1

اسٹیڈیم نہ توڑیں، شائقین کے دل جوڑیں

چیئرمین پی سی بی کی کرسی ہی اتنی پاورفل ہے کہ لوگ کسی کی نہیں سنتے نقوی صاحب تو تازہ تازہ سی ایم رہ چکے ہیں۔ فوٹو: پی ایس ایل

چیئرمین پی سی بی کی کرسی ہی اتنی پاورفل ہے کہ لوگ کسی کی نہیں سنتے نقوی صاحب تو تازہ تازہ سی ایم رہ چکے ہیں۔ فوٹو: پی ایس ایل

’’آپ کے کراچی میں لوگ میچ دیکھنے اسٹیڈیم کیوں نہیں آتے‘‘

جب عبدالرحمان رضا نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کس نے کہا لوگ نہیں آتے ، آپ تو دبئی سے آ گئے ہیں، یہ سن کر وہ کہنے لگے کہ ’’میں تو صحافی ہوں کوریج کیلیے آ گیا،عام شائق ٹکٹ خرید کر کیوں نہیں آتے‘‘؟

ان کی سنجیدگی دیکھ کر میں نے بھی انداز تبدیل کیا اور کہا کہ یہ آج کل ’’ٹاک آف دا ٹاؤن‘‘ ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک مثال سامنے رکھتے ہیں،فرض کریں آپ نیو کراچی میں رہتے ہیں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ میچ دیکھنے آئیں،میاں بیوی، تین بچے،5افراد کا عام سا ٹکٹ بھی 6سے7 ہزار روپے کا آئے گا۔

اپنی گاڑی میں آئے تو پارکنگ تلاش کرنے میں ہی میچ کی ایک اننگز ختم ہو جائے گی، اگر رکشے، ٹیکسی میں آئے تو2،3 ہزار مزید خرچ،پھر گندے واش رومز استعمال کرتے ہوئے آپ خود کو کوسیں گے کہ کس لمحے اسٹیڈیم آنے کا فیصلہ کیا،اس کے بعد کھانے کا مرحلہ آئے گا تو باہر سے کچھ لانے کی اجازت نہیں ہوتی، اسٹیڈیم میں عام برگر بھی 700 سے ایک ہزار روپے کا ملے گا، یوں سب ملا کر ایک میچ پر15 سے20 ہزار روپے خرچ ہو گئے، اس کے بعد جب اسٹینڈ میں بیٹھیں گے تو کہیں پلر تو کہیں کسی اور وجہ سے ویو بلاک ہو گا، کون کھیل رہا ہے کیا ہو رہا ہے جاننے میں وقت لگ جائے گا،اس کے بعد آپ کو اس بات کا بھی عادی ہونا پڑے گا کہ 3،4 بار تلاشی لی جائے گی۔

اب ایک عام آدمی اتنے پیسے کیسے خرچ کرے؟ اور اگر کر بھی لیے تو اسے بدلے میں مل کیا رہا ہے؟ یہ سن کر عبدالرحمان رضا نے کہا کہ اس کا حل کیا ہے،میں نے جواب میں انھیں شٹل بس، پارکنگ کے مناسب ایریاز،صاف واش رومز، کھانے پینے کی معیاری اشیا کی مناسب قیمت پر فراہمی، میدان کا کلیئر ویو، مناسب ٹکٹ پرائس وغیرہ کا کہا۔ یہ سب کر وہ کہنے لگے یہ سب کام تو آسانی سے ہو سکتے ہیں تو پی سی بی کرتا کیوں نہیں، میرا جواب تھا کہ کوئی پی ایس ایل کی اونر شپ ہی لینے کو تیار نہیں ایسے میں یہ سب متوقع تھا، ویسے اگر دیکھا جائے تو ٹکٹوں کی فروخت نہ ہونے سے بورڈ کو کوئی فرق نہیں پڑتا،95 فیصد آمدنی تو فرنچائزز کو ملنی ہے وہی گھاٹے میں رہیں گی۔

کراچی میں زیادہ شائقین کے نہ آنے کی ایک وجہ میزبان ٹیم سے شائقین کا اٹیچ نہ ہونا بھی ہے، یہ افسوس کی بات ہے کہ کراچی کنگز نے بطور برانڈ خود کو شہر کے ساتھ منسلک نہیں کیا، قلندرز کی اونر شپ لاہوری لیتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسٹیڈیم بھر دیں، گوکہ اس سال ہر میچ میں ایسا نہ ہوا لیکن پھر بھی کراچی جیسا حال نہ تھا،کنگز کا بیشتر دیگر فرنچائزز کی طرح یہ مسئلہ ہے کہ لیگ کے بعد 11 ماہ تک کچھ نہیں کرنا،آپ کواگر شائقین کے دل میں گھر کرنا ہے تو پورے سال متحرک رہنا پڑے گا،حال ہی میں کراچی کنگز کے ٹی وی چینل ہوسٹ فخرعالم کی وسیم اکرم کے ساتھ ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہ ٹریفک کی وجہ سے اسٹیڈیم میں داخل نہ ہونے کا بتاتے ہوئے اسی کو خالی اسٹیڈیم کی وجہ قرار دے رہے تھے۔

حالیہ ایونٹ کے نیشنل اسٹیڈیم پر پہلے میچ میں واقعی روڈ پر بہت رش تھا،اب تو کافی عرصے سے اسٹیڈیم کے سامنے والے روڈ کو عام ٹریفک کیلیے بند نہیں کیا جا رہا، اسٹیڈیم جانے والے لوگ کم لیکن دفتر سے گھر واپس جانے والے عام افراد زیادہ تھے،البتہ 20،25 منٹ کے دوران میں اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو گیا تھا۔

اتوار کو تو چھٹی کی وجہ سے اسٹیڈیم کے سامنے والی سڑک پر بہت کم ٹریفک تھا پھر بھی اسٹیڈیم نہیں بھرا، لاہور میں تو قذافی اسٹیڈیم کا ایریا بالکل ہی الگ ہے،لوگ لبرٹی چوک سے پیدل اسٹیڈیم آتے ہیں، ٹریفک والی لاجک کو دیکھیں تو اسٹیڈیم بالکل خالی ہونا چاہیے، ویسے میں نے معلوم کیا ہے کہ کراچی میں ابتدائی میچز کے 10فیصد ٹکٹ بھی فروخت نہیں ہوئے لہذا یہ نہیں کہا جا سکا کہ لوگ اندر نہ آنے کا موقع نہ ملنے پر واپس چلے گئے، پی سی بی کو بھی پی ایس ایل کو’’ فار گرانٹڈ‘‘ لینا بند کر دینا چاہیے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ غیرملکی کرکٹرز کی آمد،کراؤڈ اور انتظامی معاملات کو دیکھا جائے تو یہ اب تک تاریخ کی سب سے کمزور لیگ ثابت ہوئی ہے، امید ہے اگلے میچز میں کچھ بہتری نظر آئے گی، قذافی اسٹیڈیم میں جب معاملات ٹھیک ہونا شروع ہوئے تو میچز ہی ختم ہو گئے، جس بقراط نے شیڈول بنایا اسے اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہیے، اگر کراچی سے آغاز کر کے ایونٹ لاہور لے جاتے توشاید کچھ ٹیمپو بنتا، اتنے سارے میچز ایک ساتھ نیشنل اسٹیڈیم میں رکھ دیے جہاں روایتی طور پر اب زیادہ کراؤڈ نہیں آتا، خالی اسٹیڈیمز ایونٹ کی ساکھ کیلیے نقصان دہ ہیں، محسن نقوی کو اب تک اس وجہ سے رعایت دی جا رہی تھی کہ وہ بطور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب مصروف رہے۔

اب چند روز کی چھٹیاں گذار کر واپس آ چکے ہیں تو معاملات کو دیکھیں، گاڑی سے جھنڈا بھی اتر چکا لہذا اسٹاف و دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں،پنجاب حکومت سے اپنی مرضی کی ٹیم لے آئے تو ان لوگوں سے کام بھی لیں، اسٹیڈیم بنانا کوئی مشکل بات نہیں بس اکاؤنٹ میں اربوں روپے ہونے چاہیئں جو کہ پی سی بی کے پاس ہیں، محسن نقوی توڑ پھوڑ ضرور کروائیں، شائقین کی تعداد بھی بڑھائیں لیکن پہلے یہ سوچیں کہ جب 30 ہزار افراد بھی نہیں آتے تو 50 ہزار کی گنجائش بنانے کا کیا فائدہ ہوگا؟ میرا ان کو یہی مشورہ ہے کہ اسٹیڈیم نہ توڑیں، شائقین کے دل جوڑیں،فی الحال ملکی میدانوں میں کراؤڈ کے نہ آنے کی وجوہات معلوم کریں۔

اتنی گنجائش کے ساتھ ہی شائقین کے مسائل حل کریں اور انھیں سہولتیں دیں، پھر جب منفی تاثر زائل ہو جائیں گے تو ضرور اربوں روپے خرچ کر کے گنجائش بڑھوا لیجیے گا،خیر چیئرمین پی سی بی کی کرسی ہی اتنی پاورفل ہے کہ لوگ کسی کی نہیں سنتے نقوی صاحب تو تازہ تازہ سی ایم رہ چکے ہیں وہ کہاں ان باتوں کو اہمیت دیں گے، فی الحال اگر آپ عام شائق  ہیں اور گھر پر آرام سے اچھا کھانا کھاتے ہوئے ٹی وی پر میچ دیکھ رہے ہیں تو یقین مانیے آپ کا یہ فیصلہ غلط نہیں ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں