1

دہشت گرد کسی کے دوست یا ہمدرد نہیں

کسی بے گناہ کو قتل کرنا‘ کسی قانون کی روح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا (فوٹو: فائل)

کسی بے گناہ کو قتل کرنا‘ کسی قانون کی روح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا (فوٹو: فائل)

پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹیڈ آپریشن کیا ہے،جس میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اورکیمپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق اس ٹارگیٹڈ کارروائی کا ہدف حافظ گل بہادرگروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے، گزشتہ دو برس کے دوران پاکستان نے متعدد بار افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سمیت دیگردہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر طالبان حکومت کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیا ہے، لیکن افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے تحفظات اور مطالبات کو نظراندازکیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ سازی اور دہشت گردوں کی تربیت افغانستان کی سرزمین پر ہو رہی ہے، یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے بلکہ پوری طرح آشکار ہے۔ کئی باردہشت گرد حملہ آوروں کی تعداد درجنوں میں دیکھی گئی ہے۔

افغانستان کا جنوبی حصہ جس کی سرحد پاکستان کے سابقہ فاٹا سے ملتی ہے، دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ جنت کا کام دے رہا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر پوری آزادی کے ساتھ اپنے تربیتی مراکز چلا رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام بعد ان تنظیموں کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔

اسی لیے تحریکِ طالبان سے الگ ہونے والے گروپ اور کئی اس کی سسٹر آرگنائزیشنز متحد ہوچُکے ہیں، ان گروپس کی جڑیں خیبر پختون خوا سمیت مُلک کے دیگر حصوں تک پھیلی ہوئی ہیں، اپنے سہولت کاروں اور انفارمرز کی مدد سے ٹی پی ٹی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں منظر عام پر آتی رہتی ہے، گزشتہ دنوں افغانستان میں ایک مدرسے کی تقریب میں ٹی ٹی پی قیادت نے شرکت کی تھی، ان کی تصاویر بھی میڈیا میں سامنے آچکی ہیں۔

درحقیقت پاکستان کے پالیسی ساز طویل عرصے تک افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات کی گہرائی اور وسعت پزیری سے لاعلم رہے یا مصلحتاً اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں ۔افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی جنگ اور بعد میں دہشت گردی خلاف جنگ نے وسط ایشیاء ، جنوبی ایشیا اور ایران و مشرق وسطیٰ کے خطے کو کئی پہلوؤںسے متاثر کیا ہے۔

اس سارے خطے میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گیا، غیرقانونی کاروبار کو فروغ حاصل ہواجس کی وجہ سے بلیک اکانومی کا پھیلاؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا، ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے لیے ناجائز دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بیوروکریسی، نظام انصاف کی کارکردگی میں کمی آئی اور کرپشن بڑھی۔

افغانستان بطور ریاست زوال کا شکار ہوگیا، کابل اور دیگر شہروں میں جو تھوڑا بہت انفرااسٹرکچرتھا، وہ تباہ ہوگیا، پورا ملک وارلارڈ میں تقسیم ہوگیا، کوئی آئین اور قانون نہیں رہا، غیرملکی سرمایہ کاری کا نام و نشان مٹ گیا، سیاحت جو افغانستان کے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا، وہ مکمل طور پر بند ہوگیا۔

پاکستان کی معیشت اور سیاست بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں کارروائیاں تو ہوئیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنے کے لیے کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائی گئی۔

پاکستان میں دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث ہیں جنھیں یہاںافغان مہاجرین کے بھیس میں چپھے ہوئے سہولت کاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے، بعض پاکستانی باشندے بھی لاعملی، مالی لالچ یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔

اس لیے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور دوسرے باشندوں کی ان کے ممالک واپسی پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیار کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں نکلتی۔ افغان شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ شر پسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے لیے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ افغانستان کے طالبان کی ملک کے اندر بھی شدید مخالفت اور مزاحمت موجود ہے۔افغانستان کی غیرملکی تجارت کا انحصار پاکستان کی بندرگاہیں ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی خاطر اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان تجارتی بندشوںپر مجبور ہو جائے۔یقیناً افغانستان کی عبوری حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حالات کی نزاکت سے آگاہ ہیں ‘ وہ پاکستان کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے لیکن شاید وہ اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ شرارتی عناصر کی سرکوبی کر سکیں ۔

افغانستان میںجو دہشت گرد گروپ موجود ہیں‘ان کا مفاد انتشار اور خانہ جنگی کے ساتھ وابستہ ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکے کیونکہ کوئی بھی مضبوط اور مستحکم حکومت ملک میں وار لارڈز اور دہشت گرد تنظیموں کا وجود برداشت نہیں کر سکے۔

اس لیے افغانستان میںایسے گروپ موجود ہیں جن کی روزی روٹی دہشت گردی سے وابستہ ہے اور وہ اس وقت ہی آزادانہ کام کر سکتے ہیں جب کسی خطے میں حکومت کی رٹ نہ ہو اور ریاست کا کوئی مستحکم نظام انصاف نہ ہو اور نہ متحرک انتظامیہ ہو اور نہ ہی ایک تربیت یافتہ پروفیشنل آرمی موجود ہو‘افغانستان میں موجود دہشت گردگروہ افغانستان کو ایک سرزمین لاقانونیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

لہٰذا افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔سرحدی ایشوز یا تجارتی معاملات بعد میں بھی مذاکرات کے ذریعے طے ہو سکتے ہیںلیکن دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا یا دہشت گردی کو بطور ہتھیار پروموٹ کرنا‘ افغانستان کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے سکتی۔

افغانستان بارڈر کو محفوظ بنا پاکستان سے زیادہ افغانستان کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔ وہاں کے لوگوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات دینا ضروری ہے‘پاکستان میں30 سے 40 لاکھ افغان باشندے یہاں موجود ہیں جن پر چیک کی ضرورت ہے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان نے پاکستان میں بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔

غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندے پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کررہے ہیں،افغانیوں نے نادرا کے جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا رکھے ہیں، یہی افغانی جب بیرون ملک کسی دہشت گردی یا اسمگلنگ کی واردات میں پکڑے جاتے ہیں تو نام پاکستان کا بدنام ہوتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک میں اس کی آزادی اور خودمختاری کے تناظر میں کسی دوسرے ملک کے باشندے کو ماورائے قانون قیام اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں تو نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے یہ دیکھا ہے۔ اس وقت کی معیشت پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کا اثر پڑا ہے، اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو معیشت بہرصورت متاثر ہو گی۔

افغانستان کی قیادت کو خطے کی صورت حال کا ادرا ک کرنا چاہیے ‘ افغانستان کے طالبان کی پوزیشن اب جنگجو گروہ کی نہیں رہی ہے بلکہ اب وہ ایک ریاست کے حکمران ہیں ‘یہ حکمرانی انھیں دوحہ معاہدے کے تحت ملی ہے۔جب تک وہ ایک جنگجو گروپ تھے ‘وہ کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتے تھے‘ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کو بھی اس حقیقت کا علم تھا۔

یہی وجہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت اقتدار حاصل کرنے کے بعد افغان طالبان سابق حکمرانوں پر کوئی مقدمہ نہیں چلا سکے اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ قائم ہو سکتا ہے بلکہ طالبان کے جو ساتھی جیلوں میں تھے ‘انھیں بھی فوری طور پر رہا کر دیا گیا حالانکہ وہ بھی قتال کے جرم کے مرتکب ہو چکے تھے۔

کسی بے گناہ کو قتل کرنا‘ کسی قانون کی روح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ‘لیکن جب کوئی مسلح گروہ کسی قابض فورس کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہا ہو تو دونوں کے پاس اپنا اپنا سچ ہوتا ہے جب تک وہ حالت میں جنگ میں ہوتے ہیں ‘وہ ایک دوسر ے کے قانون کو تسلیم نہیں کرتے ‘اس لیے باہمی قتال کا الزام بھی کسی قانون کے دائرے میں نہیں آتا لیکن اب طالبان ایک ریاست کے حکمران ہیں ‘وہ عالمی قوانین کے بھی پابند ہیں اور افغانستان میں جو بھی قانون و ضابطہ رائج ہے۔

اس کے بھی پابند ہیں۔افغانستان کی حکومت اگر پاکستان کے ساتھ کسی معاملے پر تحفظات رکھتی ہے تو اس کا حل مذاکرات کے ذریعے نکل سکتا ہے لیکن کسی دہشت گرد گروپ کو پناہ دینا ‘اس کی سہولت کاری کرنا ‘اس کے اہداف اور مطالبات کا ساتھ دینا ‘ایک ذمے دار ریاست اور اس کی حکومت کا شیوا نہیں ہونا چاہیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں