6

’’فیصلہ اپنی اہمیت کھو چکا، وہ حق میں آتا ہے یا خلاف‘‘


لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ ایک تو یہ چیک کروا لیں کہ فیصلہ کس برانچ میں پھنسا ہوا ہے، مجھے لگ رہا ہے کہ یہ فیصلہ کہیں پھنسا ہوا ہے جب آپ نے کہا کہ دستخط شدہ فیصلہ موجود ہے تو بہتر تھا ان سے پوچھ لیتے کہ دستخط کس کے ہوئے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے جج تو آپ کو پتہ ہے نہ کہ ماشا اللہ، دوسرا یہ کہ ہمارے ججوں کو آج کل یہ بہت جلدی ہے کہ ہم نے بہت سارے فیصلے کرنے ہیں تو اس لیے ان کے پاس ٹائم نہیں تھا۔

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ فیصلہ جو بھی آئے گا تاہم جس طرح اس کا انتظار کیا جا رہا ہے، فیصلہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے وہ حق میں آتا ہے یا خلاف آتا ہے، اب یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ وہ مذاکرات کا نتیجہ ہوگا، بات بن گئی تو یہ آئے گا بات نہیں بنی تو یہ آئے گا۔

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ جج کی طرف سے فیصلہ نہ سنانے کی جو وجوہات بیان کی گئیں تو یہ بڑی عجیب سی ریزننگ کی جا رہی ہے، ملزم کو اس کی عدم موجودگی میں سزا سنانے کی نظیر موجود ہے۔

ہم کرپشن کی بات کر رہے ہیں آپ دیکھیں کہ جنرل پرویز مشرف پر ان کی عدم موجودگی میں سنگین غداری کا مقدمہ چلا کرعدم موجودگی میں ہی انھیں سزائے موت سنا دی گئی تھی تو عمران خان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ کیوں نہیں آ سکتا۔

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، ہمارے رپورٹر کا کہنا ہے کہ جج صاحب کے چہرے پر اکتاہٹ طاری تھی، جب انھوں نے کہا فیصلہ میرے پاس دستخط شدہ موجود ہے اور وہ نہیں آئے۔

حالانکہ ہم دیکھیں تو جج بشیر صاحب جو بڑے مشہور ہیں جنھوں نے دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کو سزا دی،جج ایک ہی ہیں کیس الگ الگ عدالتوں میں لگے ہوئے تھے، غیر حاضری میں سزا نہیں سنائی جاسکتی مگر یہ کام اسی اڈیالہ جیل میں بھی ہو چکا ہے۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا دلچسپ بات یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے پہلے بتایا گیا کہ فیصلہ سنایا جائے گا، سب کو بڑی دیر سے اس کا انتظار تھا، یہ دو بار پہلے موخر ہو چکا تھا اب تیسری بار موخر ہوا ہے، فیصلے سنانے میں کیا مشکل تھی؟۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں