10

اداروں سے مستفید ہونے والے انہیں اپنا باپ بنالیتے ہیں، نگراں وزیراعظم

 لاہور:نگراں وزیراعظم انوارالحق  کاکڑ نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں نظام عدل پر بڑے سنگین سوالا ت ہیں، ریاست کے چند اداروں سے مستفید ہوتے ہیں تو انہیں ابا کا درجہ دینا شروع کردیتے ہیں، اور جب مستفید نہیں ہوتے تو انہیں سوتیلا باپ بنالیتے ہیں۔

بیکن ہاؤس  نیشنل یونیورسٹی لاہور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے  نگراں وزیراعظم  نے کہا  کہ نوجوان قوم کا مستقبل ہیں انہیں قومی ترقی میں اپنا کردارادا کرنا ہے۔

ایک طالبہ کے اس سوال کہ یوسف رضاگیلانی اور نوازشریف کی حکومت کے خاتمے یا قاسم کے ابا کی گرفتاری کےلیے عدالتیں رات میں کھول دی جاتی ہیں لیکن زینب مرڈر کیس اور  موٹر وے گینگ ریپ اور اسی  جیسے دیگر واقعات میں ایسا نہیں ہوتا، کے جواب میں  نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں نظام عدل پر بڑے سنگین سوالا ت ہیں اور جب تک  ہم ان  سوالات کے جوابات تلاش نہیں کریں گے یہاں کسی کا محفوظ رہنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصولوں کا اطلاق یکساں ہونا چاہیے۔  قاسم کے ابا جب  وزیراعظم ہوتے ہیں تو انہیں حمید کی اماں نظر نہیں آتیں۔ ریاست کے چند اداروں سے مستفید ہوتے ہیں تو انہیں ابا کا درجہ دینا شروع کردیتے ہیں، اور جب مستفید نہیں ہوتے  تو انہیں سوتیلا باپ بنالیتے ہیں۔

معیشت سے  متعلق  ایک سوال کے جواب میں  وزیراعظم نے کہا کہ تمام حکومتیں  چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمرانہ دورحکومت ہو، ایک تسلسل کے ساتھ  ٹیکس  وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے  کہا کہ ہمارے ہاں 10  ہزار ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری  ہوتی ہے،جس پر قابو نہیں پاسکے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ  یہ میں دستایزی معیشت کے حوالے سے بات کررہا ہوں، جو صرف 20  فیصد ہے جبکہ باقی 80  فیصد غیردستاویزی معیشت  ہے۔

انہوں نے  کہا کہ  سب سے پہلے ٹیکس سسٹم ڈیولپ کرنا پڑے گا، ہم سب ایک آئیڈیل اسکینڈے نیوین ملک میں رہنے کی خواہش کرتے ہیں مگر وہاں جی ڈی  پی کے  لحاظ سے ٹیکس کا تناسب 91  فیصد  ہے۔  جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح صرف 9 فیصد ہے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ  نگراں وزیراعظم کے  طور پر مجھے فخر ہے کہ برسوں کے بعد  ہم نے گذشتہ  سہ ماہی میں اپنا ٹیکس  ہدف پورا کیا۔  اگر ہم یہ تین مہینے میں کرسکتے ہیں تو پھر دوسری حکومتیں کیوں نہیں کرسکتیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ تین مہینے میں ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل بنیادوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہورہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکوموتی ڈھانچے میں سنگین خامیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  ملکی آمدن اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق ہے۔تعلیم صحت اور دیگر سہولیات کے لیے ٹیکسیشن کا مربوط نظام ناگزیر ہے۔

اسموگ کی وجوہات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ  ماحولیات کے حوالے سے معاشرے  کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں قوانین کا نفاذ تمام حکومتوں کا مسئلہ رہا ہے۔ معاشرہ خود  قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

قوانین موجود ہیں مگر جب ان کا نفاذ کرتے ہوئے کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر یہ شور شروع  ہوجاتاہے کہ اس کے شخص کے حقوق کی خلاف ورزی ہوری ہے۔  اور جب بھی قوانین کے نفاذ کی کوشش کی جاتی ہے تو انسانی حقوق کے گروپ سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔

دیگر مسائل اپنی جگہ مگر معاشرے میں بھی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ  ڈالنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب قوانین کے نفاذ کی سطح پر اسٹرکچرل مسائل بھی پائے جاتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمیں سول اسٹرکچرل  اصلاحات  اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

فلسطینویوں سے اظہاریکجہتی  کے طور پر سال نو کے  آغاز کی تقریبات  پر پابندی سے متعلق  سوال کے جواب میں نگراں وزیرعظم نے کہا کہ اس فیصلے پر تنقید بھی ہوئی اور تعریف بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ  سال نو کی تقریب نہ منانے کا مقصد دنیا کو فلسطینیوں پر مظالم سے آگاہ کرنا تھا۔ فلسطین میں جاری خونریزی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ  اس فیصلے سے ہم نے مغرب پر واضح کردیا ہے کہ  ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن پراسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے۔ ہم براہ راست اس جنگ میں ملوث نہیں ہیں اور نہ ہی میں چوبیس کروڑ عوام کو جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرسکتا ہوں مگر ہم ہر فورم پر فلسطین کے لیے آواز اٹھارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ جنگ بند ہو۔

انہوں نے کہا کہ  پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اس مسئلے پر امریکا سے بات کی ہے، ہم نے دنیا کو بتایا  ہے کہ فلسطین میں ظلم و تشدد سے ڈیڑھ ارب مسلمان اضطراب میں ہیں۔

اسلام آباد میں بلوچستان سے آنےو الے مظاہرین کے حوالے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ  پہلی بات تو یہ ہے کہ احتجاج قانونی حدود میں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت  کو قانون کا نفاذ کرنا  ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں مظاہرین کو قانون کے مطابق روکا گیا، ریاست تشدد کی اجازت نہیں دے سکتی۔  مظاہرین کی  جانب سے پتھراؤ یا حملے پر قانون اپنا راستہ اختیا کرتا ہے۔  انہوں نے کہا کہ حراست میں لیے گئے تمام افراد کو رہا  کردیا گیا ہے۔

نگراں وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نوجوانوں کو بیرون ملک ضرور مواقع تلاش کرنے چاہیئں۔ ہونہار نوجوانوں کا ملک سے جانا برین ڈرین  نہیں ہے بلکہ وہ  ہمار اثاثہ بن رہے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں