کراچی میں گزشتہ چند ہفتوں سے ٹریفک حادثات نے نہایت سنگین صورت حال اختیار کر لی ہے۔ شہر کی سڑکیں مقتل بنی ہوئی ہیں جہاں انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح روندے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ کراچی کے عوام میں ایک بے نام سا خوف اور سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ گھر سے سفر کے لیے روانگی کا وقت بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے اور ڈر لگتا ہے کہ خدانخواستہ یہ سفرِ آخرت نہ ہوجائے۔
زندگیوں کے چراغ تند ہواؤں کے جھونکے سے بجھ رہے ہیں اور لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سلسلہ اجل کہاں جا کر رُکے گا۔ ٹریفک حادثات پہلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن کبھی کبھار مگر اب تو یہ معمول سا بن چکا ہے۔
آپ کو یاد ہو نہ ہو کہ شہر میں بشریٰ زیدی کا انتقالِ پُرملال ایک سنگین ٹریفک حادثے کے ہی نتیجے میں ہوا تھا جس سے شدید اضطراب و اشتعال پھیل گیا تھا۔ چند ماہ پہلے کارساز کے علاقے میں عمران عارف اور آمنہ عارف کی درد ناک ٹریفک حادثے میں ہلاکت ہوگئی تھی جس سے پورے شہر میں سنسنی پھیل گئی تھی اور پورا ماحول رنج و الم میں ڈوب گیا تھا۔ اِس حادثے کا خوف و ہراس ایک طویل عرصہ تک پھیلا رہا۔ لوگوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ حادثے کا شکار ہونے والوں کی حالت غیر تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بڑے لوگوں کی اولاد اور بیوی بیٹیاں بھی ٹریفک حادثات کا سبب ہوتی ہیں جو اندھا دھند ڈرائیونگ کرتی ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بس یوں کہیے کہ انھیں سات خون معاف ہوتے ہیں۔ لوگوں کے دباؤ میں آ کر حکومت نے ایک روڈ چیکنگ کمیٹی بنادی جس کا مقصد گاڑیوں کی فٹنس اور سڑک کی حفاظت کی نگرانی کرنا تھا۔ شہر میں ٹریفک کا دباؤ تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سڑکیں تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ جوں جوں لوگ امیر ہوتے جارہے ہیں توں توں گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافے پر اضافہ ہوا چلا جارہا ہے۔
اوور اسپیڈنگ اور اوور ٹیکنگ کا رجحان بھی ٹریفک حادثات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میں آگے نکل جاؤں۔ جسے بھی دیکھیے ہوا کے گھوڑے پر سوار نظر آتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار اِس میں پیش پیش ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک موٹر سائیکل پر جو ایک آدمی کی سواری کے لیے بنی ہے اس پر گھر کا پورا خاندان سوار ہوتا ہے۔ شوہر، بیوی اور دو تین بچے۔ سڑکوں کا بہت بُرا حال ہے اور جگہ جگہ کھڈے پڑے ہوئے ہیں۔ ذرا سی بھول چُوک کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
ہیوی ٹریفک حادثات کا سب سے بڑا سبب ہے جس میں ٹرک اور ڈمپر ڈرائیور سرِ فہرست ہیں۔ ڈمپر کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ ڈرائیور کی سیٹ سے دائیں بائیں یا نیچے کی طرف کچھ نظر نہیں آتا۔ بعض ڈرائیور نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی کوتاہی بھی حادثات پر کنٹرول کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹریفک کے قوانین تو موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ اُن پر عمل درآمد کا ہے۔ کراچی کو ایک سٹیزن ٹریفک لائی زون کمیٹی کی اشد ضرورت ہے جو سول سوسائٹی کے ممبران اور ماہرینِ ٹریفک پر مشتمل ہو۔