بھارتی سینما بھلا ستیہ جیت رے، ڈاکٹر گرنیش کرناڈ اور شیام بینگل بنا مکمل کیسے ہو سکتا ہے۔ ستیہ جیت رے بھارتی فلم انڈسٹری کا وہ ہدایت کار اور فلمساز گزرا ہے جس نے انسانی المیوں اور سماجی زندگی کے مسائل کو اپنی فلموں کا جب موضوع بنایا تو خیال تھا کہ آرٹ فلم کی اپنائی جانیوالی فارم بھارتی فلمی دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے گی جو عام کمرشل فلموں کو حاصل ہے۔
مگر ستیہ جیت رے نے اپنی ترقی پسند نظریئے کی سچائی کے ساتھ سماجی مسائل کی جب کھوجنا شروع کی تو ستیہ جیت رے کو جگہ جگہ مشکلات اور کٹھناؤں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ستیہ جیت رے چونکہ عالمی بنگالی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے مشن اور سوچ کو آگے بڑھانے کی لگن میں مگن تھے سو انھوں نے تمام تر دشواریوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور آرٹ فلم کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا، گو بھارتی فلمی نگری میں آرٹ فلم کی تیکنیک کو کوتم گھوس نے فلم ’’پار‘‘ میں نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کے کمال فن کو عوام کے سامنے لائے اور ’’فلم پار‘‘ نے اپنی کہانی کی ندرت اور نصیرالدین شاہ و شبانہ اعظمی کی کمال اداکاری سے 14 فلمی ایوارڈ حاصل کیے۔
اس سے قبل ٹیگور کی بنگالی کہانی پر ستیہ جیت جی ’’اپھار‘‘ نامی فلم میں جیہ بہادری کے فن کو فلمی دنیا کے سامنے لا چکے تھے اور ’’اپھار‘‘ اپنی ہدایت کاری اور جیہ بہادری کی بے باک اداکاری کی بدولت فلمی دنیا کی توجہ حاصل کر چکی تھی مگر ستیہ جیت رے غیر مطمئن سے پھر سے بچوں کے ادب کی تخلیق میں مشغول ہو گئے۔
اسی دوران 1980 کی دہائی میں بھارت کا کمرشل سینما عوام میںپذیرائی لیتا رہا اور دلیپ کمار کے علاوہ امیتابھ بچن، دھرمیندر، راجیش کھنہ، ششی کپور، رشی کپور، زینت امان، ریکھا، راکھی، ہیما مالینی اور لا تعداد بڑے بڑے فن کار پردہ سیمیں کو دیتا رہا اور ایسا لگتا تھا کہ بھارت ایسے ملک کی بڑی فلمی مارکیٹ میں ’’آرٹ فلم‘‘ کی جگہ بننا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔بھارتی سینما میں جب ستیہ جیت رے کی ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘، گریش کرنارڈ کی ’’سر سنگم‘‘ اور شیام بینگل کی کمرشل سینما سے ہٹ کر فلمیں آئیں تو بھارتی سینما کے علاوہ ان مذکورہ فلم کی کہانیوں اور اداکاری کی سنجیدگی نے نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور 1979 سے تاحال بھارتی فلم انڈسٹری ستیہ جیت رے، گوتم گھوس، گریش کرنارڈ اور شیام بینگل کی اعلیٰ صلاحیتوں کو اپنے اندر سے کم نہ کر سکی بلکہ ان مہان ہدایت کاروں کے اچھوتے موضوع اور تیکنیک کو کمرشل فلموں نے نہ صرف اپنایا بلکہ بھارت کی موجودہ فلم انڈسٹری نے کمرشل آرٹ سینما کو ازسر نو بھارتی فلمی دنیامیں آرٹ فلم کی تیکنیک کے ساتھ فلم بینوں تک پہنچایا۔
آج بھارتی فلمی نگری میں آرٹ فارم کے نئے چہرے جدید سماجی مسائل کو جدید فلمی ٹیکنالوجی کے تحت اپنا کر بالی ووڈ کو دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔آرٹ فلموں کے عروج و زوال کے شاہد معروف ہدایت کار شیام بینگل نے اپنی آخری سانس تک آرٹ فلم کی افادیت اور فلموں کے ذریعے سماجی گھن دور کرنے کے ایسے موضوع چنے جو آج بھی ہمارے سماج کے رستے ہوئے ناسور کے طور پر اپنے ممکنہ حل کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کسی بھی زندہ معاشرے کیا انسانی المیوں اور مسائل کو سماج کی دیگر اصناف میں اجاگر کیے بنا بہترین سماج قائم کر سکتے ہیں؟ تاریخ کے دریچے اس سوال کے جواب میں سماجی ہلچل اور مسائل کو اجاگر کرنے کی سب سے مضبوط صنف تھیٹر اور فلم کو قرار دیتے ہیں، دنیا کے دانشوروں کا یہ خیال کیسے رد کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی سماج اپنی تہذیبی اور ثقافتی ورثے یا اس کے منجمد ہو جانے سے نہ صرف سکڑ جاتا ہے بلکہ سماج میں تہذیب اور ثقافت جب دولت اور شہرت کے ناخداؤں کے ہاتھ آجاتی ہے تو سماج کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے، جس کی مکمل عکاسی شیام بینگل کی فلم ’’منڈی‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بھارتی آرٹ فلم کے منفرد ہدایت کار شیام بینگل ہر بار ایک نیا موضوع لے کر آتے تھے۔ جنون (1979) کلیگ (1981) اور پھر ’منڈی‘ (1983) میں کوٹھے کی حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے شیام بینگل کا جانا ہندوستان میں متوازی سنیما کے ایک پورے ادارے کے خاتمے کے مترادف ہے۔ ہندی میں سنیما کا ایک متوازی سلسلہ شروع کرنے کا سہرا مرنال سین اور ان کی فلم‘ بھوون شوم (1969) کو جاتا ہے، لیکن اگر کسی ہدایت کار نے اس بیج کو سینچا اور اسے ہرے بھرے درخت میں تبدیل کیا ہے تو وہ شیام بینگل ہی تھے، حیدر آباد میں پلے بڑھے شیام کا خاندان سیاسی طور پر بہت بیدار تھا۔ انھیں بچپن سے ہی فلموں میں دلچسپی تھی۔
راجدھانی میں 50 ہزار ترشول تقسیم کرنے کا ہدف منی پور تشدد کے دوران درج 3023 معاملوں میں سے 6 فیصد میں ہی ایس آئی ٹی نے چارج شیٹ داخل کی پارلیمنٹ میں ’امبیڈکر‘ پر تبصرہ کو لے کر اپوزیشن کا امیت شا سے معافی کا مطالبہ، پی ایم مودی کا دفاع، مشرق وسطیٰ کا المیہ عمر خالد کو سات دن کی عبوری ضمانت ایسے موضوعات کو فلموں کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔
قریباً 40 سال کی عمر میں وہ مکمل فیچر فلم‘ انکور (1974) ناظرین کے سامنے لائے۔ اس وقت ہندوستان اور دنیا کے بیشتر فلم مبصرین نے شیام بینگل کے انداز کو حقیقت پسندانہ سنیما کا نام دیا۔ ’’انکور‘‘ کا دنیا بھر کے فلم مبصرین نے کھلے دل سے استقبال کیا۔ چدانند داس گپتا نے اسے آرٹ اور حقیقت پسندی کا امتزاج قرار دیا۔ ان کے الفاظ میں، یہ فلم سنیما کی نئی زبان کی شروعات ہے، جو ناظرین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
’دی گارڈین کے مبصر ڈیرک میلکم کے مطابق، ’انکور‘ نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کے پیچیدہ نظام اور معاشی تقسیم کو گہرائی سے تلاش کرتا ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر حقیقت پسندانہ سنیما کے رجحان کو بھی تقویت دیتا ہے۔ ’انکور‘ ہندی سنیما کی دنیا میں ایک تاریخی واقعہ کی طرح تھا۔ اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی شیام بینگل نے اپنی زندگی کے اس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کیا، جو آج بھی مین اسٹریم سے ہٹ کر سینما بنانے والوں کے سامنے بنا ہوا ہے۔
شیام اس دور کے واحد فلمساز تھے جنھوں نے این ایف ڈی سی کے پاس جا کر مالی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے پرائیویٹ کمپنیوں کی مدد سے اپنی فلموں کے لیے فنانس اکٹھا کیا۔ ہر فلم کے لیے مناسب فنڈز اکٹھا کرنا ہمیشہ ان کی ترجیحات کا حصہ رہی۔
اس طرح ایک طرف شیام بینگل سنیما میں ایسے موضوعات کو اٹھا رہے تھے جن کے بارے میں ہندوستانی سنیما انڈسٹری سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ ہندی سنیما کو ایک نئی حقیقت پسندانہ زبان دے رہے تھے، تحقیق پر مبنی اسکرپٹ تیار کر رہے تھے اور ان کے اداکار نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹیل، اوم پوری اور نانا پاٹیکر اداکاری میں نئے ریکارڈ بنا رہے تھے۔ دوسری طرف انھوں نے زندگی بھر کام کے تسلسل کو بھی برقرار رکھا۔