3

ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ

سپریم کورٹ نے رمیش کمار سے کہا کہ عمارت کا قبضہ آپ کو نہیں دے سکتے—فائل: فوٹو

سپریم کورٹ نے رمیش کمار سے کہا کہ عمارت کا قبضہ آپ کو نہیں دے سکتے—فائل: فوٹو

  کراچی:سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو جیم خانہ کی عمارت کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندو جیم خانہ کیس کے فریقین ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، جس کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما رمیش کمار سے کہا کہ آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں کرنے دیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ کے روبرو ہندو جیم خانہ کی ملکیت سے متعلق سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ کمشنر کراچی کو ناپا کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کیس چلانا ہے تو اپنا کیس چلائیں ناپا کو چھوڑیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہندو جیم خانہ ہندو برادری کی ملکیت ہے، سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ حکومت سندھ نے ناپا کو مختلف متبادل آپشنز دیئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کمیونٹی کا تعین کیسے کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کمشنر صاحب سے زمین کے رقبے کے حوالے سے تفصیل طلب کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی سرکاری افسر کے ساتھ صاحب کا لفظ نہیں لگا سکتے، آپ کوئی ایک کتاب بتا دیں جہاں کمشنر صاحب لکھا ہو، کمشنر کمشنر ہے بس، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ایم پی اے صاحب نہیں ہوسکتے، رمیش صاحب ہوسکتے ہیں۔

رمیش کمار نے کہا کہ آپ زمین حکومت سندھ کے حوالے کردیں، جس پر  چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ شہر میں کوئی ایسی عمارت بتا دیں جو حکومت سندھ نے محفوظ رکھی ہو، رمیشن کمار نے جواب دیا کہ گورنر ہاؤس اور سی ایم  ہاؤس ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہاں عوام نہیں جاتے، اس لیے صاف ہیں، جو عوامی مقامات ہیں وہ بتائیں کسی کو صاف رکھا ہو، آپ گورنر ہاؤس کے باہر احاطہ دیکھ لیں جاکر کیا حال ہے، دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے باہر کنٹینر لگے ہوں، رمیش کمار نے کہا کہ پاکستان ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وہ وقت بھی آئے گا، جب حکمرانوں کو اپنے بجائے لوگوں کی فکر ہوگی، ہمیں آپ سے زیادہ ہندو برادرہ کی فکر ہے، آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم نہیں کرنے دیں گے۔

چیف جسٹس نے رمیش کمار کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ آج کل آپ کی پارٹی کون سی ہے، بدلتی رہتی ہے یا وہی ہے، رمیش کمار نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پارٹی بدلتے رہتے ہیں، جہاں بھی ہوں ایک پارٹی میں رہیں، آپ کو تو یہ جگہ نہیں دیں گے آپ اس کو کل کچھ اور بنادیں گے۔

چیف جسٹس نے خوش گوار موڈ میں مکالمے میں کہا کہ آج کل بڑا مسلہ ہوتا ہے، ہمارے ہر کمنٹس چھاپ دیتے ہیں، آج کل ہر چیز خبر بن جاتی ہے، ہمارے لائٹ کمنٹس بھی چھاپ دیتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے تیاری کے لیے ایک ماہ کی مانگ لی تو چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ کبھی ایرانی ہوٹل گئے ہیں، اس میں کوئی معیوب بات نہیں، میں بھی جاتا تھا وہاں، ایرانی ہوٹل میں لکھا ہوتا تھا ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، آپ بھی التوا مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ کیس چلائیں بتائیں یہ جگہ کس کی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ بلڈنگ سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی تھی، تقسیم کے بعد 1958 میں عمارت کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو مذہبی جگہ ہے عبادت گاہ ہے یا کیا ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ گل رل عمارت ہے، سرسید یونیورسٹی بھی ہے اور ناپا بھی ہے۔

رمیش کمار نے کہا کہ یہ ملکیت ہندوؤں کی ہے، ہمیں یہاں اپنی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، یہاں مندر بھی موجود ہے، اوم کے نشانات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں، وہاں بسم اللہ لکھا ہوا ہے تو وہ مسجد تو نہیں ہوجائے گی، آپ تو پارلیمنٹیرین ہیں ایوان میں اوپر کیا لکھا ہے، رمیش کمار نے کہا کہ وہاں کلمہ لکھا ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو کیا وہ مسجد کہلائے گی، ایسے دلائل مت دیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔

سپریم کورٹ نے حکومت سندھ  کو عمارت کا تحفظ یقینی ننانے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ فریقین چاہیں تو ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، فریقین کی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں