1

دور نیا ہے تو تربیت کے ڈھب پرانے کیوں؟

اولاد کو تعلیم کے زیور سے سے آراستہ کرنا اور ان کی تربیت عمدہ ڈھب پر کرنا سارے والدین ہی کی اولین خواہش ہوتی ہے۔

اپنی  اولاد کوزندگی کے ہر موڑ پر کام یاب دیکھنا اور ان کی ہر کام یابی پر فخر محسوس کرنا ہی ان کی زندگی کا ایک اہم مقصد بن جاتا ہے گوکہ تربیت کی ذمہ داری دونوں والدین پر عائد ہوتی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں تربیت کی زیادہ یا کلی ذمہ داری ماں کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔

بچے کام یاب ہوں تو والد فخر سے کہتے ہیں آخر کو بچے کس کے ہیں؟ اور اگر ناکام ہوں تو اس کی ساری ذمہ داری والدہ پر ڈال دی جاتی ہے، کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بچوں پر توجہ نہیں دے رہیں۔

مائیں اپنے لحاظ سے بچوں کے لیے اپنا تن، من، دھن سب نچھاور کرتی ہیں، اس لیے ماؤں کے حوالے سے ہمیں اپنے رویے بھی متوازن کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ  مائیں اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو قبول بھی کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں بہرحال ماں ہوتی ہے، اور تربیت کے حوالے سے اس کا باپ سے کچھ ذمہ زیادہ ہی ہوتا ہے۔

اس لیے ماؤں کو اپنے بچوں کی صرف اچھائی برائی کی تربیت نہیں، بلکہ زندگی کی بہت سی چیزوں کے سنوارنے پر مرکوز ہونا چاہیے۔

۱) صفائی ستھرائی کا خیال

اکثر و بیش تر گھروں میں ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرنا عام عادات میں شامل ہوتا ہے، بالکل اسی طرح نہا دھو کر بھی تولیے سے جسم کوسُکھایا جاتا ہے۔ ماں کے دیکھا دیکھی بچے بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ وہ ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرتے ہیں، اسی لیے جب وہ کسی ہوٹل میں یا پھر رشتے داروں کے گھر جاتے ہیں تو وہ وہاں کھوٹی سے لٹکے ہوئے تولیے سے ہاتھ اور منہ صاف کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں انھیں جراثیم لگنے کا خطرہ ہو جاتا ہے اور وہ بیمار بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ انھیں صرف اپنے تولیے ہی کو استعمال کرنا چاہیے، وہ تولیا جو گھر میں ان کے استعمال کے لیے مخصوص ہے، نہ کہ کہیں بھی اور کسی کے بھی تولیے کو استعمال کرلیں، کیوں کہ جراثیم ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، جو کبھی بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

۲) اجازت لینا

پاکستانی معاشرہ میں بالخصوص دیہات میں اب بھی ’مشترکہ خاندانی نظام‘ رائج ہے، تو بچے اپنے رشتہ دار بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے اور ایک دوسرے کے کھلونے بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہن بھائی تو مل کر کھیلتے ہیں۔ اس لیے کتابیں، کھلونے سب مل جل کر استعمال کرتے ہیں، چیزوں کو بانٹنا ایک اچھا عمل ہے، مگر جب ایک دوسرے کی چیزیں بغیر اجازت کے استعمال کرنے کی عادت ہو جائے، تو پھر یہی رویہ کسی دوسرے گھر جا کر بھی بچے اپناتے ہیں اور بغیر اجازت کے بچوں کے کھلونوں سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھار تو اس عمل کو برداشت کرلیا جاتا ہے اور کبھی بچوں کو سرد رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہی بہتر ہے کہ بچوں کو یہ تربیت دی جائے کہ وہ بہن، بھائی اور کزن کی چیزوں کو بغیر اجازت استعمال نہ کریں، تاکہ انھیں زندگی میں دیگر مواقع پر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

۳) انکار کرنا

ہمارے معاشرہ میں تربیت کا پہلا اصول یہ ہے کہ مائیںبچوں کو سیکھاتی، سمجھاتی ہیں کہ انھیں بڑوں کی عزت کرنی ہے۔ بڑوں سے بدتمیزی نہیں کرنی، ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرنی۔ بالکل ٹھیک ہے، بڑوں کی عزت کرنا اور بچوں کو بھی یہ بات سمجھانا اور سیکھانا بہت ضروری ہے، مگر اس بات کو حد سے زیادہ بچوں کے ذہن میں بٹھانے کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی نکلے، ایسا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی بڑا آپ کے بچے کے اس ’احترام‘ اور ’فرماں برداری‘ کا بے جا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور آپ کا بچہ مروت میں آپ کے پڑھائے ہوئے سبق کہ بڑوں کی عزت کرنی چاہیے کے زیر اثر انکار نہ کر سکے اور اپنا حق محسوس کرنے میں بھی ناکام ہو جائے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے بچے کو یہ سکھائیے کہ بالفرض اگر کسی بڑے کے کام کے سبب آپ کے کسی ضروری کام کا حرج ہو رہا ہے تو آپ بہت احترام سے انھیں آگاہ کردیجیے، یقیناً وہ لاعلمی میں آپ کو کوئی کام بتا رہے ہوں گے۔ ایسا کرنا بدتمیزی نہیں۔ آپ کو بس اپنے لہجے اور انداز کا دھیان رکھنا ہے۔ بہت دھیمی آواز اور نرم لہجے میں اپنی بات اپنے بڑے تک پہنچانی ہے۔

۴) ابلاغ میں فاصلہ

ہم آج جس دور میں ہیں، وہاں سوشل میڈیا نے کسی عفریت کی طرح ہمیں جکڑ لیا ہے۔ سات، آٹھ سال کے بچوں کی رسائی بھی فیس بک تک ہوگئی ہے، اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنا اکاؤنٹ بھی بنا لیتے ہیں اور باقاعدہ پھر یہاں اپنی تصاویر اور مصروفیات وغیرہ کی تفصیلات بھی مشتہر کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے بچے ’اسکرین‘ سے قریب ہو جاتے ہیں اور ماؤں سے دور۔ ایسے میں مائیں ان کی ذہنی کشمکش یا پھر دیگر سوچ بچار کے حوالے سے لاعلم رہتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو اگر اتنی کم عمری میں آپ نے موبائل، کمپیوٹر وغیرہ تک رسائی دے دی ہے، تو اپنے بچوں کو یہ بات سمجھائیے کہ وہ انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کے حوالے سے آپ کو آگاہ رکھے، بالخصوص وہ کن لوگوں سے بات کرتا ہے، وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ ہوسکے تو کبھی ہلکے پھلکے انداز میں ان کے ساتھ مل کر کمپیوٹر پر بیٹھ جائیں، تاکہ ایک نظر بھی ڈل جائے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ساتھ میں انھیں عملی طور پر ہدایات بھی دے دی جائیں گی۔ ساتھ ساتھ اسے یہ بھی بتائیے کہ کون سی بات ’سوشل میڈیا‘ کے لیے ہوتی ہے اور کون سی نہیں۔ اور اپنی ذاتی معلومات سے گریز کرنا کس وجہ سے ضروری ہے، تاکہ کم ازکم آپ کا بچہ جب تک غلط ،صحیح کی پہچان کی عمر تک نہیں پہنچے، وہ آپ سے زیادہ قریب رہے اور آپ کو بھی اس کی ہر فعل کے بارے میں علم ہو، کیوں کہ کبھی کبھار لاعلمی وہاں لے جاتی ہے جہاں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔

۵) ہم آہنگ کرنا

آج کل مختلف خاندانی تقریبات میں مائیں بڑے فخر سے یہ بات بتا تی ہیں میرا بیٹا دال نہیں کھاتا، میری بیٹی کو سبزی پسند نہیں ہے، مجھے تو روز یہی سوچنا ہوتا ہے کہ ایسی کیا چیز پکائی جائے کہ میرے بچے شوق سے کھالیں۔ بچوں کی پسند وناپسند اپنی جگہ، اپنے گھر میں ناک بھوں چڑھا لینا، نہیں کھانا، نخرے دیکھالینا قابل قبول مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کبھی کہیں آپ کو یہی دال کھانی پڑے، تو آپ کو کھانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف سبزیاں بھی ہمارے لیے ضروری ہیں۔ صرف اپنی پسند کی چیز کھانا ہی ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی کسی دوسرے کی پسند کی چیز بھی بہ خوشی کھالینی چاہیے۔ کبھی کبھار آپ کو اپنی پسند کی چیز کسی اور کی وجہ سے چھوڑنی بھی پڑتی ہے اور یہ کوئی اتنی بری بات نہیں، بلکہ دوسرے کے دل میں جگہ بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

اگر ہم آج سے بیس، پچیس سال پیچھے چلے جائیں، تو والدین کے لیے تربیت کرنا شاید ایک آسان مرحلہ تھا، کیوں کہ وہ شاید ایسا نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ ہمارے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ نہیں تھی۔ دال، سبزی اور بہن بھائیوں کا ساتھ ہی ساری خوشیوں کا باعث ہوتا تھا، مگر آج حالات کافی بدل گئے ہیں۔ بہت سی چیزیں منظر پر کچھ یوں آگئی ہیں، جن کا سامنے آنا ایک وقت میں کافی معیوب بھی سمجھا جاتا تھا،  اس لیے آج کل ماؤں کو بھی انداز، سوچ اور رویے بدل کر تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ باتیں جنھیں بہت معمولی سمجھا جاتا ہے، آج انھیں اہم سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ زندگی میں کسی بچھتا وے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں