2

ہمارا آنے والا بجٹ – ایکسپریس اردو

ملک میں انارکی بتدریج غیر مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بتدریج بہتری کی طرف رواں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ برقرار رہ سکے گا؟

سیا سی عدم استحکام سے جنم لیتی ہے معاشی بدحالی۔یہ قصہ شروع ہوتا ہے 2016 سے جب جمہوری حکومت کے خلاف یکے بعد دیگرے عدالتی فیصلے آنا شروع ہوئے۔آخر کار اقامہ کی بنیاد پر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف تاحیات نااہلی قرار پائے۔

2018 میں آرٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کے باعث عمران خان وزیر ِ اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے، پھر بطور وزیراعظم ان کی اپنی کارکردگی، عثمان بزدار کی پنجاب پر حکومت، وفاق میں اسد عمر کا وزیر خزانہ بننا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بروقت طے پانے کی کوشش نہ کرنا، کراچی کے سمندر سے اربوں ڈالر کی گیس دریافت ہونے کا دعویٰ ہے، پھر یہ کہنا، گیس تو لیک ہوگئی ہے۔ اس وقت تک ڈالر اپنی بھرپور اڑان بھر چکا تھا، معیشت ڈانواڈول ہو چکی تھی۔

سیاسی معاملات ایک طرف لیکن اس وقت ہماری معیشت اور ہماری معاشی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے منہ کو ابتداء سے ہی امریکی، سعودی اور عالمی مالیاتی اداروں کے مال کی لت لگ گئی تھی ۔ہم سوشلسٹ بلاک کے خلاف ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو ہمیشہ ان کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنائے رکھا۔جنرل ایوب کی مارشل لاء حکومت بھی ان ہی کے آشیرواد سے بنی، جنرل ضیاء بھی ان کی ایماء سے آئے،جنرل مشرف بھی امریکا کی پسند اورانتخاب تھے اور پھر 9/11 کا واقعہ جس نے اس یارانے کومضبوط بنادیا۔

ہماری شرح نمو جو پہلے پانچ یا چھ فیصد بڑھتی تھی 1980 کے بعد تین سے چار فیصد پر آگئی اور اب صرف اوسطاً دو یا تین فیصد بڑھ رہی ہے جب کہ ہمارے اخراجات دگنے سے تگنے ہوچکے ہیں، ہمارے Tax to GDP کی شرح نو سے دس فیصد ہے جب کہ ہندوستان کی اٹھارہ فیصد ہے۔اس ملک میں نہ صرف ٹیکس کی چوری ہے بلکہ جو ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں، ان کا استعمال بھی عوام کی فلاح و بہبود میں نہیں ہوتا۔

حالانکہ ڈاکٹر محبوب الحق اور اے این جی قاضی جیسے بیوروکریٹس ان کے پاس تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ جمہوری لوگ نہ تھے لیکن محب وطن اور اعلیٰ پائے کے پروفیشنل تھے۔جن کو کام کرنا آتا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے ان کو سننا چھوڑ دیا اور ان کی جگہ لے لی درباریوں نے۔ان مفاد پرستوں نے ملکی مفاد کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ یوں سرکاری ادارے بیٹھ گئے۔

ہماری شرح نمو بڑھتی بھی کیسے؟ ہماری اولین ضرورت تھی کہ ہم سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بھاری بجٹ مختص کرتے، زراعت کی ترقی اور پانی کے ذخائر کی تعمیر پر خرچ کرتے، لیکن ہم یہ سب کچھ صحیح طور پر نہیں کر پائے، رشوت ، کمیشن اور کک بیکس روکنے کے لیے قانون سازی نہیں کی ، توشہ خانے کو بچانے کے لیے حکمران کے اختیارات و استحقاق پر پابندی عائد کرنے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور اب تو جو کی گئی ہے، وہ بھی دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ قرضے ملتے رہے، گاڑی چلتی رہی، پھر امریکی امداد بند ہوگئی، عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ سخت ہوگیا، خلیجی ممالک بھی حساب کتاب پر آگئے۔

حالات ہمیں چین کے پاس لے گئے، سی پیک آگیا۔یوں سمجھیں یہ بھی قرضوں کی ایک زنجیر ہے جو ہم نے چین سے و صول کیے، اب ہمیں نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ چین سے لیے گئے قرضوں کو بھی اتارنا ہے۔ہمار ا آنے والا بجٹ لگ بھگ سترہ ہزار ارب کا ہوگا، جس میں آمدنی لگ بھگ بارہ ہزار ارب رہے گی، چار ہزار ارب کا خسارہ رہے گا جو ہمیں قرضے لے کر پورا کرنا ہوگا۔ہماری مجموعی پیداوار کے حساب سے بجٹ میں یہ خسارہ تقریباً 7% ٹھہرتا ہے۔

اس بجٹ میں ساڑھے سات ہزار ارب ہمیں قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہوںگے، دو ہزار ارب کے لگ بھگ دفاعی اخراجات ہونگے، جس کا مطلب یہ ہے جو ٹیکس ایف بی آر وصول کرتا ہے وہ دفاعی اخراجات اور قرضہ جات کی ادائیگی میں ہی صرف ہو جائیں گے۔ اگر ہماری Tax to GDP کی شرح دس فیصد سے بڑھ کر چودہ یا پندرہ فیصد ہو جائے اور ایک ہزار ارب جو ہم اپنے ایسے اداروں پر خرچ کرتے ہیں جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں وہ بچ جائیںتو ہم مجموعی طور پر پندرہ ہزار ارب محفوظ کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا بجٹ خسارہ تین سے چار فیصد تک آسکتا ہے۔سب سے مشکل کام ہے سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھانا۔

ایسا سننے میں آ رہا ہے کہ آیندہ مالی سال میں بارہ سو ارب کے نئے سیلز ٹیکس لاگو کیے جائیں گے۔یہ تمام ٹیکس یقیناً ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوںگے، یعنی ایسے ٹیکس جن کا اضافی بوجھ غریب عوام پرپڑے گا، مہنگائی بڑھے گی، غربت میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کی آدھی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتی ہے اور اندازہ یہ ہے کہ آیندہ سال لگ بھگ ایک کروڑ لوگ غربت کی لے کر کے نیچے چلے جائیں گے، لگ بھگ چار کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ان چار کروڑ بچوں میں ڈیڑھ کروڑ بچے سندھ سے ہیں۔

خان صاحب کی انارکی اس وقت اسٹبلشمنٹ سے مایوس ہو کر کہیں اور امیدیں لگا رہی ہے اور وہاں سے بھی ان کو ناکامی کا سامنا ہوگا۔ پاکستان کے درپیش مسائل کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ آگے لے کر چلنا ہوگا۔ ان کے لیے دس سال کی پلاننگ کی ضرورت ہے۔بڑے عرصے بعد ہماری عدلیہ اور ہماری اسٹبلشمنٹ میں سنجیدگی نظر آرہی ہے۔

جہاں بھی جو مافیا متحرک ہے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارہ سازی کی جائے،اس ملک کا نظام پارلیمنٹ کے تابع ہو، تمام ادارے بشمول عدلیہ آزاد ہوں لیکن جوابدہی سے آزاد نہ ہوں، آئین میں سب اداروں کو قانونی طاقت دی گئی ہے تو ان کی جواب دہی کا میکنزم بھی وہی ہونا چاہیے جو اس ملک کے آزاد اور مالک شہریوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں