1

دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے

ارادہ تو مسلم لیگ ن کے متوقع فیصلوں پر اظہار خیال کا تھا لیکن سوشل میڈیا میں اٹھ کھڑی ہونے والی ایک بحث نے کچھ دکھی کیا، کچھ پریشان کیا۔ یوں میں نے پاکستان کی تاریخی خلائی پیش رفت کو موضوع بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک کم چالیس برس ہوتے ہیں جب میرے سر کے بال گھنے اور سیاہ کالے تھے۔

تازہ تازہ عینک لگی تھی اور میں اپنی ان ہی عینک لگی آنکھوں میں ایک ایسے پاکستان کے خواب سجائے رکھتا تھا جس کا مشرقی پاکستان اُس سے کبھی علیحدہ نہ ہو سکے اور کسی اندرا گاندھی کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ آمریت کو جھنجھوڑ دینے والی ایم آر ڈی کی تحریک کو میرے وطن کی کمزوری سمجھ کر کوئی نئی مہم جوئی بھی خیال میں لائے۔

ان دنوں میں علی الصبح اٹھ کر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں صحافت کے نشیب و فراز سیکھتا اور شام ساڑھے چار بجے سے رات ڈیڑھ بجے تک روزنامہ ‘ مشرق ‘ کراچی مرحوم میں مزدوری کر کے اپنے اخراجات پورے کیا کرتا۔ یہ عین ان ہی دنوں کی بات ہے جب سپارکو نے اپنا پہلا سیارہ بدر اوّل خلا میں بھیجا۔

جیسا کہ خیال کیا جاسکتا ہے، یہ سیارہ بھی اپنے دوست چین کے تعاون سے بھیجا گیا تھا۔ اگر میں بھولتا نہیں ہوں تو ڈاکٹر سلیم محمود ان دنوں سپارکو کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور اس مشن کی کامیابی بھی ان کی نگرانی میں ہی ممکن ہو پائی تھی۔ بدر اوّل کی پرواز( لانچ) مجھے کل کی طرح یاد ہے۔ اخبار والے جانتے ہیں کہ نائٹ ڈیسک پر اُن دنوں کام کا کتنا دبا ہوا کرتا تھا کہ 80 سے 90 فیصد خبروں کا انگریزی سے اردو ترجمہ ناگزیر ہوتا تھا۔

اخبار کے پہلے اور آخری صفحے کا تمام تر مواد ہاتھ سے لکھا جاتا تھا جسے اساتذہ میٹر کہا کرتے۔ اسی طرح اخبار کی سرخیاں بھی ہاتھ سے لکھی جاتیں۔ ہیڈ کاتب عبد الرشید شاہد صاحب سرخیاں لکھ لیتے تو خود ہی اسے ہاتھ میں لے کر ڈارک روم جاتے جاتے ہیں جہاں ان کے نیگیٹو پازیٹو بنتے پھر اخبار کی ایک ایک سطر ہاتھ سے جوڑی جاتی۔ بتانا یہ ہے کہ اس زمانے میں کتنی مصروفیت ہوا کرتی تھی۔

اسی مصروفیت کے دوران میں بدر اوّل کا لانچ تھا جسے ہم نے گھنٹوں ہاتھ روک دیکھا پھر ہمارے نعروں سے لال کوٹھی کا علاقہ (جہاں مشرق کراچی کا دفتر تھا) گونج اٹھا۔ راکٹ نے جیسے ہی شعلہ پکڑا، ہمارے دل اچھل کر مٹھی میں آ گئے اور ہم نے خوشی اور تشکر سے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ یہ منظر دیکھا۔ آرزو تھی کہ ایک روز ہمارا خلائی جہاز بھی چرخہ کاتنے والی مہربان بڑھیا کی جانی پہچانی سرزمین پر اترے گا اور ہمارا سبز ہلالی پرچم وہاں لہرا کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دے گا۔

بدر اوّل کے بعد سپارکو نے چند مزید منصوبے بھی بنائے جنھیں اس زمانے کی سوویت یونین کے تعاون سے خلا میں جانا تھا۔ ہمارا راکٹ ماسکو گیا بھی لیکن بُرا ہو اس سرد جنگ کا جس نے ہمیں اور سوویت یونین کو دو علیحدہ علیحدہ دھڑوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اس وجہ سے ماسکو والوں نے اس کے بارے میں گہری خاموشی اختیار کر لی اور اسی دوران میں ہمارے ازلی حریف یعنی بھارت کا راکٹ خوشی خوشی خلا میں بھیج دیا۔ اُس زمانے سے لے کر آج تک یہ دل ایک زخم لیے پھرتا تھا جس پر 4 مئی کے تاریخی دن نے مرہم رکھا ہے جب ہمارا آئی کیوب قمر خلا میں چاند کے سفر پر روانہ ہوا ہے۔

آئی کیوب قمر کے بارے میں سوشل میڈیا پر اب تک جتنا کچھ آ چکا ہے ، اسے پڑھنے کے بعد آج کے نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر یہ سفید بالوں والا آدمی اس قدر جذباتی کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب تو میرا خیال ہے کہ میں دے چکا ہوں لیکن اصل بات جو سمجھنے والی ہے، یہ ہے کہ پاکستان کی اس کامیابی پر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں کوئی ترنگ کیوں نہیں اٹھی اور ان کی زبانوں پر الٹی سیدھی باتیں کیوں آ رہی ہیں؟ ویسے سچ تو یہ ہے کہ جن باتوں کو میں نے الٹا سیدھا کہا ہے، انھیں جان کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے دکھ کا اندازہ آپ کو ان میں سے صرف باتوں کے محض اشارے پڑھ کر ہو جائے گا:

1 ۔یہ خلائی مشن تو بس ایسا ہے کہ ایک بس کہیں جا رہی تھی، ایک بکسہ ہم نے بھی اس میں رکھ دیا۔

2۔ آخر ہم کس کو دکھانے کے لیے چاند پر جا رہے ہیں، کھانے کو تو ہمارے پاس کچھ ہے نہیں۔

اس کے علاوہ جو پھبتیاں کسی گئی ہیں اور گالی گلوچ کی گئی ہے، اس کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نوجوان اتنے ہی سطحی ہو گئے ہیں کہ انھیں سائینٹفک اور خلائی تحقیق کی اہمت ذرا سی بھی معلوم نہیں یا پھر وہ کسی ایسے سوشل میڈیا بریگیڈ کا حصہ بن چکے ہیں جس کی نگاہ میں سیاسی محاذ آرائی قومی مفاد سے زیادہ اہم ہے؟

بات جو بھی ہو، ہمیں کسی جگہ ٹھہرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان کوئی سیاسی مؤقف رکھتے ہیں لیکن یہ بات بالکل خوشی کی نہیں ہے کہ سیاسی مؤقف نے اتنا غلبہ اختیار کر لیا ہے کہ اس کے مقابلے میں ملک کی عزت اور قوم کا اجتماعی مفاد بھی دم توڑ گیا ہے۔ ایک پہلو تو اس المیے کا یہ ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں خود ترسی ( Self pitiness) کی کیفیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ مرض کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

اپنی ہر کام یابی کو شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم ایسے کون سے فرہاد ہیں کہ ایسا کر پائیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اب ہم خود ترسی کی کیفیت سے نکل کر خود انہدامی کی منزل پر جا پہنچے ہیں۔ ایسی کیفیات ہی ہوتی ہیں جب آرزوئیں دم توڑ جاتی ہیں اور بلند مقاصد کے خواب دیکھ کر انھیں حقیقت بنانے والے کوچ کر جاتے ہیں۔ ہمیں اگر مسائل سے نمٹ کر اپنی دنیا جنت بنانی ہے تو پھر اس منفی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔

یہ تو ہوئی قوم کی ذمے داری لیکن اس کے ساتھ ہی مایوسی فروخت کرنے والوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، وہ خواہ خود ساختہ دانش ور ہوں یا نام نہاد اہل سیاست۔ قومیں امید سے بنتی ہیں، یاسیت کے کاروبار سے نہیں۔ ایسا کاروبار اگر بے قابو ہونے لگے تو پھر کچھ ذمے داری ریگولیٹرز کی بھی ہوتی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں