لاہور:
رہنما مسلم لیگ (ن) افنان اللہ خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن میں فیصلے محفوظ ہوئے ہیں اور ان کو بہت دیر کے بعد سنایا گیا ہے، مثال کے طور پرلاہور میٹرو کو جو کیس تھا اس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے ایک سال بعد سنایا گیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو تاخیر ہے ظاہر ہے اہم کیس ہے اس پر جج نے اپنا ٹائم لینا ہے، آج جج صاحب فیصلہ سنانے کو تیار تھے، عمران خان کمرہ عدالت میں نہیں گئے اور بشریٰ بی بی بھی وہاں پر نہیں آئیں۔
رہنما تحریک انصاف عون عباس بپی نے کہاکہ آج پہلی دفعہ فیصلہ موخر نہیں ہوا تیسری دفعہ ہوا ہے، کیا پچھلی دو دفعہ بھی خان صاحب اور بشریٰ آپا تشریف نہیں لائیں تھیں؟، آج صبح ساڑھے آٹھ بجے جب جج تشریف لائے تو گیارہ بجے فیصلے سنانے کا فیصلہ کیا تھا، ساری دنیا کو پتہ تھا کہ گیارہ بجے وہ ساڑھے دس بجے یہ کہہ کر چلے گئے کہ خان صاحب اور بشریٰ بی بی تشریف نہیں لائے۔
بھئی آپ اڈیالہ جیل میں ہیں خاں صاحب بھی اڈیالہ جیل میں ہیں، گیارہ بجے ملزم نے پیش ہونا تھا تو آپ انتظار کر لیتے۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا کہ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ فیصلہ سنانے کے پیچھے کیا پراسراریت ہے یا نہیں ہے، ہمارے ہاں تو عدالتوں میں تاریخیں پڑتی رہتی ہیں، چھبیس چھبیس مرتبہ عدالتیں فیصلے نہیں سناتیں۔
یہ ہے کہ یہ اتنا ہائی پروفائل کیس ہے کہ اس میں جج معمول کے مطابق ریلیکسڈ نہیں ہو سکتا، چلو آج بھی میں موخر کر دیتا ہوں آج میں چھٹی پر ہوں،آج وہ کہتے ہیں کہ وکلا نہیں پہنچے، ٹی وی پر چلتا رہا ہے کہ پیر گیارہ بجے فیصلہ سنائیں گے، جج تو سنا ہے کہ آٹھ ، ساڑھے آٹھ بجے پہنچ گئے۔