1

نئی حکومت کی معاشی ترجیحات اور درپیش چیلنجز

انیس رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے نئی وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔ وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معیشت کی بحالی ہمارا اولین ایجنڈا ہے۔

انھوں نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہ تیل اور گیس کی دریافت، ریفائننگ اور تقسیم میں نجی شعبے اور مقامی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے۔ عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں جب کہ اشرافیہ کو سبسڈیز دی جارہی ہیں، ٹیکس چوروں اور ٹیکس چوری میں ملی بھگت کرنے والے افسران دونوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے تمام مراحل بحسن و خوبی طے پا گئے ہیں، نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے جرات مندانہ اہداف طے کر لیے ہیں۔ انھوں نے ملکی معاشی حالات کو بہتر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اب نئی حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہوگا جو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کر دی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان اورخیبر پختو نخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثرکیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کردیا ہے۔ یوں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگار کے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی، ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

دوسری جانب ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین، سیم اور تھور کا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں۔ زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر بھی اثر پڑرہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔ جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔

پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف چار فی صد جنگلات پر مشتمل ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم عالمی فنڈ، ڈبلیو ڈبلیو ایف، نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے، یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے چھ فی صد سے بھی کم ہیں۔

ٹمبر مافیا مقامی پولیس کے ساتھ مل کر بے خوف و خطر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت کو ماحولیاتی و فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

پاکستان کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بد انتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔

توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔

نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، حکومت کے لیے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ٹیکس جمع کرنی کا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

برسوں پہلے سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کرنے کی پالیسی بنائی گئی اور کہا گیا کہ اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا لیکن آج ملک کی بیشتر آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کررہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں، جس کا اثر عام آدمی پر پڑرہا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، ابھی تو موسم سرد ہے، جب گرمیوں کا آغاز ہوگا تو اس وقت عام صارف کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کی ادائیگی کرنا تقریبا ناممکن ہوگا۔

معاشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈر انوائسنگ کو روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقعے فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے تو نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک کڑا چیلنج ہے، اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانائی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو گا۔ ڈالر کی اونچی اڑان، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو لگام ڈالنے میں ناکامی جیسے عوامل غربت کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے ناکارہ نظام، بڑھتے ہوئے بے سمت اور غیر ضروری حکومتی اخراجات، غیر مساوی ٹیکس نظام، غیر پیداواری معیشت، کم پیداوار دینے والے زرعی سیکٹر، مہنگی توانائی اور اس کے باعث قرضوں کے بڑھتے بوجھ اور اشرافیہ کی گرفت میں کام کرنے والے غیر موثر پبلک سیکٹر جیسے عوامل شامل ہیں۔

موجودہ معاشی حالات میں افراط زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے قوت خرید میں کمی اور بے روزگاری بڑھے گی جس کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر ملک واقعی ان مشکل حالات اور بڑھتی ہوئی غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو نئی حکومت کو ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا۔

پاکستان میں عوام کو خط غربت سے بچانے کے لیے حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر پر قوانین لاگو کرنے ہوں گے جو مزدوروں اور ملازمین کو کم اجرت پر رکھ کر ان کا استحصال کرتے ہیں کیونکہ غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات ایک خاندان کا تین نسلوں کو پالنا، گھر میں پانچ سے دس افراد میں صرف ایک شخص کی کمائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

نوجوانوں کو روزگار، صحت عامہ سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی بہتر بنانے سے غربت میں کمی ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کو غریبوں سے نکال کر امیروں تک لے جانا چاہیے کیونکہ روزمرہ اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کے ذریعے اربوں روپے تو اکٹھے کیے جا رہے مگر جتنا ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا نصف بھی عام آدمی پر نہیں لگتا نظر آ تا۔ امیر اور غریب کے درمیان اس گہرے خلاء کو پر کرنے کے لیے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدانخواستہ ہم کسی پسماندہ ریاست کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں