1

دہشت گردی کا سدباب کیسے ہو؟

گزشتہ دنوں پاکستان نے افغانستان کے اندر خفیہ اطلاع کی بنیاد پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جس میں آٹھ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق کارروائی کا ہدف افغانستان میں موجود گل بہادر گروپ کے دہشت گرد تھے جو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ایک عرصے سے دہشت گردی میں مصروف ہیں، جن کے حملوں میں اب تک سیکڑوں شہری اور فوجی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔

افغانستان کے اندر یہ حملہ بہ حالت مجبوری کرنا پڑا کیونکہ ایک دن قبل ہی شمالی وزیر ستان میں ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے ایک بڑے حملے میں دو فوجی افسر اور سات جوان شہید ہوگئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلا کر بہت بڑی غلطی کر لی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام پاکستان کو بہت مہنگا پڑا ہے۔ پاکستان شروع ہی سے امریکا کی گڈبک میں رہا ہے، اس کی طرف سے پاکستان کو مالی اور فوجی امداد کے علاوہ کئی معاملات میں حمایت بھی حاصل رہی ہے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں وہ ہمیشہ سے ہی جموں کشمیر کے عوام کے حق خود اختیاری کی حمایت کرتا رہا ہے مگر طالبان کے کابل میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ایسا ناراض ہوا کہ اس نے پاکستان کی ہر طرح کی امداد روک دی۔

ایسی ناراضگی کی وجہ سے سابق صدر ٹرمپ نے تو پاکستان کو امریکا مخالف ملک قرار دے دیا تھا۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ایک طرف امریکا پاکستان کی شروع سے امداد کرتا چلا آ رہا ہے مگر اس کے بدلے میں پاکستان نے امریکا کو سوائے دشمنی کے کچھ نہیں دیا۔ محض طالبان کی حمایت کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کے بجائے بھارت کو نوازنے کی پالیسی اختیار کی۔

اس وقت طالبان حکومت چلا رہے ہیں مگر ان کی حکومت کی کوئی ساکھ نہیں ہے، اس لیے کہ اسے ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستان نے طالبان حکومت کی مشکلات کو حل کرانے میں کافی مدد خود بھی کی ہے اور چین و خلیجی ممالک سے مدد کرائی ہے۔ حالانکہ افغان حکومت عارضی بھی ہے اور اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں بھی نہیں آتی ہے مگر اس کے باوجود پاکستان نے اس کی حتی المقدور مدد کی ہے اور یہ جاری ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان یہ چاہتا تھا کہ مغربی سرحد پر سکون رہے مگر افسوس کہ پھر پہلے جیسی صورت حال درپیش ہے۔ اب ٹی ٹی پی نے شمالی وزیرستان کو خاص طور پر ٹارگٹ کر رکھا ہے، وہ وہاں ہر دوسرے تیسرے دن پاک فوج پر حملے کر رہے ہیں جس کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مساجد، امام بارگاہیں اور مزارات کو بھی یہ نہیں بخش رہے ہیں۔ حکومت پاکستان انھیں سابقہ دور میں مذاکرات کی دعوت بھی دے چکی تھی مگر ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ،اب پی ڈی ایم حکومت کے بعد سے یہ مسلسل دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں۔ ان کا قیام سراسر افغانستان میں ہے اور افغان حکومت کو چاہیے تھا کہ انھیں پاکستان یعنی اپنے محسن پر کبھی بھی حملہ نہ کرنے دیتی اور انھیں اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔

یہ بات تو عیاں ہے کہ یہ حملے ہرگزکابل حکومت کی اجازت سے نہیں ہو رہے ہیں مگر ایسی صورت میں اسے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے اور انھیں اپنی سرزمین سے باہر کر دینا چاہیے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے جب افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی گئی تو اس کا باقاعدہ افغان حکومت کی جانب سے جواب دیا گیا۔ اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے پاکستان نے طالبان کے ساتھ جو بھی نیکی کی ہے اس کا یہ صلہ سمجھ سے باہر ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے سے قبل ان سے کچھ اپنی شرائط منوانی چاہیے تھی، یہ بہت ضروری تھا سب سے پہلے تو یہ ہونا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کا خاتمہ کریں گے ، ساتھ ہی یہ بھی وعدہ لیا جاتا کہ اپنی حکومت میں وہ کسی پاکستان مخالف شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیں گے۔

بہرحال اب حالات بہت سنگین ہو چکے ہیں پاکستان حکومت کو نہایت سوجھ بوجھ کے ساتھ طالبان کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں