1

اے امتِ مسلمہ۔۔۔۔! ؛ مسجد الاقصیٰ کی پُکار

مسجد اقصی اور سرزمین بیت المقدس سے مسلمانوں کا بہت گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔

بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لیے عقیدتوں کا مرکز رہی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بقعہ ان بے شمار انبیائے کرام ؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم ﷺ سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم ﷺ کا پہلا قبلہ یہی ہے۔

خانہ کعبہ سے پہلے آپؐ اسی طرف اپنا روئے مبارک کرکے اﷲ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کرکے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا برا بن عازبؓ بیان کرتے ہیں، مفہوم: ’’ہم نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھیں، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم، صحیح البخاری)

لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی، مفہوم: ’’ہم آپ (ﷺ) کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم آپ (ﷺ) کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجیے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے۔

حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبویؐ میں؟ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘ (صحیح الترغیب) چوں کہ مسجد نبویؐ میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہذا مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب 250  نمازوں کے ثواب کے برابر ہُوا۔

سیدنا ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مسجد الحرام، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصی کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ (رواہ البخاری و مسلم)

سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد اقصی کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اور مسجد اقصی نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عن قریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لیے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہوگی۔‘‘ (صحیح الترغیب)

بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اﷲ کے برابر کا ثواب ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الّا یہ کہ بہ طور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟

نبی کریم ﷺ نے جواب دیا: ’’یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ)

بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارض شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے ، بیت المقدس ارض شام کا ہی علاقہ ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’اے اﷲ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔‘‘ (البخاری)

مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے ، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے، معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔

جب حضرت ابوعبیدہ عامر بن الجراحؓ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کرلیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروقؓ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ جب سیدنا عمر بن خطابؓ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان)

فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری) مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88  سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے سنہ 583 ہجری میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کرا لیا۔

عربوں اور مسلمانوں کے دور حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی اور استحکام اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔ امت مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اﷲ تعالی کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امت مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی اور ہر قسم کے کفر اور یہودی تسلط سے پاک رکھتی لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے۔

یہودی ظالم انہیں ہر طرح کے ہتھیاروں سے روند رہے ہیں، بچوں کو قتل کر رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، مسجد اقصی کی حرمت پامال کی جارہی ہے، یہ سب حالات تمام مسلمان راہ نماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہوکر متفق و متحد ہوجائیں، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے۔

اگر ہم سچے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں جیسا اﷲ کے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

یااﷲ! مسجد اقصی کو ظالموں، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما، فلسطینی مسلمانوں کے ضعف اور کم زوری کو ختم فرما، انہیں قوت عطا فرما، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما۔ آمین





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں