13

تکبّر کا فساد اور مذمّت

معاشرہ جن بُرے اخلاق اور اعمال سے بگاڑ اور فساد کی طرف جاتا ہے، تکبّر ان میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی وجہ سے تکبّر کو ہر معاشرے میں بُرا عمل تصور کیا جاتا رہا ہے۔ جس طرح بہت سے اچھے اخلاق اور نیک اعمال دوسرے نیک اعمال کا سبب بن جاتے ہیں اسی طرح بہت سے بُرے اعمال دوسرے بُرے اعمال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

تکبّر بھی ایسا ہی گناہ ہے جو بہت سے گناہوں، ظلم، فتنہ و فساد اور قتل و غارت کا سبب بنتا ہے۔ تکبّر تمام اخلاقی بیماریوں کی جڑ ہے اس لیے بسا اوقات اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور اس گناہ کا مرتکب اس میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔

تکبّر کبر سے ہے اور کبر کا لغوی معنی ہے دوسروں پر اپنی فوقیت اور برتری کو ظاہر کرنا۔ قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ تکبّر بہت بڑا گناہ ہے، اس کے نتائج اور ثمرات بہت ہی تباہ کن ہیں۔ جو شخص تکبّر اور غرور کے نشے میں سرشار ہوتا ہے وہ حق بات کو قبول نہیں کرتا۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت سب سے پہلے وہ لوگ قبول کرتے ہیں۔

جن کے دل غرور سے پاک ہوتے ہیں۔ جب کسی انسان پر غرور کا بھوت سوار ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے ساری دلیلیں بے کار ہو جاتی ہیں، تبلیغ و ارشاد کے تمام طریقے بے سود ہو جاتے ہیں جن کو قبول کرنا تو درکنار ان کو سننے کے لیے بھی وہ تیار نہیں ہوتا۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور لوگوں کے لیے اپنا رخسار نہ پُھلا اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک! اﷲ تعالی کسی اکڑنے والے، فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ لقمان)

تکبّر کی مذمت آپ ﷺ نے بھی مختلف احادیث میں کی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبّر ہو، ایک شخص نے پوچھا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے عمدہ ہوں تو کیا یہ بھی تکبّر کے زمرے میں آتا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ خوب صورت ہے اور وہ خوب صورتی کو پسند کرتا ہے، تکبّر کا مطلب ہے حق کو ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ ماننا اور لوگوں کو کم تر سمجھنا۔‘‘ (جامع ترمذی)

تکبّر انسان کی اپنی رسوائی کا سبب بھی بنتا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا: اے لوگو! عاجزی اور انکساری اختیار کرو کیوں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اﷲ تعالی اسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے اور جو تکبّر کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے گرا دیتا ہے، وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل اور رسوا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح)

تکبّر کے اسباب میں سے ایک اہم سبب خود بینی یا خود پسندی ہے۔ خود پسندی کا مطلب ہے اپنے آپ کو ہی دیکھتے رہنا یا اپنے نفس کے خیال میں مبتلا رہنا۔ اس کی شرعی تعریف یہ کی گئی ہے: ’’کسی شخص کا خود کو کسی ایسے مقام اور مرتبے کا مستحق تصور کرنا جس کا وہ اہل نہ ہو۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تین چیزیں ایسی ہیں جو نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔

نجات دینے والی چیزیں یہ ہیں: نمبر ایک ہر حال میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا خواہ اکیلے ہوں یا لوگوں کے ساتھ۔ نمبر دو ہر حال یعنی خوشی اور غمی میں حق اور سچ بات کہنا۔ نمبر تین ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا خواہ مال و دولت زیادہ ہو یا کم ہو۔ اسی طرح ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں، نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا، لالچ اور طمع کے پیچھے لگنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا۔ یہ آخری چیز پہلی دو کے مقابلے میں زیادہ ہلاک کرنے والی ہے اور اسی کو عجب کہا جاتا ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

تکبّر کے اسباب میں سے دوسرا اہم سبب حب جاہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اقتدار، شان و شوکت اور رعب حاصل کرنے کی ہی فکر میں رہے۔

حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان مال کا جمع کرنے والا اور عزت و منصب کو حاصل کرنے والا شخص حرص اور لالچ میں اپنے دین کو تباہ و برباد کر کے پہنچاتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)

انسان کے اندر تکبّر آنے کی تیسری بڑی وجہ ریاکاری ہے۔ نیک اعمال جیسے نماز اور صدقہ زکوٰۃ وغیرہ کو اﷲ کے علاوہ کسی کو دکھانے کے لیے سرانجام دینا ریاکاری کہلاتا ہے۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ ہمارے مابین مسیح دجال کا تذکرہ ہو رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس کا نہ بتاؤں جس میں تمہارا پڑ جانا میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ ڈرنے کی بات ہے۔ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شرک خفی یعنی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہے تو یہ دیکھ کر کہ کسی کی اس پر نظر ہے اپنی نماز کو جاذب نظر بناتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے نماز پڑھی اور دکھلاوے کے لیے پڑھی، اس نے بھی شرک کیا، جس آدمی نے روزہ رکھا اور دکھلاوے کے لیے رکھا، اس نے بھی شرک کیا اور جس آدمی نے جہاد کیا اور دکھلاوے کے لیے کیا اس نے بھی شرک کیا۔

تکبّر میں مبتلا ہونے کا چوتھا اہم سبب حسد ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں حسد سے مراد ہے صاحب نعمت شخص کو دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے۔ انسان حسد کی وجہ سے تکبّر اور بڑائی کی طرف ترقی کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی ہدایت دی ہے۔

(سورۃ الفلق)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’حسد سے بچو کیوں کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘

تکبّر کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ دل میں اپنی بڑائی ہو اور ظاہر میں تواضع اور انکساری ہو۔ تکبّر کا یہ درجہ انتہائی خطرناک ہے اور اس کا تجزیہ کرنا بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے اس درجے میں تکبّر صرف دل تک محدود رہتا ہے اور انسان کے عمل یا قول میں داخل نہیں ہوتا۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل کے بعد اپنے افعال و اعمال میں تکبّر کا اظہار کرنا مثلا کوئی شخص مجالس، محافل، دوستوں، خاندان اور معاشرے میں اپنے عمل و فعل کے ذریعے اپنی بڑائی کو ظاہر کرے۔ حدیث میں تہبند یا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا عملی تکبر کی صورت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بعض اوقات لباس کے ذریعے بھی عملًا اپنی بڑائی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

تکبّر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور عمل سے بڑھ کر اپنی زبان سے فخر کا اظہار کرے، مثلاً اپنے نیک ہونے کے دعوے کرے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ باتوں باتوں میں ہر کسی کو اپنے تہجد گزار ہونے، نیک ہونے اور بڑا عالم دین ہونا بتلانے کے لیے بے چین اور مضطرب رہتے ہیں اور اس کا اپنی زبان سے اظہار کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اپنی پاکیزگی کا دعوی نہ کرو، وہ زیادہ جاننے والا ہے کہ کون متقی ہے۔‘‘ (سورۃ النجم)

ہر معاشرے میں فساد و بگاڑ کے جنم لینے کے بڑے اسباب میں سے ایک اہم سبب تکبّر کا مرض ہے۔ دراصل تکبّر قدرت کے خلاف بغاوت اور فطرت انسانی کے خلاف ایک ایسی ناپاک کوشش اور بُرا عمل ہے جس کو کوئی بھی معاشرہ پسند نہیں کرتا۔ اور متکبّر شخص کو ہر معاشرے میں ذلت و حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر مرض کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ معاشرتی اور انسانی، تمام خرابیوں کی جڑ یہ ایک مرض بھی ہے۔

تکبّر کی معاشرتی صورتیں جو کہ درج ذیل ہیں۔ کوئی انسان مال کے ذریعے تکبّر کرتا ہے۔ ایک مال دار شخص مال کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ جو مال دار بھی غریب کو حقیر جانے یعنی اس کے پاس بیٹھنے یا اس کے ساتھ کھانے یا اس کے ساتھ چلنے یا اس سے گفت گُو کرنے یا اس کے گھر جانے یا اس کے محلے میں جانے یا اس کے ساتھ دوستی کرنے میں ہچکچاہٹ اور حجاب محسوس کرے وہ اس تکبّر میں مبتلا ہیں۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ سوچے ایک دن ایسا آنے والا ہے سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ اس اس دنیا سے جانا ہے لہٰذا میں اس عارضی چیز پر فخر کر کے اپنے رب کو کیوں ناراض کروں؟

کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے گئے حُسن پر اترائے اور دوسروں کو اپنے سے کم سمجھے۔ تکبّر کی اس قسم کے تدارک کے لیے ہمیں اپنا آغاز اور اختتام دیکھنا اور سوچنا چاہیے۔ ہماری ابتدا ایک ناپاک قطرے سے ہوئی ہے اور ہمارا اختتام مٹی ہے تو جس کی ابتدا ناپاک قطرے سے ہوئی ہو اور اختتام اس کا مٹی ہو تو تکبّر کس بات کا ہے؟

کبھی حلقۂ احباب کی کثرت کے ذریعے تکبّر کیا جاتا ہے۔ تکبّر کی صورت میں ایک شخص اپنی جماعت کی کثرت کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنا یہ ذہن بنائے کہ فانی دنیا پر اور اس قسم کی جماعت پر فخر کرنا عارضی ہے۔ کیوں کہ عزت و منصب جاہ و جلال کب تک کسی کا ساتھ دیں گے؟ جس منصب کے بل بوتے پر آج ہم اکڑتے ہیں کل کو چھن گیا تو انہی لوگوں سے منہ چھپانا پڑے گا۔ جن سے آج ہم تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں۔

کبھی انسان علم کے ذریعے تکبّر کرتا ہے۔ علم اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی۔ علم کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا سبب، علم سے انسان کو اپنی اور اپنے رب کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔ البتہ جب علم سے اپنی بڑائی اور تکبّر پیدا ہو پھر یہ علم وبال کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس تکبّر کا علاج یہ ہے کہ انسان شیطان کے انجام کو یاد رکھے کیوں کہ شیطان نے تکبّر کرتے ہوئے خود کو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے افضل قرار دیا تھا۔

تکبّر کا ایک سبب کام یابی اور کام رانی ہوتا ہے۔ جب کسی انسان کو مسلسل کام یابیاں ملتی ہیں تو وہ ناکام ہونے والے لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے اور خود کو کام یاب تصور کرتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ انسان یہ نہ بھولے کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، بلندیوں پر پہنچنے والوں کو اکثر پستی میں واپس آنا پڑتا ہے۔

ہر عروج کو زوال میں تکبّر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کام یابی پر اﷲ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسے اپنا کمال ہرگز تصور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

انسان جب یہ ذہن بنا لے کہ جسے میں اپنی کام یابی سمجھ رہا ہوں وہ فقط دنیاوی کام یابی ہے جو کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گی۔ اصل کام یابی تو یہ ہے کہ انسان اس دنیا سے ایمان کی سلامتی لے کر جائے۔ انسان یہ سوچے کہ کیوں نہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کروں اور اپنے اﷲ عزوجل کو راضی کر لوں؟

کتاب و سنت کی تعلیمات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ اﷲ رب العزت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا اور اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ہر اعتبار سے درست ہے جب کہ دوسروں کو حقیر جاننا اور خود پسندی کا شکار رہنا اور بڑے بڑے دعوے کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو تکبّر کے بہ جائے عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں