشن دیتی ہیں، ڈاکٹرز ان کی بنائی ہوئی دوائیاں نسخہ میں لکھتے ہیں۔ انھی کمپنیوں سے بیرون ممالک سیر وتفریح کے مفت پیکیج وصول کرتے ہیں۔ سب ڈاکٹروں کی بات نہیں کر رہا مگر واضح اکثریت اس علت میں دھنسی ہوئی ہے۔ ذرا رہنمائی فرمایئے۔ میڈوسا بھی موت تقسیم کرتی تھی۔ اور ہمارے مسیحاؤں کی اکثریت، موت کے سوداگر ہیں۔ صحت کے شعبہ کو چھوڑ دیجیے۔ ذرا سڑکیں، پل اور سرکاری عمارتیں بنانے والے ٹھیکیداروں کے کارناموں پر نظر ڈالیے۔ ناقص میٹریل کا استعمال کھل کر کیا جاتا ہے۔ جن کی بدولت سڑکوں پر ان گنت حادثات ہوتے ہیں۔

بلوچستان اور سندھ میں یہ حال ہے کہ وہاں لوگوں کو بس ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ فروخت کر دیا گیا ہے۔ وہاں کئی منصوبے صرف فائلوں میں مکمل ہیں، سارا پیسہ سیاست دان، سرکاری ملازم اور کارندے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اگر کوئی پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کرے تو اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بات تو صرف معیاری تعمیرات کی ہوتی ہے۔ یہ تمام کردار اور افراد دراصل میڈوسا کے کارندے ہیںجو ہمارے ملک کے لیے میڈوسا کا بھیانک ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔

سات دہائیوں سے ہمارے ریاستی و سرکاری اداروں کا کیا کردار رہا ہے؟ متعدد چیرہ دستیوں کو عقیدت کا غلاف پہنا کر جوہری نکتہ کی نفی کر دی جاتی ہے۔ عرض کروں گا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں سے زیادتی کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں مل سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین شخص بھی زیر دام آ گیا اور ان معاملات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرنے لگا جن کی گہرائی اور مضمرات کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

بلاآخر وہ خود بھی پھانسی چڑھ گیا اور اس کی سیاسی جماعت عقوبت خانوں کی نذر ہو گئی۔ سچ بولنے اور لکھنے والوں کے نصیب میں کوڑے آئے۔ بنگالیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی میں ملوث کردار کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، تو فرمایئے کہ کیا 1970-71میں میڈوسا کا زہر سر چڑھ کر بول رہا تھا یا نہیں؟

پاکستان میں میڈوسا کی باقیات ہر دور میں موجود رہی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی یہ باقیات موجود رہیں، اب پی ٹی آئی زیرعتاب ہے اور اس کے اراکین جیلوں میں ہیں ۔ پہلے بھی سیاسی لیڈر اور کارکن زیرعتاب ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔ کسی بھی قانون کی پرواہ کیے بغیر۔ مخالفین کی پگڑی اچھالی جاتی رہی ہیں اور اب بھی اچھالی جارہی ہیں۔ ظلم کی داستانیں آج بھی گردش کر رہی ہیں۔ اگر ایک سیاسی گروہ زیر عتاب آجاتا ہے تو دوسرا اقتدار میں آجاتا ہے اور اپنے حریف سیاستدانوں پر ہونے والی زیادتیوں پر تالیاں بجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موقع پرست ، کرپٹ اور بے اصول سیاست دان اقتدار کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں، جن کا بال بال ناانصافی، کرپشن، اقربا پروری اور ظلم کے ناپاک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوتوں کے بنائے ہوئے مقامی مہرے ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ سے اقتدار میں نہیں آتے بلکہ کبھی آر ٹی ایس بٹھا کر اور کبھی فارم سنتالیس کی بنا پر اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔ ایسی حکومت کی ہر پالیسی عوام کے مفاد کے خلاف ہوتی ہے۔

بدترین مہنگائی ہو، بجلی کے ہوشربا نرخ ہوں، پٹرول کے ناروا دام ہوں یا کوئی بھی روزمرہ ضرورت کی چیز ہو، گردشی قرضے ہوں، معاملات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یقین مانیے مجھے تو سب حکمران اور سیاستدان میڈوسا کی قبیل کے افراد لگتے ہیں جو ملک کو جڑوں تک کھوکھلا کر کے عوامی خدمت اور ترقی کے نعرے لگا رہے ہیں ۔

ملک معاشی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ہر ایک کے علم میں ہے کہ بلوچستان اور کے پی، دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ اور ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیدار،دیوار پر لکھا ہواانجام پڑھ نہیں پا رہے ۔ کون کہتا ہے کہ موت کی دیوی میڈوسا کو قسطنطنیہ میں تلاش کیا جائے، فری میسن اگر پاکستان آئے تو یہاں اسے میڈوسا اور اس کے قبیل کی لاتعداد’’ زندہ لاشیں‘‘ مل جائیں گی!





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں