1

ایک خواہش – ایکسپریس اردو

آج ہمیں اپنی ایک پرانی اور بڑی حد تک دبی ہوئی خواہش یا حسرت نے بہت زیادہ ستانا شروع کیاہے۔ یہ خواہش یا حسرت یا تمنا یہ ہے کہ کاش ہم لاہور میں نہ سہی پنجاب میں پیدا ہوتے ‘ یہ کوئی آج کل کی بات اور تمنا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ’’گھاؤ‘‘ ہمارے دل میں ہے۔

اس زمانے کا جب ہم نے پہلی باریہ ضرب المثل سنی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا ‘وہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔جنے لہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں ‘‘ اب بھلا کون یہ پسند کرے گا کہ وہ یونہی بغیر پیدا ہوئے اس دنیا میں رہنے کا بھاڑ جھونکے چنانچہ ہم زندہ ہوکر بھی شرمندہ رہے۔ہے نا شرمندگی والی بات کہ آدمی بغیر پیدا ہوئے زندہ رہے۔

چنانچہ ہم نے بھی تہیہ کرلیا کہ ایک دن لاہور جاکر پیدا ضرور ہوں گے، بھلا پیدا ہوئے بغیر بھی زندگی کوئی زندگی ہے اور اس غرض کے لیے ہم کئی بار لاہور گئے بلکہ بار بار جاتے رہے کہ اپنی پیدائش کو مستند اور رجسٹر کرائیں اور اکثر سوچتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم لاہورمیں پیدا ہوتے بلکہ لاہور کو دیکھ دیکھ کر ہر روز پیدا ہوتے۔لیکن بزرگوں نے کہا ہے کہ نہ تو پیدا ہو نا انسان کے بس میں ہے نہ پیدا کرنے والوں یعنی والدین کے بس میں اور نہ ہی پسندیدہ جائے پیدائش یعنی جنم بھومی میں پیدا ہونا انسان کے بس میں ہے ؎

نحیف و زار میں کیا زور باغباں سے چلے

جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح

لیکن ہم نے تہیہ کرلیا کہ ہم شجر نہیں۔ باغبان نے جو کرنا تھا وہ کردیا ہے۔لیکن ہم اتنے بھی’’شجر‘‘ نہیں۔ لیکن افسوس۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت اچھے بھلے جاکر لاہور میں پیدا ہوجاتے۔ لیکن جیسے ہی اٹک پار کرتے پھر ’’ناپید‘‘ ہوجاتے تھے، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ایسا کئی کئی بار کرنے کے بعد بھی جب ہماری پیدائش لاہور تک ہی محدود رہی اور ہمارے ساتھ کسی بھی طرح اٹک پار آنے کو تیار نہیں ہوئی تب ہم نے جانا لاہور والے کہتے تو ٹھیک ہیں۔کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔لیکن لاہور میں صرف لاہوری ہی مستقل ’’پیدا‘‘ہوا کرتے ہیں اور آوٹ سائیڈر لوگ جب تک لاہور میں رہتے ہیں ’’پیدا‘‘ رہتے ہیں لیکن جیسے ہی باہر نکلتے ہیں ہم جیسے ناپید ہوجاتے ہیں۔

تب ہم نے سوچا کہ چلو دنیا میں ہزاروں لوگ پیدا ہوکر بھی ناپید رہتے ہیں اور زندہ ہوکر بھی مردہ رہتے ہیں ان میں ایک ہم بھی سہی اگرچہ ہم نے اپنی اس حسرت اس تمنا اور اس آرزو کو تھپک تھپک کر سلادیا تھا اور بغیر پیدائش ہی زندہ رہنا قبول کرلیا۔گرچہ زندہ رہ کر بھی ہم شرمندہ رہے اور یہ گھاؤ آہستہ آہستہ مندمل ہوگیا تھا۔البتہ کبھی کبھی کاش کاش کاش کرلیتے تھے ؎

گھٹی گھٹی سی تمنا لٹی لٹی سی حیات

ہم اس کے بعد بھی جیتے ہیں آؤ ہم سے ملو

لیکن جب سے محترمہ مریم نواز تحت لاہور پر جلوہ گر ہوئی ہیں اس پرانے زخم میں رہ رہ کر درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں مزید بدقسمتی یہ ہے کہ آج کل پیٹرول اور گیس نے بھی راستے میں بہت اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں ورنہ کم ازکم جاکر عارضی طور پر تو لاہور میں رہا جا سکتا ہے۔

اوپر سے پنجاب حکومت نے قسم کھا رکھی کہ روز کوئی نہ کوئی ایسا اعلان بلکہ مژدہ جان افزا سنانا ہے کہ ہمیں اپنی محرومی کا احساس اور بھی شدت سے ہونے لگتا ہے ان اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت نے شاید یہ تہیہ کرلیا ہے کہ وہ پنجاب اور لاہور کو ایسا بنا دیا جائے گا کہ ہر کوئی پنجاب اور لاہور میں پیدا ہونے کی خواہش کرے گا اور یہ یقین ہمیں اس لیے کہ ہمیں یہ اچھی طرح علم اور پورا یقین ہے کہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ اپنے وعدے پورے کر دکھائیں گی۔ایک زمانے میں جب باچاخان پر انگریزی حکومت کا ظلم بہت بڑھ گیا۔قید وبند کے علاوہ زد وکوب میں ان کی پسلیاں توڑ دی گئیں۔تو ان دنوں ایک ٹپہ بہت زیادہ پاپولر ہوگیا تھا ؎

کہ د زلمو نہ پورہ نہ شوہ

فخرافغانہ جینکی بہ دے گٹینہ

ترجمہ۔’’اگرجوانوں‘‘ سے جدوجہد آزادی کا پورا نہ ہوا تو اے فخرافغان ہم لڑکیاں تجھے جیت کر دکھائیں گی۔ویسے بھی تاریخ میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ جو کام مردوں سے نہیں ہوئے تھے وہ عورتوں نے کر دکھائے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خواتین کوعوام کے مصائب کا زیادہ احساس ہوتا ہے دوسرے یہ کہ خواتین دماغ کے ساتھ ساتھ دل سے بھی کام لیتی ہیں اور جہاں دل و دماغ دونوں سے کام لیا جاتا ہے وہاں کامیابی یقینی ہوتی ہے کیونکہ دلوں کو دلوں سے فتح کیا جاسکتا ہے‘ دماغوں سے نہیں۔

اور ایک ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہم نے سرکاری اداروں میں خواتین کو کم کرپٹ پایا ہے، جن جن پوسٹوں پر مردوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کررکھے ہوئے ہیں وہاں خواتین نے ہمیشہ دیانت اور امانت سے کام کر دکھایا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں