1

برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کی ضرورت

معاشی شرح نمو ایک ایسا عمل ہے کہ ہر ملک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جلد ازجلد معاشی ترقی حاصل کرے۔

پاکستان نے معاشی ترقی کو حاصل کرتے کرتے بڑی قربانی پاکستانی عوام سے حاصل کر لی، کیونکہ معاشی ترقی کے حصول کی کوشش میں افراط زر میں شدید اضافہ ہوا اور اس افراط زر نے غریب اور امیر میں فرق پیدا کردیا۔ مہنگائی نے برآمدات میں کمی کر دی۔

گزشتہ 40 برسوں سے ملک میں نئے صنعتی یونٹس کے قیام میں کمی نے ملک کو درآمدی ملک میں تبدیل کردیا۔ اشیائے صرف کی پیداوار میں کمی ہونے لگی۔ اشیائے تعیشات کی مانگ بڑھنے لگی جس سے درآمدات میں اضافہ ہوا اور تیزی کے ساتھ اربوں ڈالر خرچ ہونے لگے۔

ملک میں روپے پر زبردست دباؤ پڑا اور وہ جلد از جلد اپنی قدرکھونے لگا، نتیجے میں روپیہ کمزور ہوا۔ لوگوں کی مالی حالت کمزور سے کمزور تر ہونے لگی اور غربت اور امارت کا فرق بڑھا۔ کروڑوں افراد غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ افراط زر کی شرح 30 فی صد سے زائد جا پہنچی۔

عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال شرح مہنگائی 26 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ بینک کے مطابق اگلے تین سال پاکستان کی شرح نمو تین فی صد سے کم رہنے کا امکان ہے جب کہ رواں مالی سال کے لیے شرح نمو 1.8 فی صد رہنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے تمام جائز ناجائز مطالبات ماننے کے نتیجے میں افراط زر بڑھ رہا ہے اور شرح نمو میں کمی ہو رہی ہے۔ گیس کی قیمت بار بار بڑھانے کے باوجود پھر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ ادھر وزیر اعظم نے کہا ہے کہ 5 سالوں میں ملکی برآمدات دگنی کردی جائے۔

جب ملکی برآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا کیونکہ قیمتوں میں اضافے کے تمام عوامل پاکستان پورا کرتا چلا جائے تو ایسی صورت میں عالمی مارکیٹ میں پاکستانی اشیا کیسے مقابلہ کریں گی اور برآمدات میں دگنا اضافہ کیسے ہوگا؟ آئی ایم ایف سے قرض لینا اگر ضروری ہے تو پہلے غربت کی طرف دیکھیں اب غریبوں میں سکت نہیں رہی کہ ملکی قرضوں کا بار اٹھا سکیں۔

بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا جاتا ہے۔ قیمت میں جیسے اضافہ ہو رہا ہے اسی لحاظ سے ملک میں بجلی چوری بڑھتی جا رہی ہے۔ البتہ پنجاب کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ریکوری 100 فی صد کے قریب ہے جب کہ باقی تینوں صوبوں کی کمپنیوں کی صورت حال بدترین ہے۔ معاشی کارکردگی کسی طور پر تسلی بخش قرار نہیں دی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ تین ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں صرف 3 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

عالمی بینک اور بلوم برگ یہ دلاسا دیتے نظر آ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام سے شرح نمو میں مزید تیزی آئے گی معیشت میں استحکام آئے گا۔ یہ سب دل کے بہلاوے کی باتیں ہیں کیونکہ ہم ابھی تک اپنی منشا کے مطابق ٹھوس معاشی منصوبہ بندی نہیں کر سکے۔ اس طرف بالکل نہیں سوچ رہے کہ کس طرح مزید قرضوں کے جال سے نکلا جائے۔ صرف وقتی حل تلاش کیا جا رہا ہے جب کہ ضروری ہے کہ وقتی حل کے ساتھ مستقل حل بھی تلاش کیا جائے جس میں سب سے اول قرضوں سے جلد ازجلد چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

ہم نے معیشت کو بھی سیاست کی نذر کردیا ہے لہٰذا اس دوران وزیر اعظم کا یہ حکم قابل قدر ہے کہ وزارت تجارت کو کہا گیا ہے کہ ایسی برآمدات جو عالمی منڈی میں برآمدات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں سفارشات پیش کی جائیں۔ پاکستان اپنی کموڈیٹی برآمدات اور سروسز کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ فوری طور پر اپنی افرادی قوت کی برآمدات کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کو افرادی قوت کی سخت ترین ضرورت ہے اورکئی ملک ان کی اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر انتہائی فعال ہیں۔

مختلف ترقی پذیر ممالک کے سفارت خانے ان کے فعال سفیر اور اکنامک یا تجارتی اتاشی اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ان کے ملک کے افراد کو زیادہ سے زیادہ ان امیر، صنعتی ممالک میں کھپایا جائے تاکہ وہ یہاں سے زرمبادلہ کما کر اپنے ملکوں کو روانہ کریں۔ پاکستان میں بے روزگاری کے مسئلے کا فوری حل بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بے روزگار نوجوانوں جن کی اکثریت معمولی پڑھی لکھی ہے انھیں کسی بھی شعبے میں ٹرینڈ کرکے متعلقہ ملک کو قانونی طریقے سے بھجوایا جائے اور وہاں بھی ان کو بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے۔

ایسے افراد کسی نہ کسی طور پر متعلقہ ملک میں پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ رابطے میں رہیں، اگرچہ یہ مستقل حل تو نہیں ہے کہ ہم اپنے افراد کو بیرون ملک بھیج دیں لیکن قرض کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے ڈالرز کا خود انتظام کرلیں۔ کیونکہ قرض کا بوجھ جس طرح کا اب پہاڑ بن چکا ہے اس بوجھ کو اتارنے کے لیے پانچ سال میں دگنی برآمدات کے ساتھ ساتھ ایک سال میں دگنی ترسیلات کی ضرورت ہوگی جو اسی طرح ممکن ہے کہ ہم اپنی افرادی قوت کی بھرپور ٹریننگ کر کے ان کو بیرون ملک روزگار دلانے کی حکومتی سطح پر بھرپورکوشش کریں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں