7

آسٹریلیا میں آخر کب جیتیں گے؟

حفیظ کے بلند و بانگ دعووں نے امیدیں بڑھا دی تھیں لیکن ایک اور سیریز گنوا دی۔ فوٹو: گیٹی

حفیظ کے بلند و بانگ دعووں نے امیدیں بڑھا دی تھیں لیکن ایک اور سیریز گنوا دی۔ فوٹو: گیٹی

’’خاں خوں خو‘‘ ڈریسنگ روم میں عجیب آوازیں سن کر محمد حفیظ چونکے، نشست سے اٹھ کر دیکھنے لگے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے تو ایک کھلاڑی کو سوتے ہوئے پایا، تھوڑی دور ایک اور کرکٹر نیند پوری کرتا نظر آیا، یہ دیکھ کر ٹیم ڈائریکٹر حیران رہ گئے، انھوں نے خواب خرگوش کے مزے لوٹنے والے کھلاڑیوں کو اٹھایا اور کہا کہ ’’ یہ کیاکوئی نیند پوری کرنے کی جگہ ہے؟ آپ لوگ ہوٹل میں کیوں نہیں سوتے‘‘

یہ کوئی من گھڑت بات نہیں بلکہ کینبرا کا واقعہ ہے جہاں پاکستانی ٹیم آسٹریلوی پرائم منسٹر الیون سے وارم اپ میچ کھیل رہی تھی، بطور ہیڈ کوچ (ٹیم ڈائریکٹر) حفیظ کی چونکہ یہ پہلی اسائنمنٹ ہے اس لیے وہ اس ’’سوتے کلچر ‘‘ سے واقف نہیں تھے، انھوں نے ایک میٹنگ طلب کی جس میں کھلاڑیوں کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ آئندہ اگر کسی بھی میچ میں نان پلئینگ ممبر کو بھی ڈریسنگ روم میں سوتا پایا تو 500 ڈالر جرمانہ ہو گا، یہ سن کر پلیئرز تلملائے انھوں نے شان مسعود سے کہا کہ وہ حفیظ سے کہیں ہمیں اسکول بوائز کی طرح ٹریٹ نہ کریں، جرمانہ ہم کیوں دیں؟ کپتان نے یہ بات ڈائریکٹر تک پہنچا دی لیکن وہ نہ مانے۔

یہ ایک واقعہ ہے اس طرح کی اور بھی بہت سے چیزیں ہیں جنھیں حفیظ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ان کی نیت پر شک نہیں، پاکستان کے ایسے کرکٹرز جنھوں نے پیسوں کیلیے اپنا ایمان نہیں بیچا ان میں حفیظ بھی شامل ہیں،البتہ انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ پروفیسر ایسے ہی عرفیت پڑ گئی وہ کسی کالج میں نہیں پڑھاتے کہ کرکٹرز کے ساتھ اسٹوڈنٹس جیسا سلوک کریں، ساتھ ہی کھلاڑیوں کو بھی اپنا رویہ بہتر بنانا چاہیے،راتوں کو جاگ کر پاکستان باتیں نہ کریں نیند پورا کرنا مناسب ہوگا، حفیظ کو فیصلوں میں بھی محتاط رہنا چاہیے، بعض اوقات آپ سب سے الگ سوچ کر بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔

میڈیا مینجمنٹ میں بھی ڈائریکٹر صاحب کو دھیان رکھنا چاہیے، ان کے بعض بیانات جگ ہنسائی کا سبب بھی بنے، ہار گئے تو اسے مان لیں تاویلیں دیں گے تو لوگ سوال اٹھائیں گے،ویسے بھی امپائرنگ جیسے موضوع پر سخت بیانات آئی سی سی کو بھی گراں گذر سکتے ہیں، حفیظ کے سامنے کپتان شان مسعود دب سے گئے، ٹیم ڈائریکٹر ہی حاوی نظر آتے ہیں، سنا ہے میٹنگز میں بھی وہ کھلاڑیوں سے طویل خطاب کے بعد ہی کہتے ہیں ’’جی شان آپ کی کیا رائے ہے‘‘ کپتان کو اسپیس دینا ہوگی تب ہی وہ کامیاب ثابت ہوں گے، ویسے میدان میں شان بہتر فیصلے کرتے دکھائی دیے ہیں۔

دوسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں انھوں نے مثبت انداز سے کھیلتے ہوئے نصف سنچریاں بنائیں جس پر داد بھی ملی،اگر کوئی کپتان خود پرفارم کرے تب ہی دوسروں کو بھی اچھے کھیل کی تحریک دلا سکتا ہے،ابھی یہ شان کی بطور کپتان پہلی اور مشکل ترین سیریز ہے، وقت کے ساتھ ان کی کارکردگی میں نکھار آ سکتا ہے، حفیظ ٹیم کے کھیلنے کا انداز بھی بدلنا چاہتے ہیں،پہلے ٹیسٹ سے قبل انھوں نے کھلاڑیوں کو مثبت انداز سے بیٹنگ کرتے ہوئے 80 اوورز میں جتنے رنز بنانے کو کہا وہ اس کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔

امام الحق اور عبد اللہ شفیق دونوں ہی محتاط انداز سے کھیلتے ہیں، اس لیے ٹیم کو مشکل ہوتی ہے، جدید دور کی کرکٹ میں آپ اسکور بورڈ کو متحرک رکھیں تب ہی فائدہ ہوگا،خیر اب سنا ہے ٹیم مینجمنٹ نے سڈنی میں صائم ایوب کو ڈیبیو کرانے کا فیصلہ کیا ہے،وہ نوجوان اور باصلاحیت بیٹر ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کھیل کی دھاک بٹھا چکے امید ہے ٹیسٹ میں بھی کامیاب رہیں گے، امام الحق کو بہت مواقع ملے، ان کا قبل از وقت ڈیبیوانکل انضمام الحق کی وجہ سے ممکن ہوا، پھر بابر اعظم سے دوستی کام آتی رہی۔

اب انضمام چیف سلیکٹر ہیں نہ بابر کپتان، ایسے میں صرف اچھی کارکردگی ہی امام الحق کو بچا سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے آسٹریلیا کیخلاف چار اننگز میں وہ ایک ہی ففٹی بنا سکے، وہ بھی اعتماد سے عاری اننگز تھی، عبد اللہ اسٹائلش تو ہیں لیکن انھیں کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا، ساتھ کیچ ڈراپ کرنے کی خامی بھی دور کرنا چاہیے، میلبورن ٹیسٹ کی شکست میں ان کے کیچز چھوڑنے کا اہم کردار ہے، آفرین کپتان اور کوچز پر بھی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے انھیں سلپ میں ہی کھڑا کرتے رہے،جب ہوش آیا تو میچ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

بابر اعظم آسٹریلیا کے خلاف بجھے بجھے سے نظر آئے ہیں، انھیں کپتانی کھونے کا دکھ بھول کر ٹیم کے لیے پرفارم کرنا ہوگا، پاکستان کے لیے ان فارم بابر اعظم کا ساتھ بیحد ضروری ہے، کپتانی تو آنی جانی چیز ہے کیا پتا کچھ عرصے بعد دوبارہ انھیں ذمہ داری مل جائے، سعود شکیل کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایشیائی کنڈیشنز کے باہر بھی اچھا کھیل پیش کر سکتے ہیں۔

بولنگ میں شاہین آفریدی پر کام کا بوجھ دیکھنا ہوگا، 2 ٹیسٹ میں انھوں نے تقریبا 100 اوورز کیے، بولنگ مشین کی طرح استعمال انھیں دوبارہ انجرڈ بھی کر سکتا ہے، ابھی آرام کرانے کا موقع نہیں لیکن نیوزی لینڈ میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے،ٹیم اب سڈنی پہنچ چکی۔

پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف بھی ان دنوں آسٹریلیا میں ہی ہیں، میلبورن میں ان سے قومی کرکٹرز سے ملاقات ہوئی جہاں محمد رضوان نے بہت کھل کر گفتگو کی،ویسے ان کا یہ کہنا درست ہے کہ کرسی کسی کی نہیں ہوتی آج کوئی تو کل دوسرا بیٹھا ہوگا، جسے موقع ملے اسے بہترین انداز میں کام کرنا چاہیے،یہ مطالبہ بھی غلط نہیں کہ چیئرمین کو اہل لوگوں کو آگے لانا چاہیے، ورلڈکپ سے قبل رضوان یہ بھی چاہتے ہیں کہ پتا ہونا چاہیے کون کھیلے گا اور کون نہیں، کیسے ٹرافی جیتیں گے اس کی پلاننگ کرنا چاہیے۔

حفیظ نے میٹنگ میں کہا کہ ٹیم کو تیاریوں کیلیے تین ہفتے قبل بھیجنا چاہیے تھا، ویسے بھائی 59 سال میں کئی ایسے مواقع آئے جب ٹیم کافی پہلے چلی گئی تھی لیکن کچھ نہ ہوا اب بھی سوائے اہل خانہ کے ساتھ سیر کے اور کیا ہوتا، آفیشلز کی فوج آسٹریلیا گئی ہے جس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، سنا ہے ایک فرد پر سوا کروڑ روپے اخراجات آئے ہیں، کمال ہے ویسے، مال مفت دل بے رحم۔

اس بار آسٹریلیا میں ٹیم سے بہتر کارکردگی کی توقع تھی شاید حفیظ کے بلند و بانگ دعووں نے امیدیں بڑھا دی تھیں لیکن ایک اور سیریز گنوا دی، اب کم از کم تیسرا ٹیسٹ جیت کر کچھ تو عزت رکھ لیں، البتہ اس کے لیے ایکسٹرا رنز پر قابو پانا اور بہتر فیلڈنگ بھی بیحد اہم ہیں،امید ہے ٹیم سڈنی میں مایوس نہیں کرے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں