1

مودی سرکار اور بھارت کے مسلمان

فلسطین اور بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر دو ایسے سنگین مسئلے ہیں جو امنِ عالم کے لیے شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اِن دونوں مسائل کو حل کرنے میں اقوامِ متحدہ بُری طرح ناکام ہے۔

اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جس دیانتداری اور انصاف پسندی کے ذریعے اِن مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے وہ مفقود ہے۔سچ پوچھیے تو یہ دونوں مسائل رِستے ہوئے ناسور ہیں۔ ایک جانب اسرائیل کی ہَٹ دھرمی ہے اور دوسری طرف بھارت کی ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی رَٹ۔

مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ جو بھارتی سپریم کورٹ کے زیرِ سماعت تھا اُس کا فیصلہ حال ہی میں آ چکا ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے بھارتی سپریم کورٹ کی انصاف پسندی کا جنازہ ہے۔ جیسا کہ اندیشہ تھا بالکل ویسا ہی ہوا ہے بھارتی سپریم کورٹ نے کھُلم کھُلا حق اور انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جس وقت مقبوضہ کشمیرکا مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کیا جا رہا تھا اُس وقت ہی ماتھا ٹھنک رہا تھا کہ یہ کارروائی محض اَتمامِ حجت کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

برصغیر کی تقسیم جس اصول کی بنیاد پر ہوئی تھی اُس کا تقاضہ یہ تھا کہ بٹوارہ اکثریت کی بنیاد پر ہوگا لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ اِس بندر بانٹ کے نتیجے میں ہندو اکثریتی علاقے تو ہندوؤں کے پاس چلے گئے لیکن مسلم اکثریتی علاقے مسلمانوں کو نہیں دیے گئے۔ریاستِ جموں و کشمیر کا مسئلہ اِسی بدنیتی کی پیداوار ہے۔

1948 میں بھارت اور کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کی ملی بھگت کے نتیجے میں مسلم اکثریتی ریاست ہندوستان کے قبضے میں چلی گئی، البتہ اِس کا کچھ حصہ جو پاکستان نے حاصل کرلیا وہ پاکستان کے کنٹرول میں آگیا اور آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔

بے ایمان بھارت جو چوری اور اوپر سے سینہ زوری کا مرتکب ہے، اِس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر چلا گیا جس نے اپنی قراردادوں کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اِس مسئلہ کو استصوابِ رائے کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن بھارت نے اِس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ آج تک سرد خانہ میں پڑا ہوا ہے۔ بھارت کی اِس ہٹ دھرمی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان چار خوفناک جنگیں بھی ہوچکی ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔

دراصل بھارت کی چال یہ تھی کہ اُسے اتنی مہلت مل جائے کہ وہ جموں وکشمیر کی آبادیاتی تناسب کو تبدیل کردے اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے وہاں سے کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو نکال کر ہندوؤں کو آباد کر دے۔ بھارت اِسی بدنیتی کی پالیسی پر عمل درآمد کررہا ہے اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارت کے اِس غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور اُن کی اِس تحریک کے نتیجے میں بیشمار کشمیری مجاہدین شہید ہوچکے ہیں اور نہ جانے کتنی ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کی عصمتیں قربان ہوچکی ہیں اور کتنے گھر اُجڑچکے ہیں۔

غاصب بھارت نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں اپنے ظالم اور جابر مقبوضہ وادی میں مسلط کر رکھے ہیں اور کشمیریوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔بھارت کے اِس انتہائی جبرو استبداد کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے متوالوں اور جیالوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے بلند سے بلند تر ہورہے ہیں۔

نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو ایک نیا حربہ استعمال کرتے ہوئے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خود مختاری کا خاتمہ کر دیا۔ دفعہ 370 کے منسوخ ہونے سے دفعہ 35A خود بخود ختم ہوگئی۔ دونوں دفعات نے اِس علاقے کو امورِ خارجہ، معاشیات اور دفاع کے علاوہ دیگر معاملات میں قانون سازی کی مکمل آزادی دی ہوئی تھی۔

آئین کی دفعہ 35A کی رُو سے مقبوضہ ریاست میں مستقل رہائش پذیری کی ریاست سے باہر والوں کو مکمل ممانعت تھی اور وادی میں جائیداد کی خریداری اور مقامی ملازمتیں حاصل کرنے کی بھی ممانعت تھی۔ اِس کا مقصد کشمیر کی منفرد شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھنا تھا۔

ریاست جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ذریعے منقسم ہے۔ پاکستانی آزاد کشمیر کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ دفعہ370 کا ختم ہونا نہ صرف کشمیریوں کے حقوق کی پامالی ہے جن کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ یہ جانیں کہ اُن پر کون حکومت کرے گا۔ یہ UNSC کی قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے جو کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کی ضمانت دیتی ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر میں ہندو ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کھُلی آزادی مل گئی ہے۔ بھارت کے مسلمان اب حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔ اُن کے بچاؤ کی اب ایک ہی صورت باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ سیکولر سیاسی پارٹی کانگریس برسرِ اقتدار آجائے۔ ہندو عصبیت کا زہرکوئی نئی نرالی بات نہیں ہے۔

بہت برسوں پرانی بات ہے کہ بنگالی زبان کے ایک مشہور و معروف ادیب بنکم چندر چٹرجی کی ایک کتاب آنند مَٹھ میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہر افشانی کی گئی تھی، جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، اِس کتاب کا ترجمہ اردو زبان میں نہیں ہوا، البتہ ہم نے اِس کا ہندی زبان میں ترجمہ ضرور پڑھا ہوا ہے جس کی تفصیلات بیان کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔

اِس کتاب میں ہندو اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے اِس ترغیب کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب ہم مسلمانوں کے گھر بار اور عبادت گاہیں جلا کر بھسم کردیں گے،کتاب کے اِس لُبِ لُباب سے انتہا پسند ہندو ذہنیت کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اگر دیکھا جائے تو مودی سرکار برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے اِسی رَوِش پر گامزن ہے۔ اُس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ یہ کام بلا تاخیر کر کے دکھا دے۔ اُس کے اِن مکروہ عزائم کی راہ میں چند رکاوٹیں حائل ہیں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت نہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت ہیں جن کی مجموعی تعداد پاکستان کی کُل آبادی کے لگ بھگ ہے، اگر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق یہ اُٹھ کھڑے ہوں تو پھر انجام کیا ہوگا۔

سچ پوچھیے تو بی جے پی کی حرکات کی وجہ سے بھارت کے حالات اِسی رخ پر جا رہے ہیں کیونکہ بی جے پی حکومت بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی۔ سائنس کا اصول بھی یہی ہے کہ ہر عمل کا وہی رد عمل ہوتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں