لاہور:
تجزیہ کارحسن ایوب کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اللہ کے بیانات کو اگر آپ دیکھیں تو وہ شاید پلس چیک کر رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ کسی طریقے سے تحریک انصاف اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کردے، جب وہ مطالبات پیش کر دیں تو اس کے بعد حکومت اور مسلم لیگ (ن) کو بلخصوص یہ موقع مل جائے کہ یہ این آر او مانگ رہے ہیں تو میرے خیال میں سیاست ہو رہی ہے اس کو سنجیدہ مت لیجیے گا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے منجن بیچا جا رہا ہے اور بار بار بیچا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار عامر ضیا نے کہا کہ پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھنی چاہیے کہ 31جنوری کی جو ڈیڈ لائن دی جا رہی ہے اس پر بھی سوالیہ نشان یوں کھڑا ہو گیا ہے کہ کل میری وقاص اکرم سے بات ہو رہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اگر تیسرے مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوتی ہے تو پھر ہم چوتھی اور پانچویں میٹنگ کی بات کرسکیں گے۔
اگر تیسرے دور میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو ہماری طرف سے نہ ہی سمجھیں تو ایک طرف سے تو یہ سگنل آ رہا ہے، تحریک انصاف کے اب تک جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں ایک مطالبہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ہے۔
تجزیہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ سارا کونٹیکسٹ یہی ہے کہ جعلی مینڈیٹ ہو یا اصل مینڈیٹ ہو ، 45 ہو یا 47 ہو یا آر ٹی ایس کا فیلیر ہو کسی زمانے میں آر ٹی ایس کے 2018 میں فیل ہونے پر کوئی بات ہی نہیں کر رہا،وہ اگر دھاندلی تھی توتسلیم ہے اور آج کی دھاندلی وہ تسلیم نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اصولوں کی بنیاد پر بات نہیں ہو رہی، بات اپنے سیاسی مفادات کی ہو رہی ہے لیکن اب تو اسی 47 والی گورنمنٹ کے ساتھ مذاکرات کیلیے بار بار کہا جا رہا ہے۔