1

لیاقت باغ ۔۔۔ – ایکسپریس اردو

جب یو ڈی ایف کے جلسے پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں، بھولی بسری تاریخ ۔ فوٹو : فائل

جب یو ڈی ایف کے جلسے پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں، بھولی بسری تاریخ ۔ فوٹو : فائل

ہماری ایک قومی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو جو نصابی تاریخ پڑھاتے ہیں جس میں وہ باتیں اور حقائق نہیں بتائے جاتے ہیں یا بالفاظ دیگر ہم سے جو اجتماعی یا قومی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔

ان کا ذکر تک نہیں کرتے جب صورت حال یہ ہو تو بھلا ہم اپنی تاریخ یا اپنی غلطیوں سے خود یا ہماری نئی نسل کیسے سبق حاصل کرے گی؟ لہذا اپنی تاریخ کا قبلہ درست کرنے کی خاطر ہمیں اپنی قوم اور اپنی نسل کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔

ورنہ کل کو چھپائے ہوئے حقائق خود بول پڑیں گے کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے کسی کو بھی معاف نہیں کرتی ۔ ہم کب تک اپنی حقیقی اور اصلی تاریخ کو چھپاتے پھریں گے؟ لہذا تہذیبی نرگسیت کو چھوڑنا ہو گا خودساختہ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لکھی اور پڑھائی جانے والی تاریخ سے گریز کرنا ہو گا۔

قصہ مختصر کہ ایک طرف 23 مارچ 1940ء کو لاہور شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا اور اس اجلاس میں یہ تاریخی قرار داد پاس ہوئی جس میں مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کے ملک کو آئندہ کے لیے سیاسی نصب العین آزاد و خودمحتار ریاست قرار دیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جب تک دستوری منصوبے میں درج ذیل اصول شامل نہ کیے جائیں اور اس پر ملک میں عملدرآمد نہ کیا جائے۔

اس وقت تک وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہو گا ‘‘ دیکھا جائے تو ایک جانب اس دن یعنی23 مارچ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس قسم کی آزاد وخود محتار ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر دوسری جانب اسی تاریخ23 مارچ 1973ء کو ملک کی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل یو، ڈی، ایف (یونائیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) نے فیصلہ کیا ، کہ راول پنڈی میں ایک بہت بڑا جلسئہ منعقد کرنا چاہیئے کیونکہ موجودہ مرکزی حکومت کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور یہ سلوک ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کر رہے ہیں اور اس کا الزام صوبہ پنجاب پر لگایا جا رہا ہے۔

لہذا اس الزام اور تاثر کو زائل کرنے کے لیے یونائیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ نے فیصلہ کیا کہ ایک بہت بڑا جلسئہ کرنا چاہیئے جس میں عوام کو بتایا جائے کہ یہ سب کچھ کر کون رہا ہے اور الزام کس پر لگایا جا رہا ہے ؟ لہذا تمام جماعتوں کو چاہیئے کہ اس جلسئہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں تاکہ انہیں بتا سکیں اور ان پر یہ حقیقت آشکارا کر دیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یاکچھ کیاجا رہا ہے یہ پنجاب یا پنجابی نہیں کرتے بلکہ آپ تو پنجاب میں بھی اپنے ساتھی اور ہمدرد رکھتے ہیں ۔ اور یو، ڈی، ایف آپ کے ساتھ کمربستہ کھڑی ہے ۔

لہذا ہر جماعت کی قیادت نے ایسا انتظام کیا تھا کہ کثیرتعداد میں لوگ اس جلسئہ میں شریک ہو جائیں ۔ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختون خوا سے ایک بہت بڑا جلوس معروف انقلابی شاعر، ادیب اور سیاست دان اجمل خٹک کی قیادت میں اپنے صوبے سے روانہ ہو گیا یہ جمعہ کا دن تھا اس وقت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے بیشتر ممبران لیاقت باغ کے قریب مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک لیڈر کے گھر اس انتظار میں تھے کہ جب جلوس پہنچ جائے اور جلسئہ کا وقت ہو جائے تو ایک رضاکار انہیں مطلع کر دے گا تو یہ سب لوگ جلسئہ گاہ چلے جائیں گے تاہم اسی وقت اچانک فائرنگ کی آواز سنی گئی۔

فائرنگ کی آواز سنتے ہی خان عبدالولی خان اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دیگر ساتھیوں سے کہا کہ یہ تو فائرنگ ہو رہی ہے ہمیں فوراً جلسئہ گاہ پہنچنا چاہیئے ۔ ساتھیوں نے کہا کہ یہ جلوس کے شرکاء کو خوش آمدید اور خیرمقدم کی فائرنگ ہے ۔ ولی خان نے کہا ’’یہ تو ہمارا صوبہ نہیں ہے یہ تو پنجاب ہے اور اب تو ہم نے اپنے صوبے میں بھی جلسئہ جلوس میں ہوائی فائرنگ پر سختی سے پابندی لگائی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ذرا سنو فائرنگ کے ساتھ قسم قسم کی آوازیں بھی آرہی ہیں ۔ یہ سن کر سب لیاقت باغ کی طرف دوڑ پڑے ۔ اصل میں مشترکہ فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ جلسئہ نماز جمعہ کے بعد شروع کیا جائے گا تو جلسئہ گاہ میں اس وقت پشاور سے آنے والے سیاسی کارکن اپنے وقت پر پہنچ چکے تھے ۔ قائدین جب وہاں پہنچے تو ایک ہنگامہ برپا تھا ، چاروں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی اور سٹیج سے جب وہ دیکھتے تھے تو جابجا کارکن گرتے جا رہے ۔

سٹیج پر بھی فائرنگ ہو رہی تھی ۔ ولی خان اٹھ کھڑے ہوئے تو انہیں اپنے ایک ساتھی نے آواز دی کہ خان صاحب بیٹھ جاؤ ۔ ولی خان نے جواب میں کہا کہ اگر اس حالت میں ولی خان بیٹھ گیا تو پھر اٹھے گا کون ؟ اگرچہ ان کے قریب دوسری کرسی پر ایک نوجوان کو سینے پر گولی لگ گئی اور وہ گر پڑا۔ قائدین سٹیج سے ساتھیوں کو حوصلہ دیتے رہے ۔ فائرنگ کا پہلا دور گزرگیا تو لوگوں نے دیکھا تو سامنے ایک دیوار سے فائرنگ ہو رہی تھی تو یہ لوگ اس جانب دوڑ پڑے کیا دیکھتے ہیں کہ ہر بندہ ایک ایک بندے کو پکڑکر لا رہا ہے۔

بندوق اس سے چھین لی ہے اور اسے اپنی پگڑی سے باندھا ہوا ہے ، ایک کو دیکھا تو اس کے پاس دو بندوقیں تھی، وہ دو آدمیوں کو باندھ کر لا رہا تھا ۔ جلسہ میں آنے والے ساتھی تو خالی ہاتھ آئے تھے کیونکہ ولی خان نے ان سے کہا تھا کہ پنجاب میں اسلحہ مت لائیں کیونکہ اسلحہ بھی آپ سے لے لیں گے اور جلسئہ تک بھی پہنچ نہ پاوگے ۔ تو یہ تو خالی ہاتھ آئے تھے ، مگر ایسی بہادری بہت کم دیکھنے میں آئی ، ایک آدمی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا ۔

ایک نوجوان ولی خان کے قریب آیا اپنی قمیص اپنے گریبان سے پکڑی اور دامن چاک کر کے کہا آپ ہی نے تو ہمیں منع کیا تھا کہ اسلحہ اپنے ساتھ مت لائیں تو اب آپ نے ہمیں ان باولے کتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ ولی خان نے کہا نوجوان حوصلہ رکھو جاؤ کسی دوسرے زخمی ساتھی کی مدد کرو ۔

بقول ولی خان ’’ یو ڈی ایف کی ساری قیادت بھی اس دوران پہنچ گئی سب سے پہلے چودھری ظہور الہیٰ میرے سامنے کھڑے ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ خان صاحب، خدا کے لیے آپ تو بیٹھ جائیں اگر آپ نشانہ بن گئے تو بات ہی ختم ہو جائے گی ۔ میں نے کہا کہ ہر طرف گولیاں چل رہی ہیں نیچے میدان کو دیکھیں، یہ جو مر رہے ہیں یہ بھی انسان ہیں۔‘‘ جب فائرنگ پر دل ٹھنڈا نہ ہوا تو پھر آگ لگانے والے بموں سے کام لینے لگے، قائدین نے جلسئہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا ، جلسہ کے شرکاء اپنی میتیوں اور زخمیوں کو اٹھا کر روانہ ہو گئے۔

پتہ چلا کہ جن بسوں میں یہ لوگ آئے تھے ان میں سے اٹھارہ بسوں کو جلا دیا گیا ہے اور پھر جب یہ لوگ اپنی بسوں کی تلاش میں نکلے تو انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا یہاں تک کہ چند زخمیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ ہسپتال کے بستر پر پڑے زخمیوں کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں ۔ میتیں اور زخمی تو اپنے اپنے علاقے روانہ کر دیے گئے مگر جب صوبے میں خبر پھیل گئی اور جلسئہ کے شرکاء اپنے گھروں کو نہیں پہنچ پائے تو لوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں راولپنڈی روانہ ہو گئے تاکہ ان کی موت یا زندگی کے بارے میں پتہ لگائیں۔

بقول ولی خان ’’ مجھے یہ فکر لاحق ہو گئی کہ یہ اتنے جنازے (میتیں) ایک بار اپنے اپنے علاقوں تک پہنچ جائیں اور یہ زخمی بھی واپس چلے گئے اور سارا ماجرہ سنا دیا تو پختون تو کسی سے بدلہ لینا نہیں چھوڑتے، اپنے بھائی، عزیزاور رشتہ دار سے بدلہ لیتے ہیں تو دوسروں کو کیسے معاف کریں گے؟ خیر ہم سارے کارکن اٹھ کھڑے ہوئے تمام جنازوں اور فاتحہ خوانی میں خود شرکت کی، تمام زخمیوں کی عیادت کی ۔

چند ساتھیوں اور وکلاء کو راولپنڈی بھیجا کہ ان قیدیوں، زخمیوں اور گم ہونے والوں کی خبر گیری کر لیں (یو ڈی ایف) نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ یہ پختون علاقوں سے لوگ یہاں آجائیں تو ہم پنجاب کے قائدین چودھری ظہورالہیٰ، نواب زادہ نصراللہ خان، سردارشوکت حیات اور اس طرح دیگر ساتھی ان پختونوں کے ساتھ بھائی بندی اور ہمدردی کا تعلق قائم کر لیں گے اور حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس قسم کی آگ پر تھوڑا اور تیل چھڑک دیں اور اسے ہوا دیں تاکہ یہ آگ اور بھی بھڑک اٹھے ۔ اور میرا یہ پکا یقین ہے اگر میں اور دیگر ساتھی متاثرہ لوگوں سے ہمدردی، عیادت اور فاتحہ خوانی کرنے نہ جاتے انہیں صبروتحمل سے کام لینے کا درس نہ دیا ہوتا تو اس کا نتیجہ کوئی اور نہیں نکل سکتا تھا اس کے سوا کہ صوبوں کے درمیان لڑائی مار کٹائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ اور کچھ لوگ تو یہی چاہتے تھے کہ پنجابی اور پختون کو گھر میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنا دیں ۔

ہم تو اس وقت تک میتوں،زخمیوں اور قیدیوں کے سلسسلے میں سرگرداں تھے اچانک کسی نے بتایا کہ اجمل خٹک صاحب کا اتہ پتہ معلوم نہیں ۔ ہمیں ایسی اطلاعات پہنچی تھیں کہ جب پنڈی لیاقت باغ کا جلسئہ منتشر ہو گیا اور ساتھی اپنی بسوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے تو ان میں جو اکیلا ہوتا تھا اسے پیپلزپارٹی کے لوگ پکڑکر مار ڈالتے، چنانچہ ایک آدمی ایسا ملا بھی تھا تو پھر ہم نے پنڈی میں اجمل خٹک صاحب کی تلاش شروع کر دی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ملک چھوڑ کر افغانستان پہنچ چکے ہیں ۔

شاعر آدمی تھا، جذباتی تھا ، بے گناہ انسانوں کا قتل عام برداشت نہ کر سکا ۔ ارباب سکندر خان خلیل نے مجھے بتایا کہ اجمل خٹک نے مجھ سے کہا کہ یہ ملک اب شریف لوگوں کے رہنے کا قابل نہیں رہا ۔ حنیف رامے نے یہ قصہ سنایا تھا کہ وہ اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔

اس نے کہا کہ میں نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی کہ یہ صوبہ سرحد کے غریب اور محنت کش لوگوں کی اٹھارہ بسیں جل گئی ہیں تو ہم تو ویسے بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم محنت کشوں کے ساتھی ہیں تو اگر حکومت اجازت دے تو ان لوگوں کو تاوان اور معاوضہ دے دیں گے مگر افسوس کہ حکومت نے ان کی بات کی سخت مخالفت کر دی۔ اتنے لمبے قصے کا اصل مقصد یہ کہ ہمیں اپنے ملک کی اصل تاریخ سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنا چاہیئے اور ماضی میں ہمارے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں انہیں پھر سے دھرانے سے اجتناب اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں