1

حکومت سازی اور معاشی استحکام

پاکستانی عوام آنے والی حکومت سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستانی عوام آنے والی حکومت سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ فوٹو:فائل

ملک میں حکومت سازی کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے، پنجاب اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے حلف اٹھا لیا جب کہ دیگر صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بھی منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام معاشی ترقی کی راہیں کھول دے گا۔

دوسری جانب نگران حکومت نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام مکمل کرنے کے لیے 26میں سے 25شرائط پر عملدرآمد مکمل کر کے رپورٹ آئی ایم ایف کو بھجوا دی ہے۔

امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان اس سال واجب الادا اربوں کا قرض ادا کرنے میں مدد کے لیے آئی ایم ایف سے کم از کم 6بلین ڈالرز کا نیا قرض حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

بلاشبہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام کا سفر آسان ہوجائے گا، پاکستانی عوام آنے والی حکومت سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، سابقہ دور حکومت میں ایک قانون سازی کے ذریعے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے معاشی ترقی میں بھی پاکستان کی مسلح افواج کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اہم وجوہات میں ایس آئی ایف سی کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے کاوشوں کے علاوہ روپے کی قدر میں ہونے والے سٹے بازی اور ریئل اسٹیٹ کی مارکیٹ میں لگنے والے سرمائے کی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی جانب منتقلی اہم ہیں۔ دنیا میں پالیسی ریٹ نیچے آ رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ ابھی تک بلند ترین سطح پر ہے، جب تک ملک میں مہنگائی کم نہیں ہوگی، آئی ایم ایف پالیسی ریٹ نیچے آنے نہیں دے گا، لہٰذا مہنگائی کم کرنے کے لیے بجلی اورگیس کی قیمتوں میں کمی لانا ہو گی۔

بجلی گیس کی قیمتیں نیچے لانے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں چوری کو روکا جائے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تقریباً 580ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہی ہیں۔ گیس فراہم کرنے والی دونوں کمپنیاں تکنیکی طور پر ڈیفالٹ ہیں۔ ملک میں تقریباً 20فیصد گیس چوری ہوتی ہے جس پر قابو نہیں پایا جا رہا۔ پاکستان کو صرف آئی ایم ایف سے نہیں بلکہ دوست ممالک سے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔

ایک صورت میں نئی حکومت کے لیے مشکلات کم ہو سکتی ہیں، اگر وہ ایس آئی ایف سی کو قانونی تحفظ دیں اور اس کی پالیسیز کو آگے لے کر چلیں۔ کیونکہ یہ ادارہ تقریباً دو سال سے کام کر رہا ہے اور معاشی میدان میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں،گو کہ مارکیٹ میں ڈالر کے حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن اگر ایس آئی ایف سی کو نئی حکومت سپورٹ کرتی رہی تو ڈالر کی قیمت میں زیادہ اتار چڑھاؤ بھی نہیں ہو سکے گا اور مارکیٹ میں استحکام آ سکتا ہے۔

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے دفاتر نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان انفرادی طور پر فری لانسنگ کی ویب سائٹس کے ذریعے کام کر رہے ہیں اور پاکستان فری لانسنگ میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن گیا ہے۔

نگران حکومت نے اس حوالے سے ایک پالیسی کا اجرا کیا ہے جس میں آئی ٹی کی برآمدات 10ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے لیکن اس حوالے سے متعدد رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کی 50فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں مقیم افراد کے لیے اس شعبے میں آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے سب سے اہم اس کا انفرا اسٹرکچر ہے لیکن ملک کی ٹیلی کام کمپنیاں مسلسل مشکلات کا شکار ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت نے ان کے کاروبار کو مشکل بنا دیا ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں پر سپر ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے ٹیکس 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہوگیا ہے۔ موبائل فون کے استعمال پر ودھ ہولڈنگ ٹیکس 12.5 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد کردیا گیا ہے، شرح سود 22 فیصد کو پہنچ چکی ہے، جب بھی ایک فیصد شرح سود بڑھتی ہے تو ٹیلی کام صنعت پر ڈیڑھ ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے خدمات کی فراہمی کی لاگت تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ ٹیلی کام صنعت کو انٹرنیٹ اور دیگر خدمات فراہم کرنے کے لیے اسپکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے۔

سال 2004ء میں اسپکٹرم کی فی میگا ہرٹز لاگت ایک ارب روپے تھی جوکہ اب بڑھ کر ساڑھے 8 ارب روپے ہوگئی ہے اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے لیکن موبائل فون پر اوسط انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اسپکٹرم کی فی میگاہرٹز لاگت میں اضافہ روپے کی قدر میں کمی سے ہوا ہے کیونکہ اسپکٹرم کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔

سال 2017ء میں ایک صارف یومیہ اوسطاً 2 جی بی انٹرنیٹ استعمال کرتا تھا جوکہ اب بڑھ کر یومیہ 8.3 جی بی ہوچکا ہے۔ عمومی مہنگائی کی وجہ سے عوام میں ٹیلی کام پر ہونے والے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر صنعتیں ایسی ہیں جو مقامی خام مال کے بجائے درآمدی خام مال پرکام کرتی ہیں۔ ان میں آٹوموبیل، کیمیکلز، ادویات سازی، پٹرولیم، فولاد سازی اور ٹیکسٹائل کی صنعت شامل ہیں۔ سابقہ حکومت کے دور میں زرِمبادلہ کی قلت کی وجہ سے ایل سیزکھولنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس عمل نے درآمدی خام مال پر کام کرنے والی صنعتوں کو بری طرح متاثرکیا اور انھوں نے اپنے پیداواری یونٹس کو عارضی طور پر بند کیا جس سے صنعتی ترقی متاثر ہوئی۔ صنعتی پیداوار کے مسلسل 14 ماہ گرواٹ کے بعد اگست 2023ء میں صنعتی پیداوار میں 2.5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

اس کی وجہ ایل سیز کھولنے پر لگی پابندیوں کے خاتمے اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں بہتری ہے۔ عالمی سطح پر بھی معاشی سرگرمیوں میں بہتری نے ملکی برآمدی اور مقامی صنعت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ٹیکسٹائل، غذائی اجناس، مشروبات اور ادویات سازی میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔

ایس آئی ایف سی نے بھی قلیل مدت میں زرعی شعبے میں کامیابی سے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ زرعی ترقی کے پروگرام پاکستان گرین انیشیٹو کے تحت ملک کے صحرائی علاقوں میں زراعت کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔

مستقبل میں پاکستان نہ صرف مقامی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوگا بلکہ چین اور خلیجی ممالک کی زرعی ضروریات کو بھی پورا کرسکے گا۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پہلے مرحلے میں چولستان کے صحرائی علاقے میں زراعت کا آغاز کیا گیا ہے اور جہاں ریت اڑا کرتی تھی اب وہاں سبزہ لہلہا رہا ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں توانائی کی قلت اور مہنگائی کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں لیکن گزشتہ سالوں سے بجلی کی سپلائی میں بہتری آئی ہے تاہم اس کی قیمت اب بھی علاقائی ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہماری برآمدات کو بین الاقوامی منڈیوں میں سخت مسابقت کا سامنا ہے۔ ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت میں توانائی کا حصہ 30سے 35فیصد ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی ہوئی۔

ٹیکسٹائل سیکٹر سو فیصد ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ اس کی برآمد بھی کر رہا ہے جب کہ اس میں فیصل آباد کا حصہ 50فیصد سے بھی زائد ہے، معاشی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکومت کا حجم کم رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ سال دوہزار آٹھ کے بعد سے تمام سیاسی جماعتیں مزید ڈویژنز اور وزارتیں تشکیل دے رہی ہیں جس سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے طرز حکمرانی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہیں کی جاسکتی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی جانی چاہیے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مطالبات کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے قبول کیا جانا چاہیے لہٰذا حکومت کے پاس سکڑتے ہوئے سماجی شعبے پر کفایت شعاری کی تلوار دبانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

سماجی شعبے کے بجٹ میں کٹوتی سے ایک ایسے ملک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جہاں دوہزاربائیس کے سیلاب کے بعد بھی لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ ملک کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پہلے ہی ناقص ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان کی ساڑھے بیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ غذائی قلت کا دہرا بوجھ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے تقریباً تین میں سے ایک بچے کا وزن کم (اٹھائیس اعشاریہ نو فیصد) ہے۔

یہ ان ہزاروں اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی صحت کے یونٹوں کے علاوہ ہے جو برسوں سے مناسب سہولیات سے محروم ہیں۔ صرف عوام دوست نقطہ نظر ہی ملک کو اس طرح کے بے شمار بحرانوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ نئی حکومت کو سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان شراکت داری قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔

یہ شراکت جدت کے فروغ‘ علاقائی ویلیو چینز کے لیے پیداواری صلاحیت کی تعمیر اور صوبوں کے درمیان مشترکہ سرگرمیوں کو ممکن و آسان بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ آخر میں، انسانی سرمائے کو بہتر بنانے سے پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور اِس سے غربت میں کمی بھی آسکتی ہے۔ اِن اہداف کے حصول کے لیے قومی اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل اور اِن پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں