1

کیا طلاق کی وجہ عورت کی خودمختاری ہے؟

ایک بات تو سچ ہے کہ انسان چاہے مرد ہو یا عورت، ایک لحاظ سے ایک ’خود غرض‘ مخلوق ہے اور اسی انسان میں لالچ اور دنیا پرستی بھی ہے۔

اگر تھوڑا سا ’حقیقت پسند‘ ہو کرجائزہ لیا جائے، تو یہ بھی سچ ہے کہ اس دنیا میں انسانی رشتے بھی ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصولوں پر ہی قائم ہیں۔ پھر چاہے  یہ رشتہ ماں، باپ یا بہن، بھائی جیسا ہو، میاں بیوی اور دوست کا دوست سے ہو یا پھر  مالک اور ملازم کا۔

ہر رشتہ ایک دوسرے سے جڑے رہنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تلاش کرتا ہے۔ جیسا کہ ماں اور بچے کا رشتہ کہنے کو تو ماں کی محبت اور رشتہ ان مول ہے، لیکن اگر اسے کچھ حقیقت پسند ہو کر سمجھیے، تو اس میں بھی بہت سے محرکات کار فرما ہیں۔

اس ہی طرح بہن بھائی اور دیگر رشتے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ میاں بیوی کا وہ رشتہ، جس میں ایک دوسرے سے جُڑے رہنے کے لیے محبت پر انحصار ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے عورت کو اس رشتے میں جوڑے رکھنے کے لیے مالی طور پر اس کے مرد پر انحصار ہونے کو سمجھا جاتا ہے۔

بھرپور ازدواجی رشتے کے ساتھ ساتھ ایک کام یاب اور پرلطف کیریئر کا ہونا ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگی کی نہ صرف خواہش ہے، بلکہ اب مقصد بھی ہے۔ گذشتہ کچھ روز سے ’سوشل میڈیا‘ پر ایسی گفتگو نظر سے گزریں، جن میں ایک ایسے ہی موضوع پر بحث کا نہ رکنے والا سلسلہ اور نہ تھمنے والی طوفانِ بدتمیزی نظر آئی۔

آج کل ’سوشل میڈیا‘ پر ایک بیان بہت زیادہ چل رہا ہے کہ ’خواتین کے خودمختار ہونے کے بعد شوہر کو کہتی ہیں کہ مجھے تمھاری ضرورت نہیں۔ میں خود کما سکتی ہوں۔‘‘ اس پر بہت گفتگو جاری ہے۔ اس ہی طرح ایک پوسٹ اس حوالے سے تھی کہ کمانے والی خودمختار عورتوں میں طلاق کا تناسب زیادہ ہے۔ ایک ’سوشل میڈیا‘ صارف نے ایک تحقیق مشتہر کی ہوئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ دفتر میں کام کرنے والی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین میں گھر بسانے کی اہلیت نہیں ہوتی۔

ایک صاحب نے طلاق یافتہ خاتون کو رشتہ ازدواج (جو کہ خاتون کے مطابق ان کے لیے مسلسل اذیت سے بھرا رشتہ تھا) سے آزادی مناتے ہوئے کچھ تصاویر لگائیں، تو تبصروں میں ہمارے پاکستانی معاشرے کے کچھ حضرات کی جانب سے جو خیالات ظاہرکیے گئے وہ شاید ان کے گھر کی خواتین بھی پڑھ کر شرمندہ ہو جائیں۔یہ بات درست ہے کہ طلاق یا علاحدگی کسی کی بھی زندگی کا ایک افسوس ناک موڑ ہے اور اسے کسی بھی طرح خوشی یا مسرت کا موقع نہیں ہے، لیکن دوسری جانب بھی تحمل اور تہذیب کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے اور اپنا نقطہ نظر طریقے سے پیش کیا جائے۔

یہاں ’خواتین کے خود مختار ہونے سے ان کو مرد کی ضرورت نہیں رہتی‘ والی بات بہت عجیب تو ہے ہی ساتھ میں بے معنیٰ بھی لگی۔ وہ اس لیے کہ عورت گھر صرف اس لیے نہیں بساتی کہ اس کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر تو ملازمت کرنے والی لڑکیاں شادیاں ہی نہ کریں۔ ارد گرد نظر دوڑائیں تو بہت سی خواتین ہیں جو جاب کر رہی ہیں، لیکن ان کے مردوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں۔

سب سے بڑھ کر تو ہمارے معاشرے میں ان خواتین کی مثال ہے، جو گھروں میں کام کرتی ہیں، گھر چلاتی ہیں، بچے پالتی ہیں اور ان کے شوہر کسی نہ کسی اخلاقی یا معاشرتی برائی کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی بھی ملیں گی جنھوں نے طلاق کے بعد باعزت طور پر اپنی گزر بسر کرنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مالی خودمختاری حاصل کی ہوگی اور آج وہ کسی ابھی مقام پر ہو گی۔

آج بڑھتی ہوئی شرح طلاق کی وجہ عورت کی مالی خودمختاری اور آزادی نہیں، بلکہ رشتوں میں فریقین کی انا کا زنگ اور ایسے زہر آلود رشتے ہیں جو عورت کا ذہنی، نفسیاتی اورجسمانی طورپر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ ہم کیوں عورت کو اس کے حقوق کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا نہیں چاہتے؟

ہم کیوں چاہتے ہیں کہ گلیوں اور سڑکوں پر لڑکیوں کو ہراساں کر کے پریشان کیا جائے۔ ان کی توہین کی جائے، ان کے پہننے اوڑھنے سے لے کر لکھنے پڑھنے، کھانے پینے اور سیر و تفریح پر پابندی لگائی جائے کہ وہ اس سب سے پریشان ہو کر ہتھیار ڈال دیں۔ہم کیوں عورت کو مالی خود مختاری دینا نہیں چاہتے۔۔۔؟ ہم کیوں عورت کو مالی طور پر آدمی کے اوپر انحصار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔۔۔؟ ہم کیوں چاہتے ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر پر بوجھ ہونے کے طعنے سنے اور شادی کے بعد شوہر کے گھر میں۔۔۔؟

ہم کیوں مرد کو یہ ترغیب نہیں دیتے کہ عورت کو خود سے جوڑے رکھنے کے لیے اس کے پَر کاٹنے کی نہیں بلکہ اونچی اڑان بھرنے کے لیے اس کا سہارا بنے۔ اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیت کی دل سے قدر اور عزت کر کے عورت کو اپنا گرویدہ کر لے۔

عورت صرف پیسے کے لیے ہی کیوں مرد پر انحصار کرے۔۔۔؟ وہ بے لوث محبت، توجہ اور خود کو ملنے والی عزت کے لیے بھی شادی کے بندھن میں باندھے رکھنا پسند کر سکتی۔۔۔؟

محبت، توجہ اور عزت دے کر بھی مرد عورت کو خود سے جوڑے رکھ سکتا ہے۔ اگر عورت سے عزت، محبت، خدمت اورقربانی کی توقع کی جاتی ہے، تو بدلے میں اس کو بھی یہ سب ملنا چاہیے، بلکہ زیادہ ملنا چاہیے، کیوں کہ وہ تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک مردکا گھر بسانے بھی آئی ہوتی ہے۔

شادی ایک ایسا خوب صورت اور مقدس بندھن ہے، جس میں عزت، بھروسا، قدر اور محبت جیسے لوازمات شامل نہیں ہوں تو اس رشتے کی خوب صورتی ماند پڑ جاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان بننے والا یہ بندھن نازک اور نا پائیدار بھی ہوتا ہے، لیکن اس کی وجہ صرف عورت کی مالی خودمختاری تک محدود نہیں کی جا سکتی۔ یہ رشتہ جتنا نازک ہے اس کو عزت، محبت اور بھروسے سے اتنا ہی مضبوط بھی بنایا جا سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر بنانے میں عورت کا کردار اہم ہے، لیکن اس کردار کی اہمیت کو ہر طرح سے اہم سمجھنا بھی ضروری ہے۔ شادی کے بعد ذہنی سکون، خوشی، محبت اور عزت کا جتنا حق دار ایک مرد ہوتا ہے اتنی ہی مستحق عورت بھی ہوتی ہے۔۔۔!





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں