1

دوستی نہیں ٹیم کا سوچیں

ماضی میں جو ہوا اسے بھلا دیں اور آگے کا سوچیں، کرکٹ ٹیم گیم ہے جب تک سب متحد نہ ہوئے مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکتے (فوٹو: پی سی بی)

ماضی میں جو ہوا اسے بھلا دیں اور آگے کا سوچیں، کرکٹ ٹیم گیم ہے جب تک سب متحد نہ ہوئے مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکتے (فوٹو: پی سی بی)

’’یہ حسن علی ہر ورلڈکپ سے قبل پیراشوٹ لگا کر قومی ٹیم میں کیسے آ جاتا ہے، اس نے تو دو سال سے پاکستان کیلیے کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ بھی نہیں کھیلا‘‘

’’اسامہ میر پی ایس ایل میں سب سے زیادہ وکٹیں لے کر کیسے باہر ہو گیا‘‘

’’عثمان خان کس کی پرچی ہے، نیوزی لینڈ کیخلاف پوری سیریز میں ایک بڑی اننگز بھی نہیں کھیل پایا اور بدستور ٹیم میں شامل ہے‘‘

حالیہ چند دنوں میں آپ نے سوشل میڈیا یا عام زندگی میں اپنے دوستوں سے ایسے تبصرے ضرور سنے ہوں گے، سلیکٹرز نے تنقید سے بچنے کیلیے اس بار 18 کھلاڑی منتخب کیے تاکہ کسی کو ڈراپ کرنے پر شور نہ مچے لیکن پھر بھی غلطیاں کر ہی گئے،شائقین کی تشویش غلط نہیں، پی ایس ایل سے قبل ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ عامر ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل ہوں گے اور اب ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے، ہر میگا ایونٹ میں چند ایسے کھلاڑی اچانک سامنے آ جاتے ہیں جو پہلے کسی گنتی میں ہی شامل نہیں ہوتے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا،اس کی وجہ نجانے کیا ہوتی ہے، ورلڈکپ میں اب ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا، بیشتر اسکواڈز منتخب ہو چکے لیکن ہمیں بدستور مسائل کا سامنا ہے۔

ہمارا اوپننگ پیئر ہی سیٹ نہیں، صائم ایوب کا ’’نولک‘‘ شاٹ سلیکٹرز کو اتنا بھایا کہ ان سے نگاہیں ہی نہیں ہٹتیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ باصلاحیت ہیں لیکن جب تک پرفارم نہ کریں ان کا ٹیلنٹ کس کام کا ہے، بابر اعظم کے ساتھ صائم کی اوپننگ جوڑی اب تک خاص کھیل پیش نہیں کر سکی، بہت سے لوگ محمد رضوان اور کپتان سے اننگز کا آغاز کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر اس میں مسئلہ پاور پلے کا ہوگا کیونکہ دونوں بیٹرز ایک ہی انداز میں کھیلتے اور سیٹ ہونے میں وقت لیتے ہیں، آئیڈیل صورتحال فخر زمان اور بابر اعظم کا اوپننگ پیئر ہو سکتا ہے لیکن نجانے کیوں فخر کو لفٹ ہی نہیں کرائی جا رہی، اب بھی میڈیا سے بات چیت میں وہ خود کہہ رہے تھے کہ چوتھے نمبر پر بیٹنگ کریں گے،درمیانی اوورز میں رن ریٹ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، افتخار احمد ایک اوور ریٹڈ کرکٹر ہیں۔

انھیں آل رائونڈر کہا جاتا ہے لیکن بولنگ کم ہی ملتی ہے، بیٹنگ میں ان کا اسٹرائیک ریٹ دیکھ لیں صلاحیتوں کا اندازہ ہوجائے گا، ایسے میں اعظم خان کو مواقع دینا درست ثابت ہو سکتا ہے، گوکہ وہ عالمی سطح پر تاحال اصل صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر پائے لیکن ویسٹ انڈین پچز پر کھیلنے کا تجربہ ان کے کام آئے گا ، شاداب خان کی بولنگ اوسط درجے کی ہے لیکن بیٹنگ فارم زبردست ہے، انھیں بھی اوپر کے نمبرز پر آزمایا جا سکتا ہے، عماد وسیم کو اب واپس بلایا ہے تو ان کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، سلمان علی آغا کو کس کارکروگی پر واپس لایا گیا اس کا جواب تو سلیکٹرز ہی دے سکتے ہیں، پیس اٹیک کاغذ پر تو بیحد مضبوط دکھائی دیتا ہے، اس میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، حارث رئوف سمیت کئی بڑے نام موجود ہیں، البتہ سب جانتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز میں اسپنرز کا کردار زیادہ اہم ہوگا۔

اسی لیے بھارت سمیت کئی ٹیموں نے 4،4 سلو بولرز منتخب کیے ہیں، پاکستان کا پارٹ ٹائمرز پر زیادہ انحصار ہوگا، اسامہ کو بھی موقع دینا چاہیے تھا، لگتا ہے بابر اعظم نے آتے ہی سلیکشن میں اپنی من مانیاں شروع کر دی ہیں، ان پر پہلے بھی دوستی یاری نبھانے کا الزام لگ چکا لہذا اب محتاط رہنا چاہیے، ٹیم کو متحد کرنا سب سے اہم ہے لیکن نئے کوچ گیری کرسٹن ان دنوں آئی پی ایل میں کوچنگ کررہے ہیں، مکی آرتھر کی طرح انھوں نے آن لائن سیشن تو کیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کرسٹن آئرلینڈ سے سیریز میں دستیاب نہیں اور انگلینڈ میں ٹیم کو جوائن کریں گے، پھر ورلڈکپ آ جائے گا، ایسے میں انھیں کھلاڑیوں کو کچھ سکھانے کا موقع نہیں مل سکے گا، پھر وہی بات سامنے آئے گی کہ ’’جادو کی چھڑی نہیں تھی کہ چند دن میں سب تبدیل کر دیتا’‘15 رکنی اسکواڈ جب فائنل ہوا تب ہی حکمت عملی کا اصل اندازہ ہو پائے گا، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے ورلڈکپ سے قبل ہی کھلاڑیوں کو بڑی ترغیب دلا دی ہے، جیتنے پر سب ایک، ایک لاکھ ڈالر (تقریبا 2 کروڑ 80 لاکھ روپے) وصول کر سکیں گے، پلیئرز کو پہلے سے ہی بخوبی علم ہے کہ جیتنے پر وارے نیارے ہونے ہیں، بورڈ،حکومت، دیگر شخصیات انھیں سونے میں تول دیں گی لیکن سوچنا آسان عمل کرنا مشکل ہے۔

ورلڈکپ سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے،اس میں شرکت ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، فلاں کپتان کیوں بنا، یہ کیوں ٹیم میں آیا، اس کی شکل مجھے پسند نہیں، یہ فلاں کا بندہ ہے، ایسی باتیں بھول کر صرف پاکستان کا سوچیں، اگر اچھی کارکردگی سامنے آئی تو کھلاڑیوں کا ہی نام ہوگا، اس لیے دل صاف کر کے ٹیم کیلیے کھیلنا ہوگا، ماضی میں جو ہوا اسے بھلا دیں اور آگے کا سوچیں، کرکٹ ٹیم گیم ہے جب تک سب متحد نہ ہوئے مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔

محسن نقوی اس حوالے سے کوشش تو بڑی کر رہے ہیں، انھوں نے ٹیم کو ملاقات کیلیے بھی بلایا اور پلیئرز کے حوصلے بڑھائے، اسکواڈ میں باصلاحیت کرکٹرز موجود ہوں تب بھی جیت کیلیے ضروری ہوتا ہے کہ متوازن پلئینگ الیون کا انتخاب کیا جائے، بابر اعظم اور ٹیم مینجمنٹ کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا، کوئی دوست ہے یا پسند نہیں تو یہ بات بھول کر صرف اتنا سوچیں کہ ٹیم کے کام آ سکتا ہے یا نہیں، سپر اسٹارز خود کو غیرمحفوظ نہیں سمجھتے کیونکہ کوئی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتا، لہذا اگر اوپننگ میں بھی کوئی منفرد فیصلہ کرنا پڑے تو کر گذریں،انفرادی ریکارڈز نہیں ٹیم کی جیت کو یاد رکھا جائے گا،اس بار ایسا سوچ کردیکھیں، یقین مانیے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور پھر آپ کی ہی واہ واہ ہو گی تو کیا خیال ہے ہو جائے اس بار کچھ نیا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں