عطیہ، خیرات، زکوٰۃ، صدقہ اور کسی بھی کسم کی مالی مدد، ان سب کا معاشرے کی تعمیر میں ایک کردار ہے۔ ضرورت مند افراد اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی، اپنے مال کو پاک کرنے، ضرورت مندوں کا احساس کرنے اور دوسروں کی خوشی اور غمی میں ساتھ دینے کےلیے ہر سال کثیر تعداد میں عطیات دیتے ہیں۔
ان عطیات کا درست استعمال جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ایک ضرورت مند کے ساتھ بیسیوں پیشہ ور اور عادی منگتے آگے بڑھ آتے ہیں اور بسا اوقات تو اصل ضرورت مند خالی ہاتھ رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے عطیہ کرنے والی کی امداد حقدار تک نہیں پہنچ پاتی۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کےلیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ عبادات، صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کرنے کا مہینہ ہے۔ اسی جذبے کے تحت حکومت، نجی ادارے، تنظیمیں، فلاحی ادارے اور انفرادی حیثیت میں کئی شخصیات مستحق افراد تک راشن پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر سال رمضان میں لاکھوں خاندان ایسے ہوتے ہیں جو ان امدادی پیکجز پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں یتیم بھی شامل ہوتے ہیں، بیوائیں بھی، معذور بھی، مریض بھی اور ایسے افراد بھی جن کا کمانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرسکیں۔
تاہم، اس عمل میں کئی مسائل اور چیلنجز درپیش ہوتے ہیں جنہیں حل کرنا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ ان چیلنجز کو حل کیے بنا نہ تو ان صدقات و عطیات کا اثر معاشرے میں ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہ ضرورت مندوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
حکومتی سطح پر راشن کی تقسیم ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ اگرچہ یونین کونسل سطح تک شفافیت یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے ضرورت مند افراد محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں، جن میں انتظامی نااہلی، بدعنوانی، مستحقین کی درست نشاندہی کا فقدان اور سیاسی مداخلت شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے راشن تقسیم کے مختلف منصوبے متعارف کرائے جاتے ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہونے کی وجہ سے ہر ضرورت مند تک رسائی ممکن نہیں ہوپاتی۔
اس کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ ضرورت مند افراد کی نشاندہی ہے۔ کچھ سال سے حکومت ڈیٹا بیس مرتب کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس میں بھی غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کئی ضرورت مند افراد رہ جاتے ہیں اور اسی وقت ایسے افراد ڈیٹا بیس میں شامل ہو کر امداد حاصل کرلیتے ہیں جن کا گزارز پہلے ہی بہتر ہو رہا ہے۔
مختلف نجی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی رمضان کے مہینے میں راشن تقسیم میں شامل ہوتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ راشن پیکیجز حقیقی مستحقین تک پہنچیں۔ ان تنظیموں کی جانب سے عموماً مخیر حضرات کی دی گئی زکوٰۃ، صدقات اور فلاحی فنڈز سے راشن خریدا جاتا ہے اور اسے مستحقین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان تنظیموں کے رضا کار زمینی سطح پر کام کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی نشاندہی کرنے کےلیے سروے بھی کرتے ہیں۔ یہ سروے کسی حد تک شفافیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی زیادہ انحصار علاقے میں موجود رضاکار پر ہوتا ہے۔ اور بات نیت پر آ کر رک جاتی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں لوگ خیرات اور عطیات دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ رمضان میں یہ رجحان مزید بڑھ جاتا ہے، اور مخیر حضرات لاکھوں روپے زکوٰۃ، فطرانہ اور صدقات کی صورت میں دیتے ہیں تاکہ یہ مستحق افراد تک پہنچ سکے۔
تاہم، اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ راشن لینے والوں کے کردار کا بھی ہے۔ کچھ حقیقی ضرورت مند ایسے ہوتے ہیں جو مانگنے سے کتراتے ہیں اور ان کی عزت نفس آڑے آتی ہے۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کا سامنا کرتے ہیں اور دوسروں کے سامنے دست دراز کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ افراد پیشہ ور بھکاریوں کی طرح نہ صرف ہر جگہ سے راشن وصول کرتے ہیں بلکہ اپنے حق سے زیادہ حاصل کرکے دیگر ضرورت مندوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
راشن کی غیر منصفانہ تقسیم کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہی گھر کے کئی افراد الگ الگ راشن حاصل کرنے کےلیے رجسٹریشن کروا لیتے ہیں، جبکہ بعض خاندانوں کو کچھ بھی نہیں مل پاتا۔ اس مسئلے کے حل کےلیے راشن تقسیم کرنے والے اداروں کو بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ ہر خاندان کےلیے ایک کوٹہ مقرر کیا جانا چاہیے تاکہ راشن کی مساوی تقسیم یقینی بنائی جاسکے۔ اس کے علاوہ، ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک جامع ڈیٹا بیس مرتب کیا جانا چاہیے، جس میں مستحق خاندانوں کی معلومات درج ہوں تاکہ وہ کسی بھی اضافی رجسٹریشن کے بغیر براہ راست راشن حاصل کرسکیں۔
ایک اور اہم مسئلہ جعلی مستحقین اور جعلسازی کا ہے۔ بعض افراد ایسے بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو اپنی مالی حیثیت بہتر ہونے کے باوجود راشن کے حصول کےلیے قطاروں میں لگ جاتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ راشن لے کر اسے بازار میں فروخت بھی کر دیتے ہیں۔ اس طرح اصل ضرورت مند افراد کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے نہ صرف سخت جانچ پڑتال کا نظام ضروری ہے بلکہ عوامی آگاہی مہمات بھی چلائی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں میں احساس ذمے داری پیدا کیا جاسکے۔
اس ضمن میں یہ تجویز دی جاسکتی ہے کہ راشن کی تقسیم کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ جیسے کہ بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے مستحقین کی نشاندہی کی جائے تاکہ جعلسازی کے امکانات کم ہو سکیں۔ اس کے علاوہ، راشن کارڈ کا اجرا کیا جا سکتا ہے جو صرف مستحق افراد کو جاری کیے جائیں تاکہ وہ باآسانی اپنے قریبی مرکز سے راشن حاصل کرسکیں۔
مخیر حضرات کو بھی اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے اور اپنی زکوٰۃ اور صدقات صرف ان افراد کو دینے چاہئیں جو واقعی مستحق ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بغیر تحقیق کیے کسی بھی جگہ عطیات دے دیتے ہیں، جس کا غلط استعمال ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر مخیر حضرات خود مستحقین تک راشن پہنچانے کا اہتمام کریں یا کسی مستند فلاحی تنظیم کے ذریعے امداد دیں تو اس کے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے مقامی کمیونٹی کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ ہر علاقے میں بسنے والے افراد ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور بہتر طریقے سے شناخت کر سکتے ہیں کہ کون واقعی مستحق ہے اور کون نہیں۔ اگر ہر محلے یا علاقے میں کمیٹیاں بنا دی جائیں جو مستحق خاندانوں کی نشاندہی کریں تو یہ عمل مزید شفاف اور موثر ہو سکتا ہے۔
رمضان میں راشن کی تقسیم میں ایک اور بڑا چیلنج مناسب منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ راشن تقسیم کے دوران بدنظمی پیدا ہوجاتی ہے۔ لمبی قطاریں، رش، دھکم پیل اور بعض اوقات بدنظمی کے باعث حادثات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ راشن تقسیم کو مختلف دنوں میں تقسیم کیا جائے، اور ایسے مراکز قائم کیے جائیں جہاں باآسانی اور منظم انداز میں راشن کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
ایک اور تجویز یہ دی جا سکتی ہے کہ ضرورت مندوں کو راشن کے بجائے کیش یا واؤچرز دیے جائیں، تاکہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق اشیاء خرید سکیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو راشن تقسیم کیا جاتا ہے، اس میں شامل کچھ اشیاء کسی کے استعمال میں نہیں آتیں، جبکہ کچھ افراد کو مخصوص اشیاء کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورت میں واؤچرز زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
حکومت کو بھی اس حوالے سے مزید بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سال رمضان میں راشن کے مسائل سامنے آتے ہیں، لیکن ان کے دیرپا حل پر کام نہیں کیا جاتا۔ اگر حکومت ایک مستقل اور موثر پالیسی مرتب کرے، جس میں شفافیت، مساوی تقسیم، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور نگرانی شامل ہو، تو راشن تقسیم کے عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر رمضان میں راشن کی تقسیم ایک نیک عمل ہے، لیکن اس میں موجود خامیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ اصل مستحقین تک امداد پہنچ سکے۔ شفافیت، بہتر منصوبہ بندی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، کمیونٹی کی شمولیت اور مخیر حضرات کی جانب سے ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنے سے اس عمل کو زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔
آپ اپنے تئیں کسی بھی فلاحی ادارے کی بہت آسانی سے تصدیق کرسکتے ہیں کہ آیا وہ آپ کے عطیات کا حقدار ہے یا نہیں۔ اس ادارے کی تصدیق کے لیے اس کی ویب سائٹ پر جائیں۔ اس کے منصوبوں کی تفصیل دیکھیے اور جتنا ممکن ہوسکے عملی طور پر اس کے منصوبے زمینی سطح پر دیکھیں کہ آیا ویب سائیٹ کی تفصیل درست ہے یا نہیں۔ اسی طرح آپ کسی بھی تنظیم کی تصدیق آسانی سے کرکے اس کو اپنے عطیات دے سکتے ہیں۔
اپنے عطیات کا درست استعمال آپ پر منحصر ہے کہ آپ کے عطیات کیا واقعی حقدار تک پہنچ رہے ہیں یا پھر ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔