ملک بھر سے موصولہ اطلاعات، رپورٹوں، جائزوں سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ عیدالفطر 2025 کو انتہائی جوش و خروش، روایتی انداز میں، مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منانے کے لیے پاکستانی عوام نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بازاروں، مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں اور دیگرکاروباری مراکز میں عید کی خریداری کے سلسلے میں بے پناہ رش دیکھا گیا۔
عوام کا جم غفیر تھا، جوکہ اپنے لیے من پسند کپڑوں، گارمنٹس، جوتے،گھڑیاں، رومال، ٹوپیاں، خواتین اپنے من پسند لباس، ڈوپٹے، حجاب، چوڑیاں، سینڈل، مصنوعی زیورات، مہندی اور بہت سی اشیا کی خریداری میں مصروف تھیں۔گھروں میں مہمانوں کی خاطر تواضح کی خاطر بڑے پیمانے پر مٹھائیوں کی خریداری ہوئی۔ صدر کراچی کے ایک مٹھائی فروش کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ گزشتہ سالوں کی نسبت دگنی مٹھائی فروخت ہوئی۔
بعض دکانداروں نے رعایتی سیل بھی لگا رکھی تھی جس سے عوام نے خوب فائدہ اٹھایا۔کچھ دکاندار ایسے بھی تھے جنھوں نے نہایت ہی کم قیمت پر ریڈی میڈ گارمنٹس، شلوار قمیض فروخت کے لیے پیش کر رکھے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ غریب افراد بھی اپنے لیے خریداری کرسکیں، جب کہ بعض افراد نے اس موقعے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ البتہ ایسے بھی دکاندار تھے جنھوں نے اپنی اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ سال کی نسبت 50 سے 60 فی صد زائد اضافہ وصول کیا۔
اسلام نے عیدالفطر کو معاشی اور مالی عبادت کے ساتھ جوڑا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسا حکم دیا گیا کہ عید الفطر کی نماز سے قبل فطرانہ کی رقم غریبوں، مستحق افراد، ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی جائے اس کے علاوہ رمضان المبارک میں زکوٰۃ، خیرات، صدقہ کی ادائیگی میں زور شور پیدا ہو جاتا ہے۔ یوں تو سارا سال زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کی ایک بہت بڑی اکثریت اس ماہ مقدس میں زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کرتی نظر آتی ہے اور یوں ماہ رمضان المبارک میں یہاں تک کہ نماز عیدالفطر سے قبل تک مالیاتی اعتبار سے فطری نمو، دولت کی ریل پیل کے باعث معاشی نمو میں بابرکت اضافہ اور گردش زر کی رفتار تیز سے تیز تر ہو کر معیشت کو جمود سے نکال باہر کرتی ہے۔
پاکستان میں فطرانے کی رقم فی کس 220 سے 240 روپے اور دیگر اشیا کے مطابق اس میں مزید اضافہ کرکے فطرانے کی رقم ادا کی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق عموماً بعض غریب افراد کی بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح فطرے کی رقم ادا کر دیں۔ یوں کہا جاتا ہے کہ آبادی کے 60 تا 80 فی صد افراد فطرے کی ادائیگی کرتے ہیں۔
ہم اسے احتیاطاً 70 فی صد آبادی سمجھ لیتے ہیں جس کے باعث اندازہ ہے کہ تقریباً 60 ارب سے 80 ارب روپے بطور فطرانہ ادا کیا گیا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے یہ رقم جب مستحقین تک پہنچی ہوگی تو وہ سارا کا سارا خرچ ہو گیا ہوگا۔ کیونکہ اس سے قبل وہ اپنی ضروریات پر خرچ نہ کر سکے اور اب جب ان کی جیب میں کچھ پیسے آگئے ہیں تو وہ رقم گردش زر میں تیزی لے کر آتی ہے۔پاکستان کا شمار ان اسلامی ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال مجموعی طور پر کھربوں روپے کئی اقسام کے مذہبی اور دینی اسلامی فرائض اور جوش و جذبے کے تحت غربا، مساکین، مستحقین، ضرورت مند اقربا، یتیموں، بیواؤں، معذور افراد، بوڑھے افراد، مالی طور پرکمزور خاندانوں اور دیگر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
جہاں تک زکوٰۃ کی کل مجموعی رقم کی ادائیگی کا تعلق ہے اس بارے میں اندازہ لگانا بھی نہیں چاہیے، کیونکہ اس کی مقدار کا قطعاً کوئی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ سرکار بینکوں کے ذریعے جو رقم اکٹھی کرتی ہے اس کی مقدار انتہائی قلیل ہے کیونکہ عوام کا اس سلسلے میں زکوٰۃ کی تقسیم کے بارے میں حکومتی نظام پر اعتبار نہیں ہے، لہٰذا لوگ اپنے طور پر زکوٰۃ دیتے ہیں۔ صدقات خیرات کرتے ہیں، راشن بیگز تقسیم کرتے ہیں۔ ایک راشن بیگ میں 5 سے 8 یا 10 ہزار روپے تک بھی اشیا ہوتی ہیں۔
ایسے ملک بھر میں لاکھوں پیکٹ اور بوریوں کی شکل میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پھر کپڑے بھی تقسیم ہوتے ہیں ان میں سلے اور ان سلے بھی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نقد رقم تقسیم کی جاتی ہے، اس میں ہر مستحق اپنے طور پر اپنے زیورات اور دیگر آمدن جمع پونجی اور بہت سی باتوں کا خیال کرکے زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے اور اس ماہ مقدس میں صدقات، خیرات بھی کرتا ہے۔ یہ مجموعی رقم مل کر ملک کے غریب عوام کی جیب میں جب چلی جاتی ہے تو اس کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں اور وہ یہ رقم جب خرچ کرتا ہے تو زر کی گردش تیزی سے بڑھ جاتی ہے اور امیر کے ساتھ ساتھ غریب کی بھی عید کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔