1

زکوٰۃ کی اہمیت و فرضیت اور اس کے مصارف

زکوٰۃ اسلام کا اہم رکن ہے قرآن کریم میں ایمان کے بعد نماز اور اس کے ساتھ ہی جابجا زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے ۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانا کے ہیں، یہ مالی عبادت ہے ۔ یہ محض اداروں کی کفالت اور دولت کی تقسیم کا ایک موزوں ترین عمل ہی نہیں بلکہ ایسی عبادت ہے جو قلب اور روح کا میل کچیل بھی صاف کرتی ہے ۔

انسان کو اللہ کا مخلص بندہ بناتی ہے ۔ نیز زکوٰۃ اللہ کی عطا کی ہوئی بے حساب نعمتوں کے اعتراف اور اْس کا شکر بجا لانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جس کا ادا کرنا فرض ہے اور آج مسلمان کوزکوٰۃ ادا کرنا گراں لگتا ہے، بہت سے مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت سے غافل ، بہت سے لوگ حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت زکوٰۃ سے بچ جائیں ، کچھ مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں مگر پورا حساب کتاب کئے بغیر محض اندازے سے یا ذوق کے مطابق کچھ مال زکوٰۃ کے نام سے نکال دیا حالانکہ یہ بھی بڑی کوتاہی ہے ، زکوٰۃ نکالنے کے لئے پہلے پورا حساب کتاب کیا جائے تاکہ زکوٰۃ کی اصل رقم معلوم ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی ترتیب بنائی جائے۔

زکوٰۃ کے بارے میں قرآن وحدیث میں کثرت اور وضاحت کے ساتھ تمام ضروری احکام و ہدایات موجود ہیں اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر بہت سخت وعیدات سنائی گئی ہیں اور یہ سب اہتمام ہم جیسے ایمان والوں کے لئے کیا گیا ہے جو نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اسلامی احکامات سے دور ہو جاتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔’’اور قائم کرو تم لوگ نماز کو اور زکوٰۃ ادا کرو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ‘‘ (سورہ البقرہ) اسلامی احکام میں اعمال دو قسم کے ہیں، ظاہری اعمال اور باطنی اعمال ، پھر ظاہری اعمال کی دو قسمیں ہیں بدنی عبادات اور مالی عبادات گویا اب تین کلیات ہو گئیں (۱) بدنی عبادات (۲) مالی عبادات (۳) باطنی اعمال، اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں ان تینوں کلیات کی اہم جزئیات بیان فرما دی ہیں ، بدنی عبادات کے سلسلے میں نماز کا ذکر کر دیا۔

مالی عبادات کے سلسلے میں زکوٰۃ کا ذکر کر دیا اور باطنی اعمال کے سلسلے میں عاجزی و تواضع کا ذکر کر دیا، اس سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ جس طرح بدنی عبادات میں نماز سب سے مقدم اور اہم ترین ہے اسی طرح مالی عبادات میں زکوٰۃ سب سے مقدم اور اہم ترین ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور میری رحمت (ایسی عام ہے کہ) تمام چیزوں کو محیط ہے۔

پس اس کو (کامل طور پر خاص کر کے) ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں‘‘ (سورہ اعراف) ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ سود بن کر لوگوں کے مال میں بڑھوتی کا سبب بنے تو یہ (چیز) اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتی اور جو زکوٰۃ (یا دیگر صدقات وغیرہ) دو گے جس سے تمہیں اللہ کی رضا مقصود ہو تو ایسے لوگ اپنے دیئے ہوئے مال کو اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہیں گے‘‘ (سورہ روم) ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: اللہ جل شانہْ کو اگر قرض دو اللہ کو اچھی طرح قرض دینا وہ دوگنا کرکے تم کو اور تم کو بخشے، اس کے مقابلے میں جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ان کے لیے اللہ کا ارشاد ہے ، ترجمہ: جو لوگ جمع کرتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں تو ان کو خوشخبری سنا دے عذاب دردناک کی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو تمہارے اوپر جو تمہارے مال کا فرض حق تھا وہ ادا کر دیا (سنن ابن ماجہ،1788) حضرت جابرؓ سے مروی ہے، ایک شخص نے آپﷺ سے عرض کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی ہو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے مال کا شر(نقصان دہ پہلو) ختم ہو گیا۔

(المعجم الاوسط للطبرانی،:1579) کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئی ہیں، ان میں ایک صفت زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے، زکوٰۃ ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، رقم الحدیث :280) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے (سنن ابو داؤد، کتاب الصلاۃ) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکوٰۃ ہے (مسند احمد) یہ انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے (مجمع الزوائد، کتاب الزکوٰۃ) زکوٰۃ کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں۔

وہاں اس فریضے کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے ، جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اْن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اْن کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا (سورۃ التوبہ :34.35) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کر اْس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا (سورہ آل عمران:180) ایسا مال آخرت میں اْس کے کسی کام نہ آ سکے گا (سورۃ البقرہ:254) زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا جہنم میں لے جانے والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے ۔

ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے، پھر وہ سانپ اْس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا ، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیا ہوا خزانہ ہوں۔ (صحیح بخاری) مرتے وقت ایسا شخص زکوٰۃ ادا کرنے کی تمنا کرے گا ، لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا (سورۃ المنافقون:10) ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی، اور اْن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینے کو داغا جائے گا (صحیح مسلم) جب کوئی قوم زکوٰۃ روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے ۔

(المعجم الاوسط للطبرانی) ان آیات اور احادیث کی رو سے زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مسلمان کے لیے آخرت کی نعمتوں کے حصول اور عذاب جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مسلمان کو یاد دلاتی ہے کہ جو دولت وہ کماتا ہے وہ حقیقت میں اس کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ پاک کی دی ہوئی امانت ہے، یہ احساس اسے معاشی بے راہروی سے بچاتا ہے اور اس کے تما م ا عما ل کو احکام الٰہی کے تابع کرتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق معاشی معاملات دین کا ایک حصہ ہیں۔ جب انسان دولت جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم پر خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جذبہ کی قدر کرتا ہے اور اس کے خرچ شدہ مال کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا یہ قرض وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا ۔ زکوٰۃ کے نظام سے دولت کا ایک حصہ امیر طبقہ سے غریب طبقہ کی جانب بھی مڑ جاتا ہے ۔ جس سے غریب کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے ۔

معاشرے میں دولت کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں خون کی۔ اگر یہ سارا خون دل میں ( یعنی مالدار طبقے) میں جمع ہو جائے تو پورے اعضائے جسم (یعنی عوام) کو مفلوج کر دینے کے ساتھ ساتھ خوداپنے لئے بھی مضر ثابت ہو گا۔ اگر ایک طرف مفلس طبقہ نا داری کے مسائل سے دوچار ہو گا تو دوسری طرف صاحب ثروت طبقہ دولت کی فراوانی سے پیدا ہونے والے اخلاقی امراض مثلاً عیاشی اور فکر آخرت سے غفلت کا شکار ہو جائے گا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ان دونوں طبقوں میں حسد اور حقارت کے علاوہ کوئی رشتہ باقی نہیں رہے گا ۔ ان تمام انفرادی اور اجتماعی فوائد کے پیش نظر حضورﷺ کو مدینے کی اسلامی ریاست کے قیام کے فوراً بعد اللہ نے حکم دیا کہ ان کے مال کو زکوٰۃ کی ادائیگی سے پاک کرے اور بابرکت کرے ۔ حقیقت میں ایماندار مسلمان وہی ہے جو یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے خرچ کیا جائے گا وہ ضائع نہیں ہو گا بلکہ اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا ۔

ایک مومن وہ ہے جو دولت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں جگہ دیتا ہے جس کے فضل و کرم سے اسے دولت حاصل ہوئی اور وہ دولت اسی کی راہ میں خرچ کر رہا ہوتا ہے! زکوٰۃ دین کا ایک اہم رکن ہے اور یہ ایک ٹیکس نہیں ہے بلکہ دراصل یہ اسلام کی روح اور جان ہے۔ یہ درحقیقت ایمان کا امتحان ہے ۔ جب مال کی قربانی کا امتحان بھی پاس کر لیتا ہے تو پورا مسلمان بن جاتا ہے۔ (سورۃ توبہ60)

اسلام میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں جن میں فقراء اور مساکین کے علاوہ عاملین زکوٰۃ بھی شامل ہیں یعنی وہ زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ و غیرہ لے سکتے ہیں ، زکوٰۃ کے حق دار آٹھ قسم کے لو گ ہیں ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ ان کی تفصیل اور توضیح اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں بیا ن فرما دی ہے (1) فقراء: فقر کی جمع ہے۔

اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گزر بسر کیلئے کچھ نہ ہو (2) مسا کین:اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے جا ئز اخراجات زیادہ ہو ں اور آمدن کم ہو (3)عاملین:جو زکوٰۃ وصو ل کر نے اس کا حساب وکتاب رکھنے کے ذ مہ دارہوں (4) مؤلف القلوب: اس سے مراد وہ کا فر ہے جس سے امید ہو کہ وہ مال لے کر مسلمان ہو جا ئے گا یا مسلمانو ں کو ایزا دینے سے رک جائے گا (5) فی الرقاب:گردنیں آزاد کروانے کیلئے، یعنی غلام مسلمان کو آزاد کروانے کے لئے اور مسلمانوں کو دشمن کی قید سے رہائی کے لئے (6) غارمین : مقروض جو اپنا قرض ادا نہیں کر سکتے ان پر زکوٰۃ خرچ کر کے قرض سے نجات دلانے کیلئے (7) فی سبیل اللہ: اس سے مراد جہاد ہے اور جہاد اسلام کی چوٹی ہے جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین کے جملہ مصارف وضروریات کو پورا کرنے لئے زکوٰۃ کو خرچ کرنا حدیث سے ثابت ہے ۔

ایک آدمی نے اپنی نکیل والی اونٹنی راہ جہاد میں وقف کی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے اس اونٹنی کے بدلے سات سو اونٹنیاں عطا فرمائے گا اور سب نکیل والی ہوں گی۔ اس مصرف پر مسلمانو ں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے (8) مسافر: جس کا دوران سفر زاد راہ ختم ہو گیا اس کو زکوٰۃ کے مال سے دینا تا کہ منزل مقصود تک پہنچ جا ئے۔

زکوٰۃ کن پر خرچ نہیں ہو سکتی : آل رسولﷺ ، امیر و مالدار، غیرمسلم اور ایسے لوگ جن کے اخراجات و کفالت کا ذمہ دارخود زکوٰۃ دہندہ ہے ان پر زکوٰۃ کا مال صرف نہیں کیا جا سکتا۔ زکوٰۃ سونے چاندی، مال تجارت اور جانوروں پر اور زمین کی پیداوار پر فرض ہے۔ زکوٰۃ نہ ادا کرنے والوں کی سزا : جو لوگ سونے اور چاند ی کو جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ نبی کریمﷺ نے فر مایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال ودولت گنجے سانپ کی شکل میں اس پر مسلط کر دیا جائے گا جو اس کو مسلسل ڈستا رہے گا اور کہے گا میں تیرا مال اور خزانہ ہوں، جس آدمی نے اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو گی قیا مت والے دن وہ جا نور اس آدمی کو سینگو ں سے ماریں گے اور اپنے قدمو ں تلے روندیں گے۔

زمین کی پیدا وار میں سے عشر ہے۔ بارانی زمین بیسواں حصہ بیس من میں سے دو من اور جس زمیں کو ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کیا جاتا ہو اس کے بیس من میں سے ایک من ہے یعنی نصف ۔ اللہ تعالیٰ نے قر آن میں ارشاد فرمایا ’’ اے ایمان والو خرچ کرو پا کیزہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکا لی ہیں‘‘ (البقرۃ آیت 267) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’فصل کی کٹائی کے وقت اس کا حق ادا کر و‘‘ (سورۃ الانعام آیت نمبر 142) نبیﷺ نے فرمایا جس زمین کو با رش کے پا نی یا چشمہ سے سیراب کریں یا زمین تروتازہ ہو اس کی پید اوار میں سے دسواں حصہ ہے اور جس زمین کو کنویں کے ذریعے پا نی دیا جائے اس میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔ ( صحیح بخاری)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں