6

ایک اور ’’اڑان‘‘ کی کوشش

نام میں کیا رکھا ہے؟ اکثر سنا لیکن دیکھنے سننے میں اس کے برعکس ہی پایا۔ خوب نامی میں کچھ تو ایسا ہے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے مختلف منصوبوں کے لیے ایسے ایسے نام ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب اس کے بعد تو ہر چہ بادا باد… پڑھا لکھا پنجاب، ستھرا پنجاب، گرین پنجاب۔ اس سلسلے کا تازہ ترین خوبصورت نام سال نو کے آغاز پر اگلے پنج سالہ ترقیاتی منصوبے ’’اڑان‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔

سال نو کے پہلے دن اگلے پنج سالہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس منصوبے کی تفصیلات بتائیں۔ ہمیشہ کی طرح ایسے منصوبوں کی تفصیلات خوش کن ہوتی ہیں، سو اڑان منصوبے کے تمام اہداف سن کر دل جھوم اٹھا۔ ان اہداف کو سن کر اگر کسی کے دل میں گمان گزرا کہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی گزشتہ 35 سال کے دوران کئی بار حکومت میں رہی تو یہ خوش کن اہداف کیوں حاصل نہ ہو سکے؟ اس کی بھی شافی وضاحت انھوں نے کر دی کہ بھارتی وزیراعظم اور سابق وزیر خزانہ آنجہانی ڈاکٹر من موہن سنگھ نے نواز شریف کا معاشی ماڈل ہی اپنایا تھا جو بھارت اس قدر ترقی کر پایا!!

وزیراعظم کے اس اعلان سے پہلے لگ بھگ 50 سال سے ہم یہ سنتے آئے کہ جنوبی کوریا بھی اپنی معاشی ترقی کے لیے ہمارا احسان مند ہے۔ ان کی معاشی ترقی ہمارے سکھائے ہوئے پانچ سالہ منصوبے کی مرہون منت ہے جو ان کے ماہرین نے 60 کی دہائی کے اوائل میں آ کر ہم سے سیکھا البتہ یہ راز کبھی نہ کھل سکا کہ اگر واقعی جنوبی کوریا نے ہم سے زانوئے علم و ادب طے کیا اور اسی سبب اس قدر حیرت انگیز ترقی کر لی تو ہم کیونکر وہیں کے وہیں زانو کے ساتھ زانو لگائے بیٹھے رہے! کیوں ڈاکٹر منموہن سنگھ نواز شریف کا معاشی ترقی ماڈل اپنا کر 90 کی دہائی کے میں بھارتی معیشت کی کایا پلٹنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہمارا معاملہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد والا رہا۔

مسلم لیگ اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ اس کی صفوں میں ڈاکٹر احسن اقبال جیسے اہل علم اور پروفیسر طبع لوگ صف اول میں شامل ہیں۔ 1998 میں ڈاکٹر احسن اقبال پلاننگ کمیشن کے انچارج تھے تو پہلی بار انھوں نے ویژن 2010 کے عنوان سے ایک عمدہ منصوبہ پیش کیا۔ اہداف انتہائی خوش کن اور تفصیلات انتہائی خوشگوار تھیں۔ تاہم سوئے اتفاق کہ اس کے بعد سیاسی چراغوں کی سپلائی میں رخنہ اندازی کے سبب سیاسی چراغوں کی روشنی بجھ گئی۔ 2013 میں انھیں دوبارہ یہ منصب عطا ہوا تو انھوں نے ایک بار پھر کمر باندھی اور ویژن 2025 کے عنوان سے ایک نیا منصوبہ پیش کر دیا۔

 اس منصوبے کو چوتھا سال ابھی لگا نہ تھا کہ پاناما اسکینڈل آن ٹپکا، سب سیاسی اسباب ٹھاٹھ پڑا رہ گیا اور سیاسی بنجارہ ایک بار پھر… یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے… والی کیفیت سے دو چار ہوا۔ اب تیسری بار انھیں پھر یہ موقع ملا تو دھن کے پکے ڈاکٹر احسن اقبال نے ایک اور منصوبہ پیش کیا ہے جو ہے تو پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ لیکن غیرمعمولی اہداف کے شایان شان نام ’’اڑان‘‘ رکھا ہے۔

اس اڑان منصوبے میں وہی معاشی اہداف نئے نئے سیاق و سباق میں درج ہیں جو پچھلے تمام ویژن ڈاکومنٹس کا حصہ رہے۔ نئے ویژن کے مطابق 2030 تک معیشت کا موجودہ سائز 300 /350 سو ارب ڈالر سے بڑھا کر ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا عزم ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں برامدات کا ہدف 60 ارب ڈالر مقرر ہے۔ آئی ٹی ایکسپورٹس کا حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔

 شرح خواندگی میں 10 فیصد اضافے کا ہدف ہے۔ اس پروگرام میں پانچ بنیادی پلرز کو بنیاد بنایا گیا ہے جس میں ایکسپورٹس، مینوفیکچرنگ، زراعت، سرمایہ کاری، ای سسٹم پر معیشت کو کھڑا کرنا، ریفارمز، آئی ٹی کا پھیلاؤ، گورننس بہتر کرنا، کرپشن میں کمی اور ایسا معاشی ڈھانچہ استوار کرنا جس کے معاشی ثمرات زیادہ سے زیادہ لوگ تک پہنچ پائیں، شامل ہیں۔

ان اہداف سے کسے انکار ہوگا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ گزشتہ 35/ 40 سالوں سے معیشت اور سیاست کے رائیگاں سفر میں ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ ایسے خوشنما وعدے اور ویژن ماضی میں بھی ترتیب پائے، خوب مشتہر ہوئے، تھوڑا بہت عمل بھی ہوا لیکن اس کے بعد زمینی حقائق کی سنگینیوں نے انھیں نگل لیا۔ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام، مضبوط ادارے، مؤثر قانونی نظام، موافق کاروباری ماحول اور مؤثر انفرااسٹرکچر لازم ہیں۔

گزشتہ 30 سالوں کے دوران گلوبلائزیشن نے ریجنل ٹریڈ، انویسٹمنٹ اور بین الممالک آمد و رفت کو بہت تیزی سے بڑھایا ہے۔ مختلف ملکوں کے تجارتی اعداد وشمار دیکھیں تو اکثر ممالک کے تجارتی حجم کا غالب حصہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت پر مبنی ہے تاہم ہمارے ملک میں پچھلے 50 سال سے گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ اسمگلنگ کا عروج ہے۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ قانونی تجارت بہت کم ہے۔ علاقائی ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کیے بغیر تجارتی پھیلاؤ کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔

وزیراعظم اور ان کی پارٹی اکثر میثاق معیشت کی ضرورت کا ذکر تواتر کے ساتھ کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ ایک سطحی بیانیہ ہے۔ مختلف معاشی اشاریوں کی نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا معاشی ڈھانچہ فرسودگی پر استوار ہے، زراعت اور مینوفیکچرنگ جمود کا شکار ہیں، ٹیکس کلچر ماضی کی طرح ساکت ہے، ریفارمز کا ڈھول بجایا خوب جاتا ہے لیکن عمل تقریباً صفر۔ بجلی گیس کا نظام پوری معیشت کی گردن پر سوار ہے۔

آٹھویں ترمیم کے بعد معاشی نظامت کا بہت بڑا حصہ صوبوں کی ذمے داری ہے، 18ویں ترمیم کے بعد وسائل کا بہت بڑا حصہ حاصل کرنے کے باوجود صوبوں کا انداز نظامت اور معیشت میں بہتری لانے کا ریکارڈ مایوس کن ہے …کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں… پنجابی زبان کی ایک بولی کچھ یوں ہے:

میرے سانولے جئے رنگ تے نہ جائیں

ماں مینوں چن آکھدی

( میرے سانولے رنگ پہ نہ جانا، میری خوبصورتی کی تعریف میں ماں مجھے چاند کہتی ہے)۔ حکومت نے یہ منصوبہ ایسی ہی چاہت سے تیار کیا ہے، اسی لیے منصوبے کا نام اڑان رکھا تاہم یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جب تک ان اہداف کی کے حصول کے لیے مربوط اسٹریٹجیز، منظم پالیسیز اور موافق سیاسی ماحول دستیاب نہ ہوا، اس اڑن منصوبے کا حال بھی گزشتہ منصوبوں کی طرح نہ ہو کہ فقط نام میں کیا رکھا ہے!





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں