یوکرینی صدر اور امریکی صدر و نائب صدر کے درمیان اوول آفس میں جو کچھ ہوا ہم سب نے دیکھا۔ اس کے بعد ہم نے لندن میں یورپ کو یوکرین کے لیے متحد بھی دیکھا ہے۔ یورپ کے تمام ممالک نے یوکرین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد کبھی بھی یورپ کو دفاع کے لیے کچھ کرنا ہی نہیں پڑا۔ نیٹو کے بعد دفاع کی تمام ذمے داری امریکا نے اٹھا لی۔ لیکن اب امریکا یورپ کے دفاع کی ذمے داری اٹھانے سے انکار کر رہا ہے۔ امریکا یورپ کے دفاع پر پیسے لگانے کو تیار نہیں۔ ایسے میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ یورپ کو اپنے دفاع کی فکر بھی پڑ گئی ہے ۔
یہ سب صورتحال اپنی جگہ۔ ہم سب اس کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ یورپ اپنے دفاع کے لیے کیا فیصلے کرتا ہے۔ یہ اگلے چند دنوں میں پتہ بھی چل جائے گا۔ امریکا کے بغیر یورپ کیسے چلے گا۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔ لیکن ابھی بات یوکرین کی ہے۔ پاکستان اس بات کو دیکھ چکا ہے۔ 1971کی جنگ میں ہم نے بھی دیکھا تھا کہ اپنی جنگ آپ کو خود ہی لڑنی پڑتی ہے کوئی آپ کی مدد کو نہیں آتا ہے۔ ہم بھی ساتویں جنگی بیڑے کے انتظار میں دو لخت ہو گئے تھے۔ اس لیے بیرونی امداد پر جنگ لڑنا کوئی آسان نہیں۔ دوست کبھی بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، ہر ملک اپنے مفادکے تابع ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کا ساتھ کسی بھی وقت چھوڑ سکتا ہے۔ یوکرین کو بھی اس وقت ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
ہمیں یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ 2014میں یوکرین دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت تھا۔ اس کے پاس بڑے ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ ان ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں یوکرین کا دفاع ناقابل تسخیر تھا۔ آج جو یوکرین اپنے دفاع کے لیے دنیا کے بڑے ممالک کے آگے بھیک مانگ رہا ہے۔
جب یوکرین کو آزادی ملی تو یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ تھا۔ آج جس یوکرین کے ساتھ دنیا ہتک آمیز سلوک کر رہی تھی اسی یوکرین کے پاس ایک نہیں دو نہیں بلکہ 1900اسٹرٹیجک وار ہیڈز موجود تھے۔ اسی کے ساتھ یوکرین کے پاس 176بین البراعظمی بیلسٹک میزائیل موجود تھے۔ 44اسٹرٹیجک بمبار بھی موجود تھے۔ اس کے ساتھ یوکرین کے پاس مزید ایٹمی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی بھی موجود تھی۔ یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔ آج بھی برطانیہ اور فرانس کے پاس اس سے کم ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایٹمی ہتھیار ہونا ہی کافی ہے، کہاں کہ آپ کے پاس دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہو۔
دنیا نے یوکرین کو اس کے دفاع کی گارنٹی دیکر اس کے ایٹمی اثاثے واپس لے لیے۔ ویسے تو یہ سب ایٹمی ہتھیار ایک معاہدہ کے ساتھ روس کو واپس کیے گئے اور وہی روس آج یوکرین پر حملہ آور ہے۔ روس نے یہ سب ایٹمی ہتھیار لیتے وقت یوکرین کو دفاع اور معاشی ایڈ کی گارنٹی دی تھی۔ کیا تب یوکرین کو اندازہ تھا کہ جس روس کو وہ اپنے تمام ایٹمی ہتھیار دے رہا ہے وہ ایک دن اس کو ختم کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے درپے ہوگا۔ لیکن یوکرین نے یہ ایٹمی اثاثے صرف روس کی گارنٹی پر ختم نہیں کیے تھے۔
امریکا، نیٹو اور پورے یورپ نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی تھی۔ آج وہی امریکا یوکرین کے دفاع سے جان چھڑا رہا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ جن ضمانتوں پر یوکرین نے اپنی ایٹمی طاقت دی تھی، وہ گارنٹیاں آج نہیں ہیں اور ایٹمی اثاثے بھی نہیں ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں جس ملک کے پاس دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہوتا اس کے صدر کے ساتھ اوول آفس میں ایسا ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک ممکن ہے۔ کیا وہ ایسی صورتحال کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس لیے آج سب کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کا ایٹمی اثاثے دینا ایک غلطی تھی۔ یہ ہمارے لیے ہی نہیں پوری دنیا کے لیے سبق ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت پر بھی بہت حملے ہو چکے ہیں۔ ہمارے کئی دوست یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہمیں بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ یہ ایٹمی طاقت ہمیں کھانے کو روٹی نہیں دے سکتی۔ ہم بم کھا تو نہیں سکتے۔ ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں ہم روز نئے میزائل کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہی پیسے ملک کی معیشت پر لگانا چاہیے۔ یہ دوست یوکرین کی مثال سامنے رکھیں اور سمجھیں کہ ناقابل تسخیر دفاع کتنا اہم ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب 1998میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکی صدر نے ان ایٹمی دھماکوں کو روکنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پانچ فون کیے تھے۔ پانچ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نے دباؤ اور پیشکش دونوں ہی مسترد کر دیے تھے اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ آج اسی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں ایک ایٹمی ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی ایٹمی طاقت کی وجہ سے اب پاک بھارت جنگ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس دوران پاکستان اور بھارت دونوں کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت نے جنگ کو روکا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ میں پاکستان کی ایٹمی طاقت کی کیوں بات کر رہا ہوں۔ اس لیے کیونکہ بھارت نے تو ہم سے کئی سال پہلے 1974میں ایٹمی دھماکا کر لیا تھا۔ پاکستان نے 1998میں کیا۔ 1998میں بھارت نے دوسرا ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ جس کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی دھماکا کرنے کا موقع ملا۔
آج دنیا کے حالات بتا رہے ہیں کہ 1998میں عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنا پاکستان کا بہترین مفاد تھا۔ آج ہم اسی وجہ سے محفوظ ہیں۔ اوول آفس میں جو ہوا وہ باقی دنیا کے لیے بھی اہم ہے۔ دنیا کے جو ممالک آج ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دنیا ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کریں۔ لیکن یوکرین کی صورتحال سبق دے رہی ہے کہ دنیا کی گارنٹی کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ نے اپنا دفاع خود ہی کرنا ہوتا ہے کوئی آپ کو اپنے دفاع کی ضمانت نہیںدے سکتا۔ کوئی بھی دفاعی معاہدہ دفاع کا ضامن نہیں۔
اوول آفس کے واقعہ کے بعد دنیا کافی حد تک بدل گئی ہے۔ یورپ میں سوچ بدل رہی ہے، یورپ اور امریکا کے درمیان فاصلے بھی نظر آرہے ہیں۔ یورپ کو بھی اپنے دفاع کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ آج امریکا ان کے دفاع کی ذمے داری بھی اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ ممالک اب اپنے دفاع پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اب پاکستان پر میزائل پروگرام پر دباؤ ہے۔ لیکن سبق یہی ہے کہ تمام تر دباؤ کو نظر اندازکرتے ہوئے میزائل پروگرام کو آگے بڑھانا ہے۔