6

کتنا بدل گیا انسان – ایکسپریس اردو

اس کرہ ارض پر بسنے والا ہر فرد چاہے وہ زمین کے جس حصّے میں بھی اپنی زندگی جی رہا ہو، اْس کا رنگ کیسا بھی ہو، بول چال کے لیے جو بھی زبان استعمال کرتا ہو، دنیا میں موجود بیشمار طبقہ فکر میں سے کسی سے بھی تعلق رکھتا ہو، دولت کے اعتبار سے معاشرے کے ان گنت درجوں میں جس پر بھی کھڑا ہو ہر سال اپنی زندگی کے کچھ دن ایسے ضرور گزارتا ہے جب اْسے اپنے اردگرد سب کچھ بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو احساسات سے مالا مال دنیا میں اْتارا تھا مگر اپنی زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ کچھ انسان اپنے اْوپر بیحسی کا خول چڑھا لیتے ہیں جو اصلی ہوتا ہے نہ پائیدار۔ اْس خول کے نقلی ہونے کا واضح ثبوت یہی ہے کہ انسان کی زندگی میں جب خزاں کے ایام آتے ہیں تو اْس کی بیحسی پر حِس غالب آجاتی ہے اور تمام خول ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتے ہیں، وہ دراصل خداوند تعالیٰ کی جانب سے آگاہی کا وقت ہوتا ہے۔

انسان اپنی زندگی میں اچانک آنے والے طوفان کی وجہ تلاش کرنے کی غرض سے جب خود کے اندر جھانکتا ہے تو وہاں اْس کا منتظر جو منظر ہوتا ہے وہ اْس کی زیست کے تمام بنھ ڈھیلے کرکے رکھ دیتا ہے۔ ربِ کریم اپنے ہر بندے کا امتحان الگ الگ طریقوں سے لیتا ہے، خالق کے امتحان میں مخلوق کی کامیابی اور ناکامی اْس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، انسان اپنے عمل سے ہی خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہوتا ہے یا اپنے دل میں قفل لگوانے کا سدباب پیدا کر سکتا ہے۔

یہ بات عموماً کہی جاتی ہے کہ آگاہی وبالِ جان ہوتی ہے، اس بارے میں میری ذاتی رائے ہے کہ کچھ معاملات میں آگاہی بہت بڑی نعمت ہے، جن میں سے ایک اپنی خامیوں کا اِدراک ہے۔ کبوتر کو عام طور پر ایک ڈرپوک پرندہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ خطرے کو اپنے قریب آتا محسوس کرکے آنکھیں موند لیتا ہے، انسان میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے فرق فقط اتنا ہے کہ وہ آنکھیں خطرے کو بھانپ کر کم اور اپنی غلطیوں کو اَن دیکھا کرنے کے لیے اکثر بند لیتا ہے۔

ہر فرد کو گمان ہوتا ہے کہ محض وہ راہِ راست پر گامزن ہے اور باقی سب خامیوں کے سمندر میں غوطہ زن ہیں دراصل مجموعی طور پر جدید دور کے تمام انسانوں کا یہی طرزِ عمل ہے۔ اپنی ذات سے محبت کرنا اچھی بات ہے اور یہ خود اعتمادی کا اہم جْز بھی سمجھا جاتا ہے مگر اس کے برعکس خود پرستی سراسر ایک منفی عمل ہے جو اچھے خاصے ہوش مند انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ صرف اور صرف خداوند کریم ہی ذاتِ کاملہ ہیں، انسان کا خود کو کْل تصور کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی زندگیوں کے لیے چند قوانین مختص کیے ہیں جن کی خلاف ورزی انسانی نظام میں خلل پیدا کر دیتی ہے۔ فطرت کے برعکس اقدام کبھی بھی سکون کی نوید نہیں سناتے بلکہ اْلٹا نقصان کا باعث ہی ثابت ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں اگر انسانیت کی تعریف کے ساتھ ہی چھیڑ چھاڑ کی جائے گی تو انسانوں کے اعمال کے نتائج کیسے تسلی بخش حاصل ہو سکتے ہیں؟

انسان کا اپنی زندگی میں موجود بے سکونی کی وجہ اردگرد تلاش کرنے کے بجائے بردباری کے ساتھ خود کے اطوار کا جائزہ لینا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ تکبر کا ناسور وقتی طور پر انا کی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے مگر دائمی سکون کے حصول کی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ صرف گھاٹے کا سودا ہے۔ زمانہ حال دنیا کی اْس منظرکشی کو کرنے سے بالکل قاصر ہے جس کا تصور لے کر انسان اس جہانِ فانی میں تشریف آور ہوا تھا۔

زمانے کی تپتی دھوپ جو آج ہمارے وجود کو مسلسل جھلسا رہی ہے اْس کی ذمے دار بھی ہماری ذات ہی ہے۔ ہمیں بنانے والے نے کیسا بنایا تھا اور ہم کیا بن گئے ہیں، ہمیں عزت سے عرش پر بٹھایا گیا تھا اور ہم اپنی حماقتوں کے باعث فرش پر آگرے ہیں۔ آخر ہماری خود سے جاری جنگ کب ختم ہوگی اور ہم ربِ کائنات کے احساسات سے لبریز بندے بن کر اپنی خامیوں سے منہ موڑنے کے بجائے اْن کو سدھارنے کی حکمتِ عملی مرتب کریں گے؟

زندگی ایک بار ملتی ہے کیا اْسے بے حسی کی نذر کرنا اور اپنے اطراف کے لوگوں سے کدورت پال کر گزارنا کفرانِ نعمت کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن شرط بس اتنی سی ہے کہ آپ اور میں تسلی کے ساتھ اپنے اندر سے آنے والی آواز کو سنیں۔ انسان جتنا بدل جائے مگر اپنے خمیر کی تاثیر کو فراموش کرنا اْس کے لیے اب بھی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں